اردو انشا پردازی کی مذہبی جڑیں
(Safdar Imam Qadri, India)
( فکشن کی تاریخ کے خصوصی حوالے سے )
آج انسانی سماج کو ادب، سیاست، مذہب، اور معیشت کے درمیان تو ازن بٹھانے
میں جس قدر بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہو لیکن اس حقیقت سے انکار
مشکل ہے کہ ا ن میں سے کسی ایک کی اہمیت اورضرورت سے منکر ہو کر کرّہ ارض
پر جینا شاید ہی ممکن ہوسکے ۔ جدید اورترقی یافتہ دنیا میں سیاست اورمعیشت
کے بے پایاں اورگونا گوں اثرات کو سامنے رکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں لیکن
دنیا کے ایک بڑے حصے سے مذہب بے زاری کی آوازیں بہت واضح انداز میں سنائی
دیتی ہیں ۔ مذہب کے ساتھ ساتھ ادب کے حاشیے تک پہنچ جانے کی بات ایک بڑا
طبقہ ماننے لگا ہے ۔گذشتہ چار پانچ سو برس کی ترقیات نے مذہب کو پہلے
دقیانوسیت اور بوسیدگی کا مترادف بتایا اورفی زمانہ انتشار اورانتہا پسندی
کا نقیب بتانے کی مہم چھیڑی گئی ۔مادّیت نے یو ں بھی ادب کا بازار بھاو
اتنا گھٹادیا کہ اس کی سماجی حیثیت ’ہر چندکہ ہے ‘،نہیں ہے ‘ جیسی ہوگئی ۔
ایسے میں سو برس پہلے اکبر کی خدالگتی یادآتی ہے:
رقیبوں نے رَپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
ایسے ادب اورمذہب بے زار ماحول میں اردوفکشن کے حوالے سے مجھے دونوں کے
باہمی تعلّق کی پڑتال کرتے ہوئے اردو انشا پردازی کی جڑوں کی تلاش کرنے کی
ضرورت آن پڑی ہے ۔ اردوادب کی تاریخ کا ایک طالب علم ہونے کی وجہ سے مجھے
سرسری گزرنے کے بجاے اصولی گفتگو کے ساتھ ساتھ فکشن کے اہم نمونوں کی زبان
اوراسلوب کا مقدوربھر احتساب کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔
مجھے اس بات کے کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ ادب کی قدر وقیمت کے اصول اور
اسالیب غیر مذہبی ہی ہوں تو بہتر ہوگا ۔اسی طرح ادب کی سیاسی تعبیر کی سکّہ
بند روایت قائم نہ ہو، یہی مجھے موزوں معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے یہ ثابت
نہیں ہوتا کہ ادب کا مذہب یا سیاست سے تعلّق نہیں ہے ۔ دنیا کی مختلف
زبانوں اورمتعدّد ممالک میں ایک صدی سے اشتراکیت کی مقبولیت نے ضرور ادب کے
حوالے سے یہ ماحول قائم کیا ہے کہ ادب کا مذہب سے کوئی تعلّق نہیں ہے،
حالاں کہ اسی کے ساتھ یہ بات باربار کہی جاتی ہے کہ ادب کا سیاست سے گہرا
رشتہ ہے۔ عصرِ حاضر کے اس مسئلے کے فوری جواب سے صرفِ نظر کرتے ہوئے میں
اردوادب بالخصوص فکشن کی چارسو سال کی تاریخ کے نہاں خانے سے پرد ے ہٹاکر
کچھ ثبوت، دلیلیں اور نتائج اخذکر نے کی کوشش کروں گا۔
ملّا وجہی کی تصنیف ’سب رس ‘ کو اردو کی ادبی نثر کا اوّلین نمونہ تسلیم
کیا جاتاہے ۔ جسے ۱۰۴۵ھ بہ مطابق ۱۶۳۴-۳۵ ء میں لکھا گیا تھا ۔ اردو ادب کے
