خربوزہ!
(Dr. Riaz Ahmed, Karachi)
ہم ایک شادی کی تقریب میں مدعو تھے۔ وقت پر
پہنچنے کی اپنی بدترین عادت کے تحت تقریب شروع ہونے سے دو گھنٹے پہلے پہنچ
گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منتظمین میں سے کوئی موجود نہ تھا۔ ہمارے قماش کے ایک بزرگ،
دو ادھیڑ عمر اور تین نوجوان مرد ایک ہی میز پر بیٹھے تھے۔ ہم نے ان سے
مصافحہ کیا اور بزرگ کے کہنے پر وہیں بیٹھ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے بیٹھتے ہی
وہ پھر گویا ہوئے۔ ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے وقتوں میں یہ رشوت
اشوت نہیں تھی۔ ہر شخص بڑی ایمانداری سے اپنا کام کرتا تھا اور آج دفتروں
میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل کا لونڈا ہم جیسے بزرگوں سے بھی بنا کسی شرم و لحاظ ہر
کام کے پیسے طلب کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی نسل اور نئی نسل کا موازنہ وہ
مثالیں دے دے کر کرتے رہے اور درمیان میں 'کیوں بھئی ٹھیک کہہ رہا ہوں نا'
کہہ کر سامعین سے تائید بھی چاہتے رہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو انہیں جی ہاں، جی بالکل
کی صورت ملتی رہی اور پھر کچھ زیادہ بول کر اپنے ہی پیر پہ کلہاڑی مار
بیٹھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میاں ایک ہمارا دور تھا۔ نوجوان نیک، شریف، پرہیزگار ۔ ۔ ۔
۔ ۔ اور ایک اس دور کے نوجوان ہیں۔ شرم و حیا، عزت و احترام، اخلاق و تمیز
نام کو نہیں۔ اور یہ کہہ کر انہوں نے سامنے بیٹھے نوجوان سے تائید چاہی ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ہاں میاں کیا نام ہے تمہارا؟ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ
جو اتنی دیر سے ان کی بزرگی کے احترام میں چپ بیٹھا گردن ہلا رہا تھا بولا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بزرگ کچھ نہ بول سکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جناب مجھے
علم نہیں آپ نوجوانی میں کیسے تھے میں پھر بھی آپ کی بات مان لیتا ہوں۔ اور
جہاں تک اپنی نسل پر آپ کے الزامات کا تعلق ہے ان کی نفی کی جسارت بھی نہیں
کر سکتا۔ لیکن صفائی میں اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ "انسانی نسل کی بیل
بھی خربوزے کی بیل کی طرح ہوتی ہے" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
کیسے بنوں نیک،
رنگ لیتا ہے خربوزہ،
خربوزے کو دیکھ! |
|