برائی کا لاروا

 وہ سال ہا سال سے‘ انسانی لہو بہتے‘ دیکھ رہا تھا۔ کار قضا کوئی کم زور لہو طراز‘ قانون کے ہتھے چڑھ جاتا‘ اسے قتل کرکے‘ لہو تو نہ بہایا جاتا‘ ہاں البتہ‘ برسوں کورٹ کچہری میں‘ خوب گھسیٹا جاتا۔ اس کے پچھلوں کے‘ جسم کی ہڈیاں‘ باقی رہ جاتیں‘ تو اس کی گردن لمبی کر دی جاتی۔ یہاں یہ بات‘ اولیت کے درجے پر فائز رہتی‘ کہ گردن اسی کی لمبی ہوتی‘ جس کے پچھلوں کے دانے بک جاتے۔ اس قتل و غارت کے دھندے سے وابستہ‘ سرکاری سانڈ‘ گزر اوقات کر رہے تھے۔ یہ سب‘ ان کے لیے موسی کی قوم پر‘ اترنے والے من وسلوی سے‘ کسی طرح کم نہ تھا۔ مشقت کا کھایا‘ تو کیا کھایا۔ مشقت کے محدود لقمے‘ مصالحہ زدہ کھانے کے‘ کبھی‘ ہم سر نہیں ہو سکتے۔

وہ اگرچہ ان معاملات سے دور‘ الگ تھلگ‘ خوش حال اور آسودہ زندگی گزار رہا تھا۔ مرنے اور مارنے والے‘ اس سے متعلق نہ تھے۔ اس کا‘ ان سب سے‘ الگ جہان تھا۔ وہ یہ سب‘ سنتا اور اخباروں میں پڑھتا رہتا تھا۔ قتل وغارت اور افراتفری کی صورت حال‘ اسے ذہنی طور پر بڑا ڈسٹرب کرتی۔ گرہ میں سب کچھ ہوتے‘ وہ بےاختیار تھااور اس ذیل میں‘ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ حالات و معاملات کی درستی‘ اقتدار میں آئے بغیر‘ ممکن نہ تھی۔ سیاست‘ شرفا کی چیز نہیں‘ لیکن شرفا کی لسٹ میں‘ نام کے اندراج کے لیے‘ سیاست میں آنا یا ہونا ضروری ہوتا ہے۔

اس نے‘ سیاست میں آنے کا‘ فیصلہ کر لیا۔ اس شعبے میں‘ نام بنانے اور داؤ پیچ سیکھنے کے لیے‘ ناصرف اچھی خاصی رقم صرف کرنا پڑی‘ بلکہ دو سال بھی لگانا پڑے۔ بلاشبہ‘ اب وہ پائے کا سیاست دان بن چکا تھا۔ اس کا ڈیرہ چمک اٹھا تھا۔ پائے کے سیاست دان‘ اس کے ڈیرے پر‘ آنے لگے تھے۔ لوگوں کے کام نکلوانے کا‘ اسے ڈھنگ آ گیا تھا۔ مستعمل طور سے ہٹ کر‘ وہ لوگوں کے‘ بلامعاوضہ اور خدمت خلق سمجھ کر‘ کام کرواتا۔ اس کا کام‘ کوئی روکتا بھی نہ تھا‘ کیوں کہ اس کی پہنچ کھانےداروں تک ہو گئی تھی۔ اگر کوئی آئیں بائیں شائیں کرتا‘ تو وہ کھانےداروں سے آرڈر لے آتا‘ ساتھ میں کرارا سا ٹیلی فون بھی کروا دیتا۔ نوکری‘ ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے۔ کوئی انکار کرتا‘ تو کیسے کرتا۔