مورّخین ’پہلی غیر مذہبی داستان‘ کے بہ طور ’سب رس‘ کی شناخت کرتے ہیں ۔ اس
سے پہلے برہان الدین جانم کی ’کلمۃ الحقائق‘‘ کو مذہبی مقصد سے لکھی ہوئی
کتاب قراردے کر ادبی تاریخ سے درکنا رکرنے کا اردومیں رواج عام ہے ۔ سب رس
کے مصنف نے جس نثر یا انشا کا خاکہ تیار کیا ،ا س کا اصول یہ تھا :
’’آج لگن کوئی اس جہان میں، ہندوستان،ہندی زبان سوں، اس لطافت اس چھنداں
سوں، نظم ہور نثر ملا کر گلاکر یو نیں بولیاں۔‘‘
ملّا وجہی نے نثر اورنظم ملا کر جس نئی نثر نویسی اورقصہ گوئی کا خاکہ قائم
کیا ؛ وہ اردومیں قصہ گوئی کے ساتھ ساتھ غیر افسانوی ادب کے لیے مرصّع
روایت کا آخری اصول بن گیا ۔سادہ گوئی کے پرستاروں نے بھی اپنی سادگی میں
پُرکاری کے جلوے سمونے کے لیے وجہی کے اصولِ نثرنگاری سے ہی روشنی حاصل کی
۔ لیکن یہ تفتیش بے حد دل چسپ ہوگی کہ آخروجہی کے اسلوب کے ایسے جوہر کیوں
کر کُھلے اوراس انشا کی بنیاد میں کون سی زبان اورکیسا نفسِ مضمون شامل ہے
؟
’سب رس‘ میں قافیہ بندی کے ساتھ ساتھ پیکر تراشی ،تشبیہات واستعارات کو
نثری ستون کے طورپر استعمال کیا گیا ہے ۔کبھی کبھی یہ جملے مصرعے کے
مانند’سب رس‘کے صفحات پر تیرتے معلوم ہوتے ہیں ۔اکثر وبیش تر جملے طویل ہیں
لیکن الفاظ وتراکیب کے استعمال میں ایسی مشّاقی اورمہارت ہے کہ یہ پڑھنے یا
سننے میں شاعرانہ لطف تو دے سکتے ہیں لیکن معنوی اعتبار سے کسی ابہام کا
شائبہ بھی نہیں ہوتا ۔یو ں تو نقادوں نے ’سب رس’ کو مرصع اورمسجع نثر کے
نمونے تک محدود کرکے دیکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کتاب کے متن پر ہماری
نظر جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس کاایک رخ تمثیلی ہے تو اسی کے ساتھ
’قصۂ حسن ودل‘ کے ترجمے کی وجہ سے قصے کی اٹھان ایک مکمّل داستانی فضا وضع
کرتی ہے ۔
لیکن ’سب رس‘ کے مطالعے کا ایک دوسرارُخ بھی ہے ۔وجہی کے نام سے قبل جس
احترامی لقب’ملّا‘ کو ہم اس کے اصل نام کی طرح جوآج تک یاد کرتے ہیں ؛آخر ا
س کی صلاحیت کے استعمال اورخونِ جگر کے اصراف کا موقع ابھی کہاں آیا ۔دکن
میں ’ملّا‘ جن کے نام کے ساتھ جُڑا،وہ سب واقعتا مذہبی علوم کے ماہرین میں
سے آتے تھے ۔ملّا وجہی بھی خالصتاً عالم فاضل آدمی تھا ۔وہ ’قصۂ حسن ودل‘
ترجمہ کرکے اور ایک قصہ گو کی طرح داستان سرائی کرکے کیوں صبر کرلیتا ہے ؟
اسی لیے ’سب رس ‘میں اس نے اپنے مطالعے اورتجربے کا نچوڑ شامل کرنے کے لیے
مختصر انشائی شذرات کہیں پیوند اور کہیں جزوِ قصہ کی طرح شامل کردیا ۔
ایمان کی بات تو یہی ہے کہ انھی شذرات میں ’سب رس‘ کی روح موجود ہے اوریہیں
’ ملّا وجہی‘ کی انشا پردازی نصف النہار پر ہے۔
’سب رس‘کواردو کی پہلی ادبی نثر کہتے ہیں لیکن زبان وانشا اور نفسِ مضمون
کی سطح پر اس میں جو پختہ کامی نظر آتی ہے، اس کی پشت پر اس کا مذہبی علم
