What a laws of Limitation and basic of
leader Assam?
لیڈرازم ایک لفظ نہیں یا ایک فرد واحد کانظریہ نہیں بلکہ Politicians اور
عام افراد کے مابینSocial Interactionیا معاشرتی تال میل کا مطالعہ ہے.اسی
معاشرتی نفسیات کے بل بوتے پر ماضی کے کئ فسطائ لیڈرز عوام پر اپنا آمرانہ
تسلسل قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے.اور تاحال اسکا کامیابی سے اطلاق کیا
جارہا ہے. یہ اور بات ہے کہ اب اسے جمہوریت کا خوبصورت لبادہ پہنا دیا گیا
ہے.آخر وہ کون سے عوامل ہیں جنکی بناء پر سوویت یونین کے لیڈر لینن،چینی
راہنما ماؤزرے تنگ،ویت نامی انقلابی ہوچی مہنہ، شمالی کوریا کے قائد کم ال
سونگ اور کیوبا کےفلسفی راہنما کاسترو جیسے لیڈرز کامیابی سے حکومت کرتے
رہے.ایک طویل عرصے تک. وہ ان لیڈروں میں سے تھے جنہوں نے کسی لیبارٹری میں
نہیں بلکہ معاشرے پر اپنی سوچ مسلط کرنے کے تجربات کیئے اور بڑی حد تک
کامیاب رہے.ان افراد کے معاشرتی تجربات نے ایک نئے اور مختلف انسان کو جنم
دیا اس بات سے قطع نظر کہ وہ مجموعی طور پر ایک اچھا انسان ہے یا برا...اس
سے ایک بات تو مسلم ہوگئ اپنی جگہ کہ ان لیڈرز کی کی عظمت معاشرے میں ایک
معاشرتی نفسیات دان کی طرح تھی جس سے کوئ بھی باشعور افراد انکار نہیں
کرسکتا.ایک فرد واحد کا پوری قوم پر ذہنی تسلط قائم کرنا اور اور اسے تسلسل
سے برقرار رکھنا کوئ معمولی بات نہیں دیکھا جائے تو انکے کیئے تجربات آج
بھی سیاسی منظر نامے میں کسی نہ کسی صورت میں جلوہ گر ہیں.رفیق جعفر کی
کتاب "نفسیات کا ارتقاء"اور بی پور شینفB.Porshnevکی کتاب Social
Psychology and Historyمیں بھی ان لیڈرز کے متعلق کم و بیش انہی خیالات کا
اظہار کیا گیا ہے اس سلسلے میں 1890میں ایک فرانسیسی ماہر ٹارڈے نے ایک
کتاب لکھی جس میں اس امر کو واضح کیا گیا کہ ایک گروہ کسطرح اپنے قائد کے
بتائے ہوئے راستے پر اندھی تقلید میں چلتا ہےاس نے بتایا کہ ایک لیڈر عام
افراد کی Suggestiblityکی پاور سے فائدہ اٹھاتا ہےاور وہ ایک ہپنو ٹائز
مینٹل کنڈیشن کے تحت اسکی ہر بات ایک خودکار مشینی روبوٹ کی طرح اسکی ہر
بات پر عمل کرنے کے لیئے تیار ہوجاتے ہیں. انہی فیکٹس پر ایک اور فرانسیسی
ماہر بون لی نے 1895میں اپنی کتاب دی کراؤڈThe Crowd میں ڈالی.اسکے خیال
میں جب گروہی رشتہ آپس میں بڑھ جائے تو اس میں موجود ہر فرد اپنی ذاتی
تنقیدی خصوصیت سے آزاد ہوجاتا ہے تبھی ایک گروہ ایک جذباتی اور بے قابو
ہجوم میں تبدیل ہوجاتا ہے. جسے ایک لیڈرانہ خصوصیت کا حامل فرد باآسانی
اپنے اشاروں پر نچا سکتا ہے.پھر اس حوالے سے برٹش سائیکلوجسٹ میکڈوگل
1908کا اپنی کتاب انٹروڈکشن آف سوشل سائیکلوجی میں پیش کیا نظریہ بھی کافی
اہم ہے اسکے خیال میں ایک انسان اسلیئے کسی گروہ میں شامل ہوتا ہے کیونکہ
ایسا کرنا اسکی فطری جبلت ہے اسکی ذات کا ایک اہم حصہ جو اسے پیدائشی طور
پر وراثت میں ملتا ہے.وہ کبھی ایک الگ تھلگ زندگی نہیں گزار سکتا اسکا یہ
انتخاب اسکی زندگی کا آگے کا لائحہ عمل متعین کرتا ہے.تاوقتیہ وہ ذہنی طور
پر کسی گروہی لیڈرـ کے ٹرانس مین نہین آجاتااسکے بعد امریکی ماہر واٹسن اور
فلائیڈ آلپورٹ نے بھی اس پر کافی تحقیق کی.1930میں اس ضمن میں باقاعدہ
سائنسی تجربات شروع ہوگئے.اور جے ایل مورینو اور مارگریٹ میڈ جیسے نام
سامنے آئے.مورینو نے ایک بے ساختگی کا تھیٹر قائم کرکے نئے پیمائشی طریقے
ایجاد کیئے جبکہ مارگریٹ میڈ نے مختلف معاشرت کے حامل لوگوں کے بیچ رہ کر
اپنے تاثرات قلمبند کیئے.میڈ کا یہ طریقہ بہت مقبول ہوا اور سیاحتی بنیادوں
پر لکھی گئ کتابوں کے ذریعے دیگر معاشرتی اور سماجی رویوں کا مطالعہ آسان
ہوگیا.اسکے بعد سولومن ایش، لیان فسٹنگر اور اسٹینلے ملگرام نے اپنے کیئے
گئے اہم تجربات سے اس پر مزید روشنی ڈالی کہ ایک فرد کی فیصلہ کرنے کی قوت
کیسے اس فرد کے اردگرد موجود لوگوں پر اثرانداز ہوتی ہے.ہر فرد اپنے وقوف
اور کردار کے مابین ایک توازن قائم کرلیتا ہے.اپنی دانست میں اور جب گروہی
یا معاشرتی بنیادوں پر یہ توازن بگڑنے لگتا ہے تو بعض اوقات وہ اسے برقرار
رکھنے کے لیئے مضحکہ خیز حد تک جھوٹ بولنے اور کرداری تبدیلی کے لیئے بھی
تیار ہوجاتا ہے.آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ لیڈرز اکثر و بیشتر عوام سے لمبے
چوڑے اور بڑے بڑے دعوے کیوں کرتے ہیں. جن پر عمل اکثر وبیشتر ممکن ہی نہیں
ہوپاتا اسکے پیچھے یہی نفسیات کارفرما ہوتی ہے اس سے وہ اپنا سوشل کراوڈ
تسلسل سے بنائے رکھنے مین کامیاب رہتے ہیں. اور ایسے افراد کے زیر اثر اکثر
عام افراد بہت سے ایسے کام بھی سرانجام دے جاتے ہین.جو انفرادی نقطہء نگاہ
سے انکے نزدیک جرم یا گناہ ہوتے ہین.چاہے انکے احکامات بجا لانے کے نتیجے
میں معاشرے کے دوسرے افراد اپنی جان سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھو بیٹھیں.Social
Interaction کا عمل وہ دوہرا عمل ہے جس سے فرد واحد تو متاثر ہوتا ہی ہے پر
اسکے ساتھ ساتھ وہ پورے ایک کراؤڈ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے.اور یہی وہ
اصول ہین جو لیڈر ازم کی کامیابی کی بنیاد ہیں.جنھین موجودہ سیاسی تناظر
میں بھی بخوبی دیکھا جاسکتا ہے.آپ کسی بھی سیاسی پارٹی کے منعقد کیئے گئے
سیاسی جلسے مین اسکا عملا مظاہرہ دیکھ سکتے ہیں.تب شاید آپ کے لیئے اسے
سمجھنا آسان ہو. اور آمریت اور جمہوریت کا فرق بھی واضح ہوجائے ذہنوں
میں.آخر میں بس یہی کہوں گی
سونپ دی ہم نے ڈور ہاتھوں میں
آپ مرضی......... جہاں اڑا لیجٰئے. |