اب وہ اس قابل ہو گیا تھا‘ کہ پرانے سیاست دانوں کو بھی‘ کھڑے کھڑے بیچ جاتا۔ جاہ میں حصہ‘ اس کا جائز حق بن گیا تھا۔ جائز کو کون مانتا ہے۔ یہاں چھین لینے والے ہی‘ مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ چھین لینا‘ اسے پسند نہ تھا‘ لیکن یہ سیاسی اصول اور ضابطہ ٹھہرا تھا اس لیے‘ اسے بھی یہ اختیار کرنا پڑا۔ تنویر وڑایچ سے‘ وزارت کا چھین لینا‘ مشکل نہ تھا۔ کیا کرتا‘ اپنے سے کم زور ہی‘ پھٹے چڑھ سکتا تھا۔ اقتدار کی حصولی کا ذریعہ‘ خون ریزی یا سازش ہی رہے ہیں۔ وزارت شاہ کی دائیں آنکھ پر آنے سے‘ ہی مل سکتی تھی۔ آنکھ کیا‘ وہ تو‘ شاہ کے ماتھے پر تھا۔ اسی بنا پر‘ اس نے تنویر وڑایچ کو پچھاڑ کر‘ وزارت پر قبضہ جما لیا۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہ تھی۔

نشہ‘ ہر مذہب میں حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ نشے میں آدمی‘ اپنے حواس میں نہیں رہتا۔ اقتدار کا نشہ‘ تمام نشوں پر‘ بھاری ہوتا ہے۔ اس ذیل میں‘ احباب اور رشتے دار‘ کہنے سننے کی حد تک ہوتے ہیں۔ اس کی حصولی یا برقراری کے لیے‘ باپ بھائی یہاں تک کہ اولاد کو بھی‘ لحاظ کے کھاتے میں نہیں رکھتا۔ جہاں اور جس پر بھی‘ معمولی سا شک گزرتا ہے‘ اسے اور اس کے قریبیوں‘ اگلے جہاں کا رستہ دکھاتا ہے۔ یہ شاہی کی حصولی کے لیے‘ اسے تنویر وڑایچ کوہی نہیں‘ شاہ مظفر عالم کو بھی‘ پچھاڑنا تھا۔ شاہ مظفر عالم کا نام ہی‘ دہشت کی علامت تھا۔ اس کا نام سن کر‘ بڑوں بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا تھا۔ اسے طاقت سے‘ پچھاڑنا ممکن ہی نہ تھا۔ خبرگیری کا‘ ایسا جال بچھا ہوا تھا‘ کہ معمولی سے معمولی بات‘ اس کے کانوں تک پہنچ جاتی‘ اور پھر وہ‘ سازشی اور اس کے ساتھیوں‘ کی لاشوں کو‘ چوراہے میں لٹکا دیتا۔ یہ لاشیں‘ کووں اور چیلوں کا‘ بھوجن بنتیں۔ مٹی‘ ان کے نصیب میں نہ ہوتی۔ اس عبرت ناکی کو دیکھ کر‘ مخلوق فلکی بھی توبہ توبہ کر اٹھتی ہوگی۔

وزارت سے‘ اس کے ذہن میں‘ پنپنے والا منصوبہ‘ تکمیل کی منزل چھو نہیں سکتا تھا۔ وہ اس خوش فہمی میں بھی نہ تھا‘ کہ شاہ مظفر عالم کا اعتماد حاصل کر چکا ہے۔ بااعتماد اہل کار بھی‘ باطنی سطع پر‘ شاہ مظفر عالم کے‘ شک کے گرداب میں رہتے تھے۔ اعتماد نہ کرنا‘ صاحب اقتدار کی سیاسی اور نفسیاتی مجبوری ہوتی ہے۔ اعتماد کی صورت میں ہی‘ اقتدار ہاتھ سے جاتا ہے۔ اعتماد میں لا کر ہی ‘ حکومت گرائی جا سکتی ہے۔ جو بھی سہی‘ وہ ہر حالت میں‘ حکومت پر‘ قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ ایک طرف وہ‘ شاہ مظفر عالم کا اعتماد‘ حاصل کرنے کی کوشش میں تھا‘ تو دوسری طرف‘اس کی شاہ مظفر عالم کی معمولی سے معمولی‘ غلطی پر نظر تھی۔

