زندگی اتنی مشکل ہوجائے گی سوچا بھی نہیں
تھا۔۔۔ سنئیہ کی ہنسی کہیں کھو گئی تھی ۔۔۔ میری پیاری گڑیا نے چہکنا ہی
چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ مجھ سے ناراض تھی مگر ایسے پوز کرتی جیسے ہمارے درمیان
کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔۔ اور ککو کے سجدے طویل ہونے لگے تھے ۔۔۔۔ وہ خاموش تھیں
نہ اس سے کچھ بولتیں نہ مجھ سے ۔۔۔۔ اور میں عائیشہ دانیا علی اپنی ذات میں
ہی قید ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔ شہاب ماموں کے آنے میں ابھی صرف چند دن باقی بچے
تھے میرے دیگر ماموں بھی آگے پیچھے پہنچنے والے تھے ۔۔۔۔ بچھڑنے کا جدا
ہونے کا وقت بہت قریب آگیا تھا ۔۔۔۔ سنئیہ انجان تھی ۔۔۔ اس معصوم کو تو
کچھ پتا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ اور میں چاہتی بھی نہیں تھی اسے خبر ہو ۔۔۔۔۔
وہ دن بھی عام دنوں جیسا تھا ۔۔۔۔ عبدل بھائی بخار کے سبب اپنے کواٹر میں
آرام کر رہے تھے ۔۔۔۔ میں اپنے آفس خود ڈرائیو کر کے گئی تھی ۔۔۔۔ سنئیہ آف
ڈیوٹی کی وجہ سے گھر پر ہی تھی ۔۔۔ شام کے ساڑھے پانچ بجے ہی میں مل سے گھر
واپسی کے لئے نکل چکی تھی ۔۔۔۔ لیکن گھر جانے کی بجائے گاڑی کلفٹن کی طرف
موڑ لی ۔۔۔۔۔ گرمیوں کے دن تھے لیکن لگاتار بارش ہونے کے سبب ہوا میں خنکی
کی وجہ سے ٹھنڈ زیادہ بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔ جس کے سبب ساحل سنسان پڑا تھا ۔
بھپری موجیں زوردار طریقے سے ساحل سے ٹکراتیں ۔۔۔۔ اور واپس لوٹ جاتیں ۔۔۔
میں نے عین ساحل سمندر پر گاڑی روک دی تھی ۔۔۔ کچھ دیر چپ چاپ ڈرائیونگ سیٹ
پر بیٹھی رہی ۔۔۔۔ پھر باہر نکل آئی ۔۔۔۔۔ اور ساحل سمندر کی جانب اپنے قدم
بڑھا دئے ۔۔۔۔ ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی اس پل مجھ پر ۔۔۔۔ میں خود بھی
اپنی کیفیت کو سمجھ نہیں پارہی تھی ۔۔۔۔ ایک اضطرابی سی کیفیت تھی ۔۔۔ جانے
کیوں اداسی مجھ پر حاوی ہونے لگی تھی اس سمعے ۔۔۔۔ سمندر بھپرا ہوا سا لگ
رہا تھا ۔۔۔ میرے قد سے بھی اونچی لہریں تھیں جو مجھ سے ٹکرا رہیں تھیں ۔۔۔
میرے قدموں کو آگے بڑھنے سے روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں ۔۔ میرا پورا
وجود ان بڑی بڑی لہروں نے بھگودیا تھا ۔۔۔ مگر قدم تھے کے سمندر کے اندر
اور بڑھتے ہی جارہے تھے ۔۔۔ میں اب سمندر میں کمر تک اتر چکی تھی ۔۔۔ اندر