ہے ۔ شذرات میں اخلاق ،تصوّف اورمعرفت کی جو گہری باتیں دیکھنے کو ملتی
ہیں، ان میں اپنے عمیق مذہبی مطالعے کا نچوڑ وجہی نے شامل نہیں کیا ہوتا تو
شاید ’سب رس‘ دکن کی ایک عام سی کتاب بن کر رہ گئی ہوتی ۔ اسی علم کی بہ
دولت اس میں جہاں دیدنی بھی آئی ہے ۔ وہ اپنے تجربات اورمشاہدات کو اپنے
عہد کا ترجمان بنا کر پیش کرنے میں صرف اس لیے کامیاب ہوسکا کیوں کہ اس نے
اپنے قصے میں مذہبی علم کی قوت کا مظاہر ہ کیا ہے ۔ ملّا وجہی کومعلوم ہے
کہ وہ صرف ایک عالِم نہیں بلکہ ایک ماہرقصہ گو اورشعر وادب کے کوچے کا
پُراناسیّاح بھی ہے ۔ اسی لیے وہ مذہب اور کارِدنیا کو حلو ل کرکے اپنے
انشائی کرتب سے ایک ایسا ادبی صحیفہ تیا رکرتا ہے جہاں قدم قدم پر رسائل
صوفیہ کا گمان بھی گزرتا ہے لیکن اگلے قدم پر ہی وجہی کا دوسرا رنگ ہمیں
دعوتِ نظّارہ دینے لگتا ہے ۔ جہاں بادشاہ بھی ہے ، عورت اور شراب بھی؛ لیکن
کوئی ایسا مقام نہیں جہاں ملّا وجہی کی انشا پردازی کی آنچ کم ہوتی ہے
اورنہ ہی اس کی پختہ روی میں کوئی کمی آتی ہے ۔
ملّا وجہی کی انشا پر دازی میں پختگی کی بنیاد اس کی قصہ گو ئی سے زیادہ
عالِم ہونے کی وجہ سے پید اہوئی ہے ۔اسی درس میں وہ عربی اورفارسی کے ساتھ
ساتھ مقامی بولیوں کے آداب بھی سیکھتا ہے ۔ اردو کی پہلی داستان میں
اسلوبیاتی سطح پر ایک ایسی تکمیلیت کا احساس ہوتا ہے جہاں آنے والے وقت کی
زبان جنم لینے والی ہوتی ہے۔ ’سب رس‘ ٹکسالی ثابت ہوئی اوراردو داستان کا
ہر موڑ اپنے انشائی رنگ وروغن کے لیے ملّا وجہی سے ہی سند لیتارہا ۔اس سے
یہ سلسلہ بھی قائم ہوا کہ ہر داستان گو ملا وجہی ہی کی طرح اپنے مذہبی علم
اورتجربوں کوقصوں کی ترتیب میں داخلِ دفتر کرکے ایک دل چسپ صورت حال پیدا
کرتا رہا ۔ ’نو طرزِ مرصع‘ ،’عجائب القصص‘، ’باغ وبہار‘، ’طلسم ہوش ربا‘
اور’فسانۂ عجائب ‘ جیسی داستانوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے اندازہ کرنا
مشکل نہیں کہ اگر ایک عالَم ان کے انشا پر داز انہ جوہر پر سر دُھنتا ہے تو
کیا اس دادوتحسین کی بنیادیں صرف قصہ گوئی میں پیوست ہیں یا ان کے بعض
دوسرے پہلو بھی قابلِ غور ہیں ؟ میری سفارش ہوگی کہ مذکورہ داستانوں کا
مطالعۂ نو ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ان داستانوں میں تاریخِ اسلام
یا مذہبی امور کی بحث نے جو اہتمام اورپُرتکلّف صورتِ حال قائم کی ہے، اسی
سے ان مصنفین کی انشا پردازی کا رنگ مزید نکھرا اورزبان واسلوب کی شوکت میں
اضافہ ہوا ۔ اگر ان داستان گو یوں نے اپنے بنیادی قصّوں میں اسلامی ماحول
کی شمولیت کی گنجائش نہ پیدا کی ہوتی تو اُن کے اسلوبِ بیان کی قِسمیں
سیکڑوں برس تک کیسے د کھائی جاسکتی تھیں ؟
یہ سوال قابلِ غور ہے کہ انشا پر دازی کے عناصر ترکیبی کیا کیا ہیں اوریہ
