کہا جاتا ہے ہر آدمی کو بچے صرف اپنے اور
بیوی صرف دوسروں کی ہی اچھی لگتی ہے۔
بچے وہ ہیں جن کے آنے کی دعائیں کی جاتی ہیں اور جب آجائیں پھر ان سے رد
بلا کی دائیں کی جاتی ہیں۔ ایک دوست کا کہنا ہے کہ اولاد انسان کے کس بل
نکال دیتی ہے اور سچ بھی ہے آج کل تو خاص طور پر جیسی اولاد ہے انسان لوہے
کے چنے چبا کر انکو پالتا ہے۔ کسی دور کے بچے تھے 'بچے' بھی تھے تو اچھے
لگتے 'بچوں والے' ہوتے تب بھی بچے ہی لگتے۔ آج کے بچے تو ذہنی طور پر جتنی
رفتار کا مظاہرہ کرتے ہیں تین چار سال میں ہی ماں باپ کو انکے سامنے اپنا
سا منہ لے کر یہ سننا پڑ رہا ہوتا ہے کہ آپ کو کچھ نہیں پتہ۔
بچے ایسے ہیں کہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ انکے سامنے اپنا ہر طریقہ بھاڑ میں
جاتا محسوس ہو۔ خاص طور پر جب ان سے کچھ دور کرنا چاہو اور کچھ چھپانا چاہو
تو جس معصومیت سے کہتے ہیں کہ ' پہلے مجھے یہ دیں' تو انسان کو یقین آ جاتا
ہے کہ بچوں اور بچوں کی اماں سے کچھ بھی چھپانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
بچوں کی معصومیت سے انسان پوری طرح ابھی امپریس بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی
شرارتی اداؤں سے ایسا زیر کرتے ہیں کہ انسان کو یقین آجاتا ہے۔ انکی اماں
ٹھیک کہتی ہے۔ کواکب ہیں کچھ اور نظر کچھ اور آتے ہیں۔
بچوں کی مشاہدے کی صلاحیت بڑوں سے کئی گُنا تیز ہوتی ہے بڑے تو جو کام بے
آرام ہو کہ بغیر کچھ سوچے سمجھے کر جاتے ہیں بچے اسکو دیکھ کر اچھی طرح سے
سیکھ لیتے ہیں کہ آخر کیا کیوں اور کیسے ہو رہا ہے کس لئے ہو رہا ہے اور
بچے کو آگے کس طرح سے اس پر عمل کر کے دکھانا ہے۔ آپکو خود بھی نہیں پتہ
ہوتا لاک کھولنے، موبائل پاس ورڈ کاپی کرنے، بیگ کھولنے، ہینڈل گھمانے اور
چابی لگانے میں آپ کس طرح سے نقل ہو چکے ہیں اور آپکو پتہ بھی نہیں چلا۔
بچوں کے سامنے تول تول کر بولنا بھی ایک فن ہے کیونکہ انکو پتہ ہوتا ہے یہ
کون سی آنٹی ہے اسکے بارے میں کیا کہا گیا اور آنٹی کو بات بتا کر یہ ضرور
کہنا ہے کہ آنٹی آپکو یہ بتانے سے منع کیا گیا ہے۔ بچے اپنی اسی معصومیت سے
بڑوں کے بیچ ایسا فساد ڈلوا سکتے ہیں جو کیا کسی پھوپھی نے ڈلوایا ہو گا۔
بچے آپکے شریکوں کے سامنے ہی بھانڈا پھوڑ کر ایسا شرمندہ کروا سکتے ہیں کہ
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن
بچوں اور مہنگائی کو قابو کرنے کا خیال بھی ذہن میں لانا صرف بیوقوفی نہیں
انتہا کی بیوقوفی ہے کیونکہ دونوں کو جتنا کنٹرول کرنا چاہیں اتنا یہ آؤٹ
آف کنٹرول ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ان کو قابو کرنے کے خیال کو تو انسان کو
مکمل ذہن سے نکال کر فنا کر دینا چائے۔ بچوں کو قابو کرنے کا فریضہ کبھی
کبھی ہم انکی ٹیوشن والی باجی کو دینا چاہتے ہیں۔ کبھی انکے ابا جی کو کبھی
دادا جی کو تو کبھی دادی جان کو مگر جس طرح حکومت بارڈر پار ہمسایوں کو
دھمکا دھمکا کر بھی لگام نہیں ڈال سکی اسی طرح بچوں کو بھی قابو کرنا بس
خیال ہی ہے۔
انسان موسموں کے بارے میں پیش گوئی کرنے کے قابل ہو گیا ہے جبکہ بچوں کے
بارے میں کچھ بھی بتا سکنا کہ یہ کب کیا اور کیوں چاہ سسکتے ہیں آج تک ممکن
نہیں ہو سکا۔ روتے روتے ہنس پڑنا اور ہنستے ہنستے رو پڑنا کہ سنبھالنے والا
سنبھل نہ سکے انکی اہم خصوصیت ہے۔ بچوں کا مزاج اس پانی کے بہاؤ جیسا ہے
جس کے ساتھ ساتھ آپ اپنا وقت اور طاقت خرچ کرکے بلکہ خوار ہو کے چلنا
سیکھتے ہیں مگر گرتے ہی رہتے ہیں کیونکہ اچانک آنے والی آندھی اور انکے
اچانک آںے والے آنسوؤں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔
انکو دیکھ دیکھ کر سنبھال سنبھال کر بھئی میں نے وت ایک ہی نتیجہ نکالا اور
وہ یہ کہ انکو جس جس طرح سے یہ چاہیں سنبھالو انکے ساتھ ساتھ چلو مگر قابو
نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر بچوں کوسنبھالنے میں اپنا
خیال رکھنا سب سے ضروری ہے۔ جب خود چڑچڑے ہوں تو انسان کو ان پر بھی غصہ
آتا ہے کسی بھی طرح کسی بھی وقت آدھا گھنٹہ اپنے ساتھ تنہائی میں گزاریں
اور ریچارج ہوں پھر باقی دن انکے ساتھ خوار ہوں۔ |