جتنا شور تھا اس کے مقابلے میں لہروں کا شور تو کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔ میں
سب کچھ کھونے والی تھی اپنوں سے دوری کا احساس ہی بڑا جان لیوا تھا ۔۔۔۔۔
اوراس وقت بھی اسی سوچ اور فکر نے مجھ پر ایک جنونی سی کیفیت طاری کر دی
تھی ۔۔۔۔۔ میں نے اپنا وجود ڈھیلا چھوڑ دیا خود کو لہروں کے حوالے کردیا
۔۔۔۔۔ اب جہاں لے جائیں ۔۔۔۔۔
اچانک ہی کسی نے میرا ہاتھ تھاما تھا ۔۔۔۔
میں جو خود میں ہی کھوئی ہوئی تھی چونک کر سر اٹھا کر اس ہستی کو دیکھا تھا
۔۔۔۔ سفید لبادے میں وہ ایک عورت تھی ۔۔۔ قد تقریباً میرے ہی برابر یا مجھ
سے کچھ نکلتا ہوا ۔۔۔۔ میرا ہاتھ تھامے کسی ماہر تیراک کی طرح تیرتے ہوئے
سمندر کو چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔ ہاتھ نرم تھے مگر گرفت بے انتہا
سخت ۔۔۔
تقریباً آدھا گھنٹہ بیت گیا ۔۔۔ حدِ نگاہ سمندر کا نیلگو پانی پھیلا ہوا
تھا ۔۔۔۔ ساحل دور کہیں رہ گیا۔۔۔ میں نے کسی قسم کی کوئی مزاہمت نہیں کی
تھی ۔۔۔۔ وہ سمندر کی سطح پر تیر رہی تھی آگے کی اور بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
اچانک ہی اس عورت نے سمندر میں غوطہ لگایا تھا اور میرا ہاتھ تھامے سمندر
کی گہرائی میں اترتی تیرتی چلے گئی ۔۔۔۔۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ پانی کے
اندر بھی میں سانس لے سکتی تھی ۔۔۔۔۔ پتا نہیں یہ عورت کون تھی ۔۔۔۔۔ اس نے
ایک بار بھی میری طرف مڑ کر نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ اب وہ سمندر کی گہرائی میں
میرا ہاتھ تھامے اسی طرح بجلی کی سی رفتار سے تیرتے ہوئے سمندری چٹانوں کے
درمیان سے گزر رہی تھی ۔۔۔ اچانک ہی ایک بڑی سی سمندری چٹان کے پاس رکی تھی
۔۔۔۔ چٹان کے سامنے کے حصے میں بہت بڑا سُوراخ سا بنا ہوا تھا وہ اس سوُراخ
مییں داخل ہوگئی ۔۔۔ اندر سے یہ پہاڑ نما چٹان کھوکلی تھی اور حیرت انگیز
طور پر کسی بھی سمندری مخلوق سے پاک ۔۔۔۔۔ اس نے اب میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا
۔۔۔۔ اور میری طرف مڑ کر دیکھا تھا ۔۔۔۔ لامبا قد سر سے پاؤں تک سفید عربی
عورتوں جیسے لبادے میں ملبوس ۔۔۔ بے انتہا حسین ۔۔۔۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں
میں ایک خاص چمک سی تھی ۔۔۔۔ سچی بات تو یہ تھی کہ وہ مجھے اپنا ہی عکس لگی
۔۔۔ جیسے میں آئینے کے سامنے کھڑی ہوں ۔۔۔۔۔۔
کک کون ہیں آپ ؟
عائیشہ !