بھی کہ تخلیقی اورغیر تخلیقی نثر میں اس کی صورت کس حدتک بدل سکتی ہے ؟
غالب نے کہا تھا :
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
اسی طرح انشا پردازکے لیے ’بادہ وساغر‘ کی کون سی صورت ہوسکتی ہے؟ اردونثر
کے طالب علم کی حیثیت سے متعدد انشا پرداز وں کے شہ پاروں کے مطالعے کے بعد
یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اردو کی تخلیقی یا غیر تخلیقی نثر بالعموم انھی
مرحلوں میں انشا پرداز انہ سلوک کے ساتھ دکھائی دیتی ہے جب اسے اسلامی
تاریخ یا مذہبی علم کے کاندھے پر سوار رکھاجائے۔ عربی اورفارسی زبان کے
اہتمامات اس کی روشنی اور چمک میں مزید اضافہ کرتے ہیں ۔ یہاں یہ بات یاد
رکھنے کی ہے کہ یہ باتیں داستانوں یا قصہ گوئی کے خصوصی تناظر میں ہو رہی
ہیں اورلکھنے والے کو معلوم ہے کہ وہ مذہبی کتاب نہیں لکھ رہا ہے بلکہ اسے
ایک ادبی شہ پارہ پیش کرنا ہے ۔اسی لیے ’سب رس ‘ تک محدود نہیں، مذکورہ
تمام داستان گویوں نے اسلوبیاتی سطح پر مذہب سے فائد ہ اٹھانے کے باوجود
اپنے عمومی مضمون کو بدل دینے کی کوشش نہیں کی ۔اسی لیے ان داستانوں کی
ادبی صحیفہ کے بہ طورآزادانہ شناخت قائم ہے ۔
داستانوں سے الگ اگر ناول کی تاریخ میں انشا پردازانہ اسالیب بیان کی تلاش
کیجیے توانیسویں صدی میں نذیر احمد کے ساتھ رتن ناتھ سرشار اورعبدالحلیم
شررکے نام لیے جاسکتے ہیں ۔ شرر کا تو یہی اختصاص ہے کہ وہ تاریخ اسلام سے
اپنے ناولوں کا مواد اخذکرتے ہیں ۔ رتن ناتھ سرشار نے لکھنؤ کا زوال، مسلم
معاشرے کا زوال اور اقدارقدیم کی پسپائی کی جو داستان سرائی کی ہے ،اس میں
بھی مسلمانوں کے عروج وزوال کی پر چھائیاں ہر صفحے پر موجود ہیں ۔ رتن ناتھ
سرشار کے مذہب پہ مت جائیے ، وہ اپنے شہر اور اپنی تہذیب کا ما تم کرتے ہیں
جو دوسرے لفظوں میں عام مسلم سماج اورمسلمانوں کے تِل تِل گم شدہ ہونے کی
کہانی ہے ۔ سرشار نے اگر انشا پردازانہ مہارت حاصل نہیں کی ہوتی تو لکھنؤ
کی پُرتکلف زندگی کی ایک ایک سانس اوردھڑکن کووہ لفظوں میں کیسے قید کرسکتے
تھے ؟ اودھ کی جس ڈھہتی ہوئی دیوار کے ساے میں اردو انشا پردازی کا جو نیا
شاہ کار سر شار کے ہاتھو ں پایۂ تکمیل تک پہنچا؛ ا س میں عروج اورزوال، ہار
اور جیت ، خواب اور حقیقت کا ایک گھماسان مچاہوا ہے ۔ ہر مقام پر یہ سوال
موجود ہے کہ آخر مسلمانوں کی تاریخ کے احوال رقم کرتے ہوئے زبان میں شوکت
کا سکّہ قائم ہونا ہی تھا ۔
پریم چند کی عظمت اپنی جگہ لیکن انھوں نے سادگی ِ بیان کو ایسا آخری حربہ
بنایا جس سے فکشن بہ تمام وکمال انشا پردازی سے دور ہوتا گیا۔ نثر سادہ کا
طوفان اس قدر زورآور تھاکہ مرصّع اورمسجع نثر نگاروں کے لیے مواقع محدود تر
ہوتے چلے گئے ۔ پوری بیسوی صدی کے افسانہ نگاروں ا ورناول نویسوں کی خدمات
پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پریم چند کے گہرے اثرات میں انھیں ایک ایسی
دائمی زبان حاصل ہوگئی جس کا انشا پردازی سے کوئی رشتہ نہیں تھا ۔ حالا ں
کہ وہی پریم چند جب ابتدائی زمانے میں مسلمانوں کی تہذیب کو پس منظر کے
طورپر پیش کرکے ’دنیا کا سب سے انمول رتن‘ جیسا افسانہ قلم بند کرتے ہیں تو
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ انشا پردازی کے سارے آداب سے واقف ہیں اورایسی
نثر کے تکلّف ، تہذیب اورنفس مضمون کے جادو سے لیس ہو کر ہی قصّہ نویسی کی
دنیا میں قدم رکھتے ہیں ۔ سادگیِ زبان کو پریم چند نے رواجِ عام بخشا
اوراپنی انشا پردازی سے دست بردار ہوگئے ۔ ان کے بعد لکھنے والوں میں
اشتراکیت کا اس قدر زور رہا کہ پہلی منزل پر مذہب اور دوسری منزل پر انشا
پردازی یعنی خواص کی زبان سے علاحدگی ہی افسانہ نگاروں کا اصل ایمان ثابت
ہوئی ۔
ایسے ماحول میں صرف قرۃ العین حیدر نے پریم چند کی روایت اور رواجِ زمانہ
کے بَرخلاف جا کر اپنی تخلیقات میں انشا پردازی کو اہمیت عطا کی۔ قرۃ العین
حید ر نے جو نیا اسلوبِ بیان گڑھا ، اس کے داخل میں تاریخ،تہذیب
اوربالواسطہ طورپر مذہبِ اسلام کی روایات کا بڑا دخل ہے ۔ قرۃ العین حیدر
کی مشہور فیشن زدگی اورجدّت پسندی کا شور بہت ہے لیکن ان کی نثر میں تاریخ
اورتہذیب کے ساتھ ساتھ تصوف اور سِرّیت کے مظاہر جس سلیقے سے اپنے رنگ ڈھنگ
اوروقار کے ساتھ پیش ہوئے ہیں، اسی سے ان کی زبان ایک علاحدہ ذائقہ رکھتی
ہے ۔ ’ آگ کا دریا ‘ ہو یا ’ کار جہاں دراز ہے‘ ؛ قرۃ العین حیدر نے اسلام
یا مسلمانوں کی تاریخ سے ہمیشہ علاقہ رکھا اوراسی سے اپنی نثر کے رومانی
اورمہتم بالشان طَورکو اُبھارنے میں وہ کامیاب ہوئیں ۔ عظیم مصنفین کی
شخصیت اور ان کی کتابوں کی تفہیم کے مراحل پَرت درپَرت کُھل کرسامنے آتے
ہیں ۔ اس لیے قرۃ العین حیدر کے ظاہر انداز سے یہ سمجھنا شاید دھو کا
ہوجائے کہ وہ مذہب اسلام یا مسلمانوں کی اجتماعی زندگی سے کچھ تعلّق نہیں
رکھتیں ۔یہ صحیح ہے کہ قرۃ العین حید ر نے اپنے فکشن میں تاریخِ اسلام کے
علاوہ نئی دنیا کے مختلف مظاہر بھی شامل کیے ۔ ایک ماہر قصّہ گو کی طرح
انھیں اپنی تحریروں کی بوقلمونی کا خود خیال تھا۔ لیکن ذرا اس سوال پر غور
کیجیے کہ قرۃ العین حیدر نے اپنی تحریروں میں مسلمانوں کی تاریخ سے تعلق
نہیں رکھا ہوتا تو کیوں کر وہ دلفریب اورجا دو نگار انشا پردازانہ عنصر ان
کی پہچان کا حصّہ بن سکتا تھا؟
قصّہ گوئی کی ایک جہت ڈراما نویسی بھی ہے ۔عام طور پر یہ تسلیم شدہ حقیقت
ہے کہ ڈراموں کا اسلامی تہذیب سے کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ شایداسی وجہ سے اردو
میں ڈرامانویسی کی خاطر خواہ ترقّی نہیں ہوسکی ۔لیکن اردو کے بعض ذہین