عموما‘ کھوٹے سکوں کو‘ بے کار اور لایعنی سمجھا جاتا۔ بعض اوقات‘ یہ وہ کام دیکھا جاتے ہیں‘ جو کھرے سکوں کا‘ نصیب نہیں بنتے۔ شاہ کا اکلوتا بیٹا‘ شاہ زادہ منصور عالم‘ ذہنی طور پر معذور تھا‘ ہاتھی سے گرا‘ قریب تھا‘ کہ ہاتھی کے پاؤں تلے آ جاتا۔ شاہ مظفر عالم‘ ذہنی طور پر‘ اس ناگہانی صورت حال کے لیے‘ تیار نہ تھا۔ بیٹے کو بچانے کے لیے‘ آگے بڑھا۔ یہ ہی موقع تھا‘ جس کی تاڑ میں‘ اس نے چار سال انتظار کے نرک میں‘ گزارے۔ وہ بجلی کی سی تیز رفتاری سے‘ آگے بڑھا‘ کہ کوئی جان بھی نہ سکا‘ کہ اس نے شاہ مظفر عالم کو ہاتھی کے پاؤں میں ڈال دیا تھا۔ دیکھنے والوں کو‘ یہ لگا‘ کہ منصور کی نادانی‘ یا پھر جان بچانے کی کوشش میں‘ شاہ مظفر عالم کو دھکا لگ گیا تھا ۔

ملکہ عالیہ کو‘ جہاں اپنے سرتاج کے‘ مرنے کا دکھ ہوا‘ تو وہاں بیٹے کے بچ جانے‘ کی خوشی بھی ہوئی۔ طاہر کی بہادری اور جواں مردی کے قصے‘ ہر زبان پر جاری ہو گیے۔ ملکہ تو‘ اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔ باظاہر شاہی منصور عالم کے ہاتھ آئی‘ لیکن درپردہ ‘ طاہر جو اب‘ ظفر الدولہ نواب طاہر زمانی کے نام سے معروف تھا‘ کا حکم چلتا تھا۔ ملکہ اس کی کارگزاری اور تابع فرمانی کی‘ دل و جان سے‘ قائل تھی۔ اگلا مرحلہ‘ بس نکاح کا ہی رہ گیا تھا۔

ظفر الدولہ نواب طاہر زمانی کو‘ صرف سات ماہ‘ محنت کرنا پڑی۔ ملکہ اس کی آغوش میں آ گئی۔ گوشت پوست کی انسان‘ اور اناج خور ہونے کے باعث‘ اتنا عرصہ ہی برداشت کیا سکتا تھا۔ کچھ لوگوں کو‘ یہ ملن‘ کھٹکا لیکن انہیں لگام دینے والے بھی موجود تھے۔ اب شاہ منصور عالم اور ملکہ عالیہ کی‘ شاہ ہند جہاں گیر کی سی حیثیت رہ گئی تھی۔ اچھا برا‘ شاہ ہند جہاں گیر کی کھتونی پر‘ چڑھ رہا تھا۔ ظفر الدولہ نواب طاہر زمانی کا‘ ہر کیا شاہ منصور عالم کے کھاتے لگ رہا تھا۔ نورجہانی کا لطف اپنا ہی ہوتا ہے۔
شاہ منصور عالم نے‘ تمام مذاہب کے‘ لیڈروں کا اجلاس بلایا۔ ان کے لیے‘ سو طرح کے‘ پکوان چڑھا دیے گیے‘ خصوصی اور آرام دہ‘ نشتوں کا بندوبست کیا۔ کھانوں کی خوش بو نے‘ اس نشت گاہ پر‘ آسیبی اور خلدی‘ کیفیت طاری کر دی تھی۔ آرام دہ نشتوں نے‘ باہمی اختلافات کو‘ اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ اگر کسی کو‘ کچھ یاد تھا‘ تو وہ شاہ منصور عالم کی‘ دریا دلی‘ بلند پایا فراست‘ اور اعلی ذوق۔ ہر کوئی پکوان کے فوری طور پر‘ چنے جانے کا‘ منتظر تھا۔ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ بے قراری میں شدت آ رہی تھی۔

