کچھ دیر شاد مردانوی صاحب کے ساتھ

کل رات جب وہ زندگی کی تینتیسویں بہار دیکھنے جارہے تھے، ان کا باغ وبہار چہرہ میرے سامنے تھا، کاتب تقدیر نے ہماری ملاقات کا ٹھیک وقت بھی وہی متعین کیا تھا، اس سے پہلے بہت ارادے بنے، فون پہ ملاقات کا وقت مقرر ہوا، لیکن ہمیں تو ان کے اس تاریخی لمحے سے وابستہ کیا گیا تھا.

وہ 1983ء کو دار فانی میں تشریف لائے۔ خاندان میں میں کتاب کے کاف تا سے بھی کسی کو واقفیت نہیں، یہ پہلے فرد ہیں جو اس مقام تک پہنچے۔ بچپن میں علاقہ بھی ایسا پایا، جہاں بچوں کے ہاتھ میں کتاب کی بجائے چھری چاقو ہوتا، اس نے مگر مختلف طبع پائی تھی۔ دوسرے لڑکے جب غنڈہ گردی میں شریف شہریوں کا چین وسکون غارت کر رہے ہوتے، عین اسی لمحے یہ کسی کونے میں کتاب سے راز ونیاز میں مصروف ہوتے۔ 2005ء میں جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ بنوری ٹاؤن سے سند فراغت حاصل کی، فراغت کے بعد مرکزالعلوم الاسلامیۃ ایم پی آر کالونی میں درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے۔ تین سال تدریس کے شعبہ سے منسلک ہونے کے بعد موبائل ریپیرنگ کا کام شروع کردیا۔ آج کل ادبی تخلیقات کے ساتھ موبائل کی تاروں سے چھیڑخانی کر رہے ہیں۔

کل رات انیس غوری کی محبت نے محمد حجازی، فیصل شہزاد، عطاء اللہ عمر، شاد مردانوی اور راقم کو گل مالک حسن زئی ریسٹورنٹ میں اکھٹا کیا، وہی محبت جو فاصلوں کے تکلف کی نہیں ہوتی روادار، انیس غوری کو دور دراز سے رات گئے کراچی اندرون شہر لاسکتی ہے۔

شاد مردانوی لگی لپٹی نہیں رکھتے، جو باطن میں ہوتا ہے وہی ظاہر ہوتا ہے۔ اچھا دوست وہ ضائع کرسکتے ہیں، اچھا جملہ مگر نہیں۔ ناتواں اور کوتاہ قد کی ضد، بھاری بھرکم عطاء اللہ عمر پہ بھی وہ گاہے بھاری پڑجاتے۔

ہم نے جب ان سے پوچھا: "حضرت! کہاں درس وتدریس کی پاکیزہ فضا اور کہاں موبائل کا گنجلک کام، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

وہ بلاتوقف گویا ہوئے: "یہ اپنی بے غیرتی ہے۔ بے غیرتی ایسے کہ میں تین سال تک مدرسہ سے وابستہ رہا۔ سابعہ تک اسباق پڑھاتا رہا، لیکن میرے مزاج کا لا ابالی پن دور نہیں ہوا۔ دیر سے جانا، ہفتہ میں دو تین چھٹیاں کرنا وغیرہ۔ ایک دن سوچا مدرسہ انتظامیہ کے دھکا دے کر نکالنے سے بہتر ہے خود ہی بوریا بستر لے کر نو دو گیارہ ہوجاؤں"۔

جس طرح انسان کی طبائع مختلف ہوتی ہیں، اسی طرح تحریر میں بھی تنوع پایا جاتا ہے۔ اکثر طبیعت کا اثر بھی تحریر پر پڑتا ہے۔ دھیمے مزاج کے انسان کی تحریر میں بھی وہی دھیمہ پن اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے. جوشیلے شخص کی تخلیق بھی جوش ولولہ لیے ہوئے ہوتی ہے. اسی طرح کوئی قلم کار سادہ تحریر اور سہل ممتنع لکھتا ہے تو کوئی مشکل الفاظ اور فلسفیانہ تحریر کا خوگر ہوتا ہے. شاد مردانوی صاحب کی تحریر بھی ادبیت سے بھرپور ہوتی ہے. جہاں آورد نہیں آمد ہوتی ہے. اکثر فیس بکی قارئین ان کی تحریر سامنے آتے ہی تحریر چھوڑ ہوائی جہاز گننے لگ جاتے ہیں.

نثر کی طرح شعر بھی خوب کہتے ہیں. نام ور شعراء سے داد و تحسین وصول کرکے صحت کی سند پائی.
۱۵ شعبان کے بابرکت دن ہمارے ممدوح نئے سال میں قدم رکھ چکے ہیں. اللہ کرے نیا سال کا سورج ہر نئے دن کے ساتھ نئی خوشی لے طلوع ہو.
Ibnul Hussain Abidi
About the Author: Ibnul Hussain Abidi Read More Articles by Ibnul Hussain Abidi: 60 Articles with 63993 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.