ڈراما نگار وں نے اس صورت حال کا سلیقے سے مقابلہ کیا اور محدود پیمانے پر
ہی سہی لیکن کبھی ہندوصنمیات اورکبھی یونانیوں کی زندگی میں جھانکنے کی
کوشش کی ۔ مرزا امانت اورآغا حشر نے اپنی انشا پردازی کے اجزا کو مرتب اور
متعین کرنے کے لیے آس پاس کی تہذیوں کا سہارا لے کر اپنی تحریروں کو
نکھارا،آغا حشر نے اردو اور فارسی شاعری کا بے دریغ استعمال کرکے پُرتکلف
فضا پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اردو ڈرامے کی تاریخ میں امتیاز علی
تاج کے ڈرامے ’انارکلی ‘ کا جادو سَر چڑھ کر بولتا ہے ۔ تا ج کی انشاپردازی
کا سب لوہا مانتے ہیں ۔ لیکن کبھی یہ غور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ
ڈراما نگارنے بے جان لفظوں میں کہاں سے خون اورپانی سینچا ہے ۔ میرا معروضہ
ہے کہ تاج نے سلطنت مغلیہ یعنی ایک مسلم بادشاہ کی زندگی سے انھوں نے قصّے
کو اخذنہیں کیا ہوتا تو انشا کا وہ طلسماتی رعب اور خواب ناک وقار کیسے
میسر آتا۔ مسلمان بادشاہوں کے دربار کی فضا قائم کرنے کے لیے تاج نے اردو
ہی نہیں فارسی کے عارفانہ کلام کی شمولیت سے اپنے ڈرامے کو اردو انشا
پردازی کی تاریخ میں انوکھی مثال کے طورپر پیش کردیا ہے ۔
ختمِ کلام سے پہلے ایک لحظہ کے لیے غیر افسانوی ادب کی طرف آتے ہیں ۔ محمد
حسین آزاد، الطاف حسین حالی ،شبلی نعمانی اورابوالکلام آزاد کی انشا
پردازانہ حیثیت کے بارے میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ان
کے مطالعے کا میدان اورخاص دلچسپی کا علاقہ بہر طور مذہب اسلام سے براہ
راست متعلّق ہو جاتا ہے ۔ سب کے سب مسلمانوں کی تاریخ کے شیدا اورخوشہ چیں
ہیں ۔ ان کے اسلوب میں سا لمیت اورٹھہراو ، وقار اور سنجیدگی، روانی اور
شادابی ،خواب اورحقیقت اورنہ جانے کتنے طلسمات ہیں جو انھوں نے اپنی انشا
پردازی کے بطن میں شامل کردیے ہیں ۔ آج ان صاحبانِ نظر پر تفصیلی گفتگو کا
موقع نہیں لیکن میں اردو نثر کی تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ بات
پورے ادب کے ساتھ گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ اردوتنقید نے ہماری زبان کی
مذہبی بنیادوں پر خاطر خواہ غور وخوض نہیں کیا ۔یہ مطالعہ مذہبی اوزاروں کے
ساتھ ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ تفہیم کے آداب ہر طورپر ادبی ہی ہوں۔ خاص طور
پر زبان کی باریکیوں پر غور کرنے والے نقّادوں کو تو ان سوالوں سے نبردآزما
ہونا ہی پڑے گا کہ آخر انشا پردازوں کے لیے تاریخ اسلام یا مسلمانوں کی
زندگی یا مسلمانوں کی تاریخ کیوں کر ایک مرغوب جزیرہ ثابت ہوئی ؟ مذہب
بیزاری کے ماحول سے اردو ذرا باہر نکلے تو ہمارے نقّادانِ کرام اردو انشا
پردازی کے مذہبی انسلاکات پر غور وفکر کے لیے موقع نکال سکیں ۔ ہمیں اس وقت
کا انتظار کرنا چاہیے۔ |
|