سب اس انتظار میں تھے‘ کہ شاہ آئے‘ اور اپنا مختصر مختصر لفظوں میں‘ خطاب کرئے‘ اور پھر وہ‘ ساری خوش بو لپیٹ لیں۔ ہر کوئی بلند فہمی اور اعلی تعلیم رکھنے کا‘ مدعی تھا۔ اسی بنا پر ساری خوش بو کو‘ اپنا استحقاق سمجھتا تھا۔

انتظار کی گھڑیاں‘ ختم ہو گیئں۔ شاہ منصور عالم وارد ہو گیا۔ شاہ منصور عالم زندہ باد کے نعروں نے‘ پوری عمارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہر کوئی‘ اپنی وفاداری‘ کی یقین دہانی میں سبقت لے جانا چاہتا تھا۔ شاہ منصور عالم‘ سامنے چوترے پر بیٹھا‘ یہ سب دیکھ رہا تھا۔ دل ہی دل میں‘ اپنی ماں اور طاہر زمانی کے‘ گن گا رہا تھا۔ اہل کار خاص نے‘ سب سے مودبانہ التماس کی کہ خاموش ہو جائیں‘ اب شاہ منصور عالم‘ اپنا افتاحی خطبہ دیں گے۔ شاہ منصور عالم نے‘ طوطے کی طرح رٹا ہوا خطاب شروع کیا۔ ابتدا ہی میں‘ واہ واہ کے آوازے‘ کانوں سے‘ ٹکرانا شروع ہو گیے۔ خطاب کو‘ ابھی پان سات منٹ ہی ہوئے ہوں گے‘ کہ عمارت کی چھت ایک دھماکے کے ساتھ‘ نیچے آ گئی۔ باہر شور مچ گیا۔ لاشوں کو نکالنے کا‘ کام شروع ہو گیا۔ شاہ منصور عالم اور اس کے خصوصی اہل کار‘ جہاں تھے‘ وہاں ملبے کا انبار سا‘ لگا ہوا تھا لیکن وہاں سے‘ چھت صرف کریک ہوئی تھی۔ ان تینوں کو‘ معمولی خراشیں آئی تھیں۔ اسے شاہ کی‘ درویشی قرار دے دیا گیا۔ ان تینوں کا بچ جانا‘ کرامت سے کسی طرح کم بات نہ تھا۔

پکا ہوا کھانا‘ شاہ منصور عالم کی جان کا صدقہ کہہ کر‘ گربا میں تقسیم کر دیا گیا۔ گربا کو کھانے کو‘ وہ کچھ ملا‘ جس کا وہ خواب میں بھی‘ تصور نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو مذہبی اخلاقیات سے زیادہ‘ روٹی کی ضرورت تھی۔ ہر دل سے‘ یہ دعا نکل رہی تھی‘ کہ یا الله‘ اس قسم کے حادثے‘ ہر روز ہوتے رہیں‘ اور انہیں پیٹ بھر‘ ملتا رہے۔ مزدور کو‘ مزدوری کا موقع میسر آ گیا تھا۔ ملبہ ہٹانے‘ جگہ صاف کرنے‘ لاشوں کو نکالنے پر‘ پانچ دن لگ گیے۔ سب کو ناسہی‘ کچھ کو تو‘ پانچ دن کی مزدوری میسر آ گئی تھی۔ چلو ان کے‘ گھر کا چولہا تو گرم ہوا۔

یہ کوئی‘ معمولی حادثہ نہ تھا‘ جو چپ رہا جاتا۔ ٹھیکے دار سے لے کر‘ اعلی افسروں کو بھی‘ انکوائری میں شامل کر لیا گیا۔ ملکہ عالیہ اور شاہ منصور عالم‘ سخت غضب میں تھے۔ شاہ منصور عالم بھی‘ جان سے جا سکتے تھے۔ یہ نقصان‘ یقینا ناقابل تلافی ہوتا۔ ملک بھر میں‘ شاہ منصور عالم کے زندہ بچ رہنے کے‘ بڑی دھوم سے جشن منائے گیے۔ شاہ منصور عالم نے‘ تمام سرکاری عمارتوں‘ کے معائنے کا حکم دے دیا۔ دو تہائی عمارتوں کو‘ خطرناک قرار دے کر‘ تعمیر سے جڑے افسروں کو گرفت میں لے لیا گیا۔۔

