بابا جی نے تانبے کو سونا بنانے کا فن سیکھ
لیا تھا اور ہم یہ فن جاننے کےلئے روز ان کے پاس بیٹھ جاتے تھے‘ کامران کی
بارہ دری کی دیواریں آہستہ آہستہ بھربھرا رہی تھی‘ پرندے دیواروں کا چونا
چگنے کےلئے صبح سویرے بارہ دری پہنچ جاتے تھے اوررات تک اس اجڑے دیار کی
گری چھتوں اور رکوع میں جھکی دیواروں پرپھرتے رہتے تھے‘ بابا رات کے وقت
راوی کے اس سنسان ٹاپو پر آ تا تھا‘ وہ مشرق کے رخ بیٹھ کر آلتی پالتی
مارتا تھا اور سورج کی پہلی کرن تک وہاں دم سادھ کر بیٹھا رہتا تھا‘ فجر کے
وقت جوں ہی پرندوں کی چونچیں کھلتی تھیں‘ وہ ایک لمبا سانس لیتا تھا‘ ایک
ٹانگ پر کھڑا ہوتا تھا‘ باز کی طرح دونوں بازو کھولتا تھا‘ دوسری ٹانگ
سیدھی کر کے آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف پھیلاتا تھا اور اڑتے ہوئے پرندے کے
آسن میں کھڑا ہو جاتا تھا‘ وہ سورج چڑھنے تک اس آسن میں رہتے تھے اور اس کے
بعد سیدھے ہوتے تھے اور چائے کا ایک بڑا مگ پیتے تھے‘ ہم ان کے سیدھے ہونے
سے قبل ان کےلئے چائے بنا دیتے تھے‘ وہ چائے بھی نام کی چائے ہوتی تھی‘
بابا جی دو گھونٹ پانی میں دو گھونٹ دودھ اور چائے کے چار چمچ پسند کرتے
تھے‘ وہ میٹھے سے نفرت کرتے تھے چنانچہ ہم ان کی چائے میں چینی نہیں ڈالتے
تھے‘ وہ اس کے بعد اپنی پتیلی اٹھاتے‘ پانی میں اترتے اور شڑاپ شڑاپ کرتے
ہوئے جنگل میں غائب ہو جاتے‘ ہم روز سوچتے بابا جی کیسے جانتے ہیں پانی کس
کس جگہ کم ہے اور وہ چل کر دریا پار کر سکتے ہیں‘ ہم روز سوچتے تھے اور
ہمیں اس کا جواب نہیں ملتا تھا‘ ہم کشتی کھولتے اور چپو چلا کر کنارے پر
پہنچ جاتے‘ ہم بابا جی کے تین شاگرد تھے‘ شاگرد بھی ہم نے خود ہی طے کر لیا
تھا‘ بابا جی نے ہمیں کبھی شاگرد نہیں مانا تھا بلکہ مجھے بعض اوقات محسوس
ہوتا تھا وہ شاید ہمارے وجود ہی سے لاتعلق ہیں‘ وہ ہم سے دس دس دن بات نہیں
کرتے تھے اور اگر کبھی بولنا ضروری ہوتا تھا تو ان کی بات چند لفظوں تک
محدود ہوتی تھی‘ وہ سارا دن راوی کے جنگلوں میں غائب رہتے اور شام کے وقت
اپنی گڈری اور میلی کچیلی پتیلی کے ساتھ کامران کی بارہ دری پہنچ جاتے ‘ ہم
تینوں ان کے پہنچنے سے پہلے بارہ دری میں ہوتے تھے‘ بابا جی آتے‘ ہم پر ایک
نگاہ ڈالتے‘ مشرق کے رخ بیٹھتے اور دم سادھ لیتے‘ مجھے بابا جی کا پتہ دھرم
پورہ کے بابا جی نے دیا تھا‘ یہ ان کے شاگرد رہے تھے‘ میں انہیں ڈھونڈتا
ڈھونڈتا کامران کی بارہ دری پہنچا اور میں نے انہیں پا لیا مگر وہ میرے
وجود ہی سے لاتعلق تھے‘ بالکل ان دونوں شاگردوں کی طرح جو مجھ سے پہلے ان
