ڈاکٹر، ٹیسٹ اور مریض
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
لیاقت کا سانس مدت سے خرابی کی طرف مائل
تھا۔ اور پھر گرتے، گرتے اس کی صحت پستی کی اس انتہا کو پہنچ گئی کہ اس سے
سانس لینا مشکل ہو گیا۔ اس کا کیس پیچیدہ ہو تا گیا: سانس کے ساتھ ساتھ
شوگر اور بلڈ پریشر اور کئی اور قسم کے امراض بھی اس کی کمزور سی صحت کو
اپنا ہیڈ کوارٹرز بنا چکے تھے۔ جس طرح اچھائیوں کی آپس میں دوستی ہوتی ہے
ایسے ہی برائیوں کی بھی آپس میں ہم آھنگی ہوتی ہے۔بیماریاں بھی ایک دوسرے
کی فرینڈ ہوتی ہیں۔ایک کے ساتھ دوسری بھی در آتی ہے۔یہی لیاقت کے ساتھ ہوا:
دھیرے دھیرے وہ سادہ انسان پیچیدہ امراض میں مبتلا ہوتا گیا۔
اس کی مزدوری بھی ،صحت کی خرابی سے ،متاثر ہوتی گئی۔ یکے بعد دیگرے کئی کئی
دیہاڑیاں’ مرتی‘ گئیں اور لیاقت کا گھر، گھر سے گھروندا بنتا گیا۔اس
گھروندے میں اس کی پیاری سے تابع فرمان بیوی شکیلہ اور دو بچے : ارم اور
افضل تھے۔ ارم سات سال کی اور افضل پانچ برس کا ۔ دونوں گھر کے قریب کھلنے
والے پرائیویٹ سکول میں داخل کروائے گئے تھے، جس کی فیس باقی سکولوں سے
کافی کم تھی۔شکیلہ تھی تو ’چٹی انپڑھ ‘ لیکن وہ دل کی بھی ’ چٹی‘ ہی تھی۔
کتابوں کی سیاہی نے اس کے دل کی فطرتی اچھائی میں تکبر، انا ، حسد اور لالچ
جیسی برائیاں پروان نہیں چڑھنے دی تھیں۔اس کا گھر جنت سے کم نہ تھا، اگر
جنت کا تصور صرف ظاہر ی چیزوں کے لحاظ سے ہی نہ کیا جائے تو۔لیاقت کام کر
کے جبب بھی گھرواپس آتا تو اس کے بیوی ، بچوں کی ایک جھلک اس کی ساری
تھکاوٹ اتاردیتی ۔
لیاقت فرشوں کی رگڑائی کرنے والا ایک محنتی مزدور تھا۔اس کے کام میں بہت
زیادہ گرد اڑا کرتی اور اسے اپنا ناک، کان اور منہ کپڑے سے لپیٹ کر کام
کرنا پڑتا۔ وہ کام کرتے نہ تھکتا ۔ وہ کبھی مزدوروں والی چال بازی سے کام
لے کر مالک کا نقصان کرنے کا نہیں سوچتا تھا۔وہ ان محدودِ چند مزدوروں میں
سے تھا جو دیانتدار بھی ہوتے ہیں۔
اس کو کام کرتے کافی سال ہو چکے تھے وہ اپنی صحت کا خیال رکھا کرتا تھا
لیکن اخراجات کے بڑھنے اور پھر حالات کے تنگ ہونے سے اس کی اپنی صحت کی فکر
کم ہونے پر بیماری حملہ آور ہو گئی۔ جس سے آہستہ آہستہ اس کا جسمانی تنزل
شروع ہو گیا۔پھر معاشی تنزل نے سر اٹھا لیا اور پھر شکیلہ نے لوگوں کے
گھروں میں جا کے کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جسے پہلے تو لیاقت نے ماننے سے
سختی انکار کیا، لیکن جب حالات زیادہ خراب ہو گئے تو اس نے چند اچھے گھروں
میں جا کر کام کرنے کی شکیلہ کو اجازت دے دی۔
اس ساری کوشش کے باوجود اس کی بیماری میں کمی کی بجائے دن دو گنی رات چوگنی
بڑھوتری ہوتی گئی۔
جب اس کی حالت قابوسے باہر ہو گئی تو اسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں داخل کروا
دیا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں کو بیماری کی تشخیص کے لئے کئی ایک ٹیسٹوں کی ضرورت
تھی۔ اس کے جسم سے خون کے کئی ایک سیمپل نکالے گئے اور پھر لیبارٹری سے آنے
والے رزلٹوں کا انتظار کیا گیا۔ یہاں بھی کوئی خاطر خواہ افادہ نہ ہوا۔
ڈاکٹروں نے اس کی حالت کی بڑھتی ہوئی خرابی کے پیشِ نظر اسے لاہور کے بڑے
ہسپتال کے طرف ریفر کر دیا۔
بہت ساری پریشانیوں اور تھوڑی سی امید کے ساتھ لاہور کے ہسپتال میں اس مریض
کو لایا گیا۔ جہاں ایک بار پھر اس کے جسم سے خون کے سیمپل لینے کا سلسلہ
شروع ہو گیا۔ اور علاج کی طرف بس معمولی پیش رفت : ڈرپ اور آکسیجن لگا دی
گئی۔ شاید لیاقت کے پھیپھڑے، دل، گردے سب کچھ اتنا خراب ہو چکا تھا کہ
ڈاکٹروں کوسمجھ نہیں آرہی تھا کہ کس بیماری کا علاج شروع کیا جائے۔ کس کو
ہاتھ ڈالا جائے۔ کیا کیا جائے ؟
بس نرسیں صاف ستھرے سفید لباس پہنے آتیں ۔ ایک آدھ گولی کھلاتیں، ٹیکہ
لگاتیں ، خون کے سیمپل لیتیں اور چلی جاتیں۔ ڈاکٹروں کی گہری سوچیں فیصلہ
نہ کر سکیں اس کی کون سی بیماری کا علاج کیا جائے۔ وہ بیماری کی تہہ تک
پہنچنے کے لئے بہت سے ٹیسٹ کروانا چاہتے تھے یہ ان کی پیشہ ورانہ مجبوری
تھی۔ لیکن لیاقت کی سانسیں اکھڑنی شروع ہو گئی تھیں۔ شکیلہ اس کے سرہانے
پریشان بیٹھی بیٹھی سو گئی تھی۔۔ وہ کئی راتوں سے آنکھ نہ لگا سکی تھی۔
جب شکیلہ کی آنکھ کھلی تو لیاقت کی آنکھیں بند تھیں اس کی سانسیں رک گئی
تھیں۔ اس کا سر ایک طرف لٹک چکا تھا ۔ اس کیفیت میں شکیلہ کی چیخ نکل گئی۔
لوگ بھاگ کر آئے ۔ ڈاکٹر وں نے آکر اس کے سینے پر ہاتھ مارے، سینے کو
جھنجھوڑا اس کے سینے پر سٹیتھو سکوپ لگا کر، دل کی دھڑکن محسوس کیا اور پھر
شکیلہ کو بتایا کہ لیاقت اس دنیا میں نہیں رہا۔ٹیسٹوں کی ابھی کوئی رپورٹ
نہیں آئی تھی۔ اب ان رپورٹوں سے ڈاکٹروں کو پتہ چلے گا کہ لیاقت کی کون سی
بیماری کا پہلے علاج شروع کیا جانا تھا !!!!!!!!!! |
|