لوگ‘ افسر شاہی سے پہلے ہی نک نک تھے۔ چلو‘ چند اک تو گرفت میں آئے۔ بالا و زیریں افسروں کے خلاف‘ پہلے ہی کافی درخواستیں پڑی تھیں۔ ملک میں اعلان کر دیا گیا‘ کہ اگر کسی کو‘ کسی افسر یا ماتحت اہل کار سے‘ شکایت ہو‘ تو بلاخوف درخواست گزارے۔ درخواستوں کے انبار لگ گیے۔ شاہ منصور عالم نے‘ خصوصی مشیران کا اجلاس بلایا۔ سب نے‘ درخواستوں کا انبار دیکھا۔ کس کس درخواست کو دیکھا جائے۔ اگر یہ کام شروع کر دیا گیا‘ تو کوئی اور کام‘ نہ ہو سکے گا۔ باہمی مشورے سے‘ یہ ہی ٹھہرا‘ کہ تمام باختیار افسران اور اہل کاروں کو‘ نوکری سے فارغ کر دیا جائے۔ ملازمت سے پہلے‘ کی جائیداد کے سوا‘ باقی سب‘ باحق سرکار ضبط کر لیا جائے۔ ان کی جگہ‘ نئے لوگ‘ بھرتی کر لیے جائیں۔ سنگین جرائم میں ملوث افسر اور اہل کار‘ جیل بھجوا دیے جائیں۔

ملک میں‘ صنعتیں قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ملک میں بہت سے‘ جاگیردار تھے۔ جن کے پاس کافی سے زیادہ‘ اراضی تھی۔ انہیں غداری کے صلہ میں‘ جاگیریں ملی تھیں۔ یہ ہی طبقہ‘ ملکی سیاست کا مہرہ چلا آتا تھا۔ شاہ منصور عالم نے‘ ان کا ایوان خاص میں‘ اجلاس بلایا۔ ان کی خدمات کی‘ بڑھ چزھ کر تعریف کی۔ ان میں سے ہر کسی کو‘ خطابات اور حسن کار گزاری کے‘ تمغہ دیا گیا۔ پھر کیا تھا‘ شاہ منصور عالم کی‘ جئے جئے کار کے نعرے گونج اٹھے۔ کھانے کے دوران‘ صنعتوں کے لیے‘ گرانٹس کا اعلان کیا گیا۔ سب شاہ منصور کی‘ فراست اور دریا دلی پر‘ عش عش کر اٹھے۔ دو ایک نے دبے لفظوں میں اس منصوبے کی‘ مخالفت کی‘ لیکن سکوں کی چمک نے‘ ان کی بینائی‘ زائل کر دی‘ سوچ کے درواز بھی بند کر دیے۔

منصوبے کی تکمیل میں‘ چار سال لگ گیے۔ ملک میں‘ صنعتوں کا جال بچھ گیا۔ لوگوں پر‘ مزدوری کے‘ بےشمار مواقع پیدا ہو گیے۔ جونک‘ اپنی فطرت میں‘ جونک ہی رہتی ہے۔ مزدور کا‘ بڑی بےدردی سے‘ استحصال ہونے لگا۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ معاملہ کنڑول سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔ افراتفری اور اس ملک گیر‘ گڑبڑی کے سبب‘ کئی جانیں چلی گئیں۔ اس بغاوت کی سی‘ کیفیت کو روکنے کی‘ جبری کوشش نہ کی گئی تھی۔ شاہ منصور عالم نے‘ مشیران خاص کا اجلاس بلا لیا۔ مختلف نوعیت کے‘ مشورے سامنے آئے۔ تاہم‘ اس مشورے کو سراہا گیا‘ کہ جملہ صنعتیں‘ شاہی طویل میں‘ لے لی جائیں۔ سرمایہ اور زمین کا‘ اصل مالک شاہ ہی ہوتا ہے۔ اگلے لمحے صنعتوں کو‘ شاہی طویل میں لیے جانے کا بیان‘ جاری کر دیا گیا۔ ساتھ میں‘ نواب صاحبان کی‘ میٹنگ طلب کر لی گئی۔