میرے پوچھنے پر اس نے صرف اتنا ہی کہا تھا ۔۔۔۔ اس کا لہجہ اپنایت سے
بھرپور تھا ۔۔۔ ایک تڑپ تھی ۔۔۔۔ درد اور مٹھاس کی چاشنی سے بھرپور ۔۔۔۔
کون ہیں آپ ؟
مجھے لگا میں اس عورت کو جانتی ہوں ۔۔۔۔ جیسے بہت خاص تعلق ہو میرا اس سے
۔۔۔ دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔ اور میں ایک ٹک اسے دیکھے گئی
۔۔۔۔۔
بہت خاص رشتہ ہے ہمارا تم سے بیٹا ۔۔۔۔ بہت ہی خاص ۔۔۔۔ ہمارے وجود کا ہی
ایک حصہ ہو تم ۔۔۔۔ دل سے دھڑکن کا ۔۔۔ روح سے جسم کا جو تعلق ہوتا ہے نا
وہ ہو تم ۔۔۔۔
آآ۔۔ آآپ
ہاں میں فاطمہ ہوں تمہاری ماں ۔۔۔ وقت اور حالات نے جدا کیا ۔۔۔ اور وقت ہی
ہمیں آمنے سامنے لے آیا ۔۔۔۔ ایک دوجے کے سامنے کھڑا کردیا ۔۔۔۔۔ قسمت کی
ستم ظریفی دیکھو ۔۔۔ میں بیٹی کبھی تمہارے سامنے اس طرح نہیں آنا چاہتی تھی
کبھی نہیں ۔۔۔ مگر خیر جو اللہ کی مرضی ۔۔۔۔۔۔۔
اور میں اپنی جگہ ساکت سی کھڑی رہ گئی تھی ۔۔۔۔
×××××××××××××
بڑے سے دالان میں شمشیر چوکی پر بیٹھا ہوا بڑے انہماک سے حوریہ کی داستانِ
غم سن رہا تھا ۔۔ اور بزرگ بھی خاموشی سے اس کی دکھ بھری داستان سن رہے تھے
۔۔۔۔۔ لہجے میں دنیا جہاں کا کرب سمٹ آیا تھا ۔۔۔ بار بار خوبصورت آنکھیں
پانی سے بھر جاتیں ۔۔۔۔ لاکھ کوشش کے باوجود آنکھوں سے سیلِ رواں جاری
ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ تب بزرگ نے
شمشیر کو اشارہ کیا تھا ۔۔۔ اور شمشیر میاں بیٹھے بیٹھے ہی اپنی جگہ سے
غائب ہوگئے تھے اور پھر چند سیکنڈوں میں ہی ظاہر ہوئے تھےہاتھ میں پانی کا
گلاس تھا ۔۔۔۔
پانی پی لیں خالہ اماں ۔۔۔ حلق خشک ہوگیا ہونگا نا آپ کا ۔۔۔۔ کب سے نان
آسٹاپ بولے جارئیں ۔۔۔۔ رُلادئے نا آپ ہم کُو ۔۔۔۔۔
شمشیر !
اچھا بابا نہیں بولتا مئے ہونٹاں سی لے کوُ بیٹھ جا توُں اب ۔۔۔۔۔۔
وہ جھنجھلائےانداز میں بولا تھا مگر اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ
حوریہ کی طرف مُڑے تھے ۔۔۔۔
بیٹی اس کی بات کا بُرا مت ماننا ۔۔۔۔ ہمارے شمشیر میاں کا مزاج ھی کچھ
نرالا سا ہے ۔۔۔۔
بہت پیارا بچہ ہے بھائی ۔۔۔۔ بولی تو بڑی پیاری ہے ۔۔۔۔۔ اس کی کوئی بات
مجھے بُری نہیں لگ رہی ۔۔۔۔۔
حوریہ نے آنسو پوچتے ہوئے بڑی محبت سے شمشیر کو دیکھا تھا۔۔۔۔ تو شمشیر
میاں نے ذرا سی گردن اکڑا کر بابا کو دیکھا تھا ۔۔۔۔۔ اور بابا کے ساتھ
حوریہ بھی ان کی اس حرکت پر مسکرا دیں ۔۔۔
آپ اپنے شوہر کے گھر سے جب نکلیں تو تب کیا ہوا ۔۔۔ آپ ہندوستان کس طرح
پہنچیں ۔۔۔۔۔۔
بابا کے سوال کرنے پر حوریہ نے اداس نظروں سے انہیں دیکھا تھا ۔۔۔ اور ایک
گہری سانس لی تھی ۔۔۔۔
×××××××××××××××××
باقی آئندہ ۔۔۔۔ |