روزے داروں کی چند خطاؤں پر تنبیہ

بسم اللہ الرحمان الرحیم

رحمت عالم کا فرمان عالی ہے:’’ روزہ دوزخ سے بچنے کے لیےایک ڈھال ہے ، اس لیے (روزہ دار ) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جاہلانہ گفتگو کرے ۔ اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دےتو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزے دار ہوں ۔ وہ یہ بات دو بار کرے۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے ۔( اللہ تعالی فرماتاہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑتا ہے ، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور دیگر نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔‘‘ صحیح بخاری حدیث نمبر:1894

معزز قارئین کرام!
روزہ نہایت قیمتی اور بے مثال عبادت ہے۔ اس کا اجروثواب بے حساب ہے ۔ اس لیے اس کی حفاظت کرنا بھی اشد ضروری ہے ۔روزے دار کو ایسےتمام امور اور چیزوں سے بچنا چاہیے جن سے اس کا روزہ خراب ہوتاہے اور اس کےاجروثواب میں کمی آتی ہے۔ ذیل میں کچھ ایسی ہی خطاؤں پر تنبیہ کی گئی ہے ۔

1. فرضی روزے کی نیت رات کو کرنا ضروری ہے ۔جبکہ پورے رمضان المبارک کی نیت ایک ہی بار کر لینا بھی کافی ہوتاہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:مَنْ لَمْ يُبَيِّتِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ ، فَلاَ صِيَامَ لَهُ. سنن النسائی :2331
’’جس شخص نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی تو اس کا روزہ نہیں ہے۔‘‘
البتہ نفلی روزے کی نیت زوال سے پہلے پہلے کی جا سکتی ہے بشرط کہ صبح سے کچھ کھایا پیا نہ ہو۔(دیکھیے صحیح مسلم:1154)

2. اذان فجر کے بعد بھی سحری کھاتے رہنا ۔البتہ اذان شروع ہو جائے اور روزے دار کے چند لقمے یا تھوڑا سا مشروب پینا باقی ہو تو اسے مکمل کر سکتا ہے ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ فَلاَ يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِىَ حَاجَتَهُ مِنْهُ
’’جب تم میں سے کوئی شخص اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے فوراً نہ رکھ دے بلکہ اپنی ضرورت پوری کر لے۔‘‘سنن ابوداود:2352

3. رات کوتا دیر بلا فائدہ جاگتے رہنا اور پھر طلوع فجر سے کئی گھنٹے پہلے سحری کر کے سو جانا حالانکہ مسلمانوں کو سحر ی میں تاخیر کرنے اور افطاری میں جلدی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔’’ ثلاث من أخلاق النبوة : تعجيل الإفطار و تأخير السحور و وضع اليمين على الشمال في الصلاة۔صحیح الجامع :3038
’’ تین چیزیں اخلاق نبوت سے ہیں-1- روزہ جلدی افطار کرنا(سورج غروب ہوتے ہی افطاری کرنا)-2- سحری دیر سے کرنا -3- نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھنا۔‘‘

4. سحری اور افطاری میں اسراف کرنا ، ایک وقت میں کئی کئی کھانوں کا اہتمام کرنا ، اور بہت سا کھانا ضائع کرنا۔ارشاد باری تعالی ہے:وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ۔ الاعراف:31
’’اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘
جبکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالْبَسُوا وَتَصَدَّقُوا فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ ، وَلاَ مَخِيلَةٍ.
’’ اسراف اور فخروغرور کااظہار کیے بغیر کھاؤ ، پیو ، لباس پہنو اور صدقہ کرو‘‘۔صحیح بخاری

5. روزہ رکھنے کے باوجود نمازوں میں سستی کرنا ، دو نمازوں کو بلا وجہ جمع کر کے ادا کرنا یا فجرومغرب کے علاوہ نمازوں کی پرواہ نہ کرنا۔حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہےوَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
’’ اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ‘‘الروم :31
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔’’إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلاَةِ‘‘
’’بے شک آدمی اور اس کے شرک و کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے ۔‘‘صحیح مسلم :82

6. روزے کے دوران زبان کی حفاظت نہ کرنا۔ جھوٹ ، غیبت، چغلی ، بے ہودہ گوئی اور فحش کلام کرنا۔ گندے لطیفے گھڑنا اور فیس بک وغیرہ پر شیئر کرنا۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ۔ صحیح بخاری:1903
’’جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا ، تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

7. روزے کے دوران فلم اور میچ دیکھنا ،فضول گیموں کے ذریعے وقت برباد کرنایا سوشل میڈیا پر بے کا ر کاموں میں مشغول ہونا۔ رمضان المبارک کی راتوں کو آوارہ گھوم پھر کے بابرکت اوقات ضائع کرنا۔

8. رمضان المبارک کے چند ابتدائی دنوں کے بعد نماز تراویح چھوڑ دینا ۔ حالانکہ آخری عشرے میں شب قدر کو تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ
’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، (3) اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں، (4) یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے‘‘

9. رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کریم ،ذکر الہیٰ ، نوافل اور نیکی کے کاموں میں سستی کرنا حالانکہ رمضان المبارک کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رمضان المبارک میں تلاوت قرآن مجید اور ذکر الہیٰ کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔

10. آخری عشرے میں دعوتوں میں رات گئے تک مشغول رہنا اور قیام اللیل کا اہتمام نہ کرنا ، جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے بارے میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :’’جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ اپنا تہبند کس کر باندھ لیتے اور رات بھر عبادت کرتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔‘‘ صحیح بخاری: 2024

11. رات بھر مذہبی پروگراموں میں شرکت کرنا اور نماز فجر سے کچھ دیر پہلے سو جانا۔نماز فجر کو ضائع کرنا بہت بڑی محرومی ہے۔

12. افطاری کے وقت انواع و اقسام کے کھانے دستر خوان پر سجانے میں لگے رہنا اور قبولیت کے اس وقت دعا کرنے سے محروم رہنا۔

13. سورج غروب ہونے کے بعد افطاری نہ کرنا اور احتیاطا کئی منٹ تاخیر کرنا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے۔لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ۔ صحیح بخاری:1957
’’ لوگ اس وقت تک خیر وبھلائی کے ساتھ رہیں گے جبتک وہ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘

14- بلا وجہ سحری چھوڑ دینا اور خواہ مخواہ کی مشقت برداشت کرنا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے ۔’’تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً۔صحیح بخاری:1923
’’سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے‘‘

15-خواتین کا زیب وزینت کے ساتھ مساجد میں نماز کے لیے آنا اور بازاروں میں رات گئے تک گھومت پھرنا۔ عورت کا خوشبو لگا کر مسجد آنا منع ہے ۔ تو بازار میں میک اپ کرکے گھومنا پھرناکس طرح درست ہوگا؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں کو شدید وعید سنائی ہے۔آپ کا ارشاد گرامی ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَى قَوْمٍ لِيَجِدُوا مِنْ رِيحِهَا فَهِيَ زَانِيَةٌ۔ سنن النسائی :5126

16- نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا نہ کرنا ۔صدقہ فطر روزے میں سرزد ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ کرتا ہے ۔ اس لیے صحابہ کرام عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کردیتے تھے۔ نماز عید کے بعد اس کی ادائیگی کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر (تمام چھوٹے بڑے ،مردوخواتین پر)فرض کیا ہے ۔ یہ روزے دار کی بےہودہ گوئی اور شہوت کی باتوں کی صفائی اور غرباء کے لیے کھانے کا اہتمام ہے۔جس نے نماز عید سے پہلے یہ ادا کر دیا اس کا یہ قبول شدہ صدقہ ہے اور جس نےنماز کے بعد ادا کیا تو وہ تو عام صدقہ ہے ( صدقہ فطر نہیں)
Muhammad Ajmal Bhatti
About the Author: Muhammad Ajmal Bhatti Read More Articles by Muhammad Ajmal Bhatti: 2 Articles with 3709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.