نواب صاحبان‘ کی میٹنگ میں‘ گرما گرم بحث ہوئی۔ صورت حال کی سنگینی کو‘ زیر بحث لایا گیا۔ آخر یہ بغاوت‘ کہاں سے‘ شروع ہوئی اور کیوں ہوئی۔ الزام تراشیوں کا میدان‘ گرم ہو گیا۔ شاہ منصور عالم یہ کہہ کر‘ تخلیہ میں چلا گیا‘ کہ گڑبڑی کس کی صنعت سے‘ شروع ہوئی‘ جس کے نتیجہ میں‘ بغاوت کا آغاز ہوا‘ اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ یہ محض‘ ایک ڈائیلاگ تھا‘ ورنہ مقتدرہ طاقت کے لیے‘ رعایا کی حیثیت‘ کیڑوں مکوڑوں سے بھی‘ کم ہوتی ہے۔ الزام تراشی کا‘ پٹارا کھل گیا‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے‘ میدان جنگ میں‘ بدل گیا۔ قتل وغارت کا میدان‘ چوالیس منٹ گرم رہا۔ دو چار کے سوا‘ کوئی زندہ نہ بچا تھا۔

شاہ منصور عالم نے‘ شاہی بیان میں‘ گہرے دکھ اور صدمے کا اعلامیہ جاری کیا۔ ساتھ میں‘ دو دن کا‘ سوگ منانے کا‘ حکم جاری کر دیا۔ جو دو چار‘ زندہ بچ گیے تھے‘ وہ بھی شدید زخمی تھے۔ ضروری معالجے کے بعد‘ ان کا معاملہ‘ مرکزی قاضی کے‘ سپرد کر دیا گیا۔ صاف ظاہر ہے‘ وہ قاتل تھے۔ قاتل کا‘ تختہءدار پر جانا ہی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔

انسانی تقسیم کے‘ اہم ترین ذمہ دار لوگ‘ عبرت کو پنہچ چکے تھے۔ طاہر کا خیال تھا‘ اب لوگ‘ ایک دوسرے کے قریب‘ اور پھر اور قریب ہو جائیں گے۔ دو ماہ کے بعد‘ اس نے‘ سروے کروایا۔ معاملہ پہلے سے‘ رائی بھر مختلف نہ تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا‘ کہ تبدیلی کیوں نہیں آئی۔ جوں جوں غور کرتا گیا‘ الجھاؤ بڑھتا ہی گیا۔ اچانک اسے خیال گزرا‘ روزوں میں‘ شیطان کے قید کر دیے جانے کی‘ روایت موجود ہے۔ بدقسمتی دیکھیے‘ رمضان میں ہی‘ سب سے زیادہ خرابی سر اٹھاتی ہے۔ روپیے کی چیز کے‘ پانچ روپے وصولے جاتے ہیں۔ اس نے سوچا‘ شیطان کے قید ہو جانے کے بعد‘ اس کے انڈے بچے‘ شیطان سے بڑھ کر‘ اندھیر مچاتے ہیں۔ اسے اپنے منصوبے کے‘ ناکام ہو جانے کا اعتراف کرنا پڑا۔ وہ اپنی ذات سے‘ شرمندہ تھا۔ اس منصوبے کی کام یابی کے لیے‘ برائی کا لاروا‘ پہلے تلف ہونا چاہیے۔ لاروا ختم ہو جائے‘ تو ہی آتا کل محفوظ ہو سکتا ہے۔
 
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 3 Articles with 2433 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.