کے مرید ہوئے اور جنہیں بابا جی کی سیوا کرتے دو سال بیت چکے تھے۔
میں کہانی کو مختصر کرتا ہوں‘ بابا جی مدراس کے رہنے والے تھے‘ بچپن میں
جوگیوں کے ہتھے چڑھے اور پھر پوری زندگی جوگ میں گزار دی‘ پچیس تیس سال قبل
لاہور آئے اور راوی کے کناروں کو مسکن بنا لیا‘ وہ سارا دن جنگل میں غائب
رہتے اور شام کے وقت کامران کی بارہ دری آ جاتے اور صبح دس بجے تک وہاں
رہتے‘ دھرم پورے والے بابا جی کا کہنا تھا‘ یہ بابا جی تانبے کو سونا بنانا
جانتے ہیں‘ انہوں نے خود ایک بار تانبے کی ڈلی سونا بنا کر انہیں گفٹ کر
دی‘ میں ان دنوں کیمیا گری کے بارے میں کتابیں پڑھ رہا تھا‘ سائنس کہتی تھی
کوئی دھات اپنا جون تبدیل نہیں کرتی مگر کیمیا گری کہتی تھی ہم جس طرح ہوا
کو مائع اور مائع کو ٹھوس بناسکتے ہیں بالکل اسی طرح لوہے کو تانبا اور
تانبے کو سونے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور میں ان دنوں اس بات کو سچ
سمجھتا تھا اور سچائی کی یہ تلاش مجھے اس باباجی تک لے گئی‘ بابا دنیا جہاں
کی نعمتوں اور ضرورتوں سے مبریٰ تھا‘ وہ کپڑے روڑی سے نکال کر پہن لیتا
تھا‘ جوتے وہ پہنتا نہیں تھا‘ وہ کھاتا کیا تھا‘ ہم اس کے بارے میں کچھ
نہیں جانتے تھے‘ ہم بس اسے کڑوی چائے کا ایک کپ پیتے دیکھتے تھے اور وہ اس
کے بعد اپنی پتیلی لے کر جنگل میں غائب ہو جاتا تھا‘ میں کہانی کو مزید
مختصر کرتا ہوں‘ یہ سردی کی سرد رات تھی‘ میں اس رات بابے کے پاس اکیلا
تھا‘ کامران کی بارہ دری میں بارش ہو رہی تھی‘ بابا جی بارش میں آسن لگا کر
بیٹھے تھے اور میں چھتری تان کر ان کے سر پر کھڑا تھا‘ بابا جی نے اچانک
ایک لمبی ہچکی لی‘ ان کا سانس اکھڑا اور انہوں نے غصے سے میری طرف دیکھا‘
میں نے زندگی میں کبھی اتنی خوفناک اور گرم آنکھیں نہیں دیکھیں‘ میرے پورے
جسم میں حرارت دوڑ گئی اور میں سردیوں کی بارش میں پسینے میں شرابور ہو
گیا‘ بابا تھوڑی دیر تک میری طرف دیکھتا رہا‘ اس نے پھر میرا ہاتھ پکڑ کر
اپنے سر سے چھتری ہٹائی‘ گیلی زمین سے اٹھا اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر
بیٹھ گیا‘ میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا‘ چھتری بند کی
اور ٹیک لگا کر دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا‘ بابے نے لمبا سانس لیا اور بولا ”
کاکا تم چاہتے کیا ہو“ میں نے عرض کیا ” کیاآپ کو واقعی سونا بنانا آتا ہے“
بابے نے خالی خالی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلا کر بولا ”
ہاں میں نے جوانی میں سیکھا تھا“ میں نے عرض کیا ”کیا آپ مجھے یہ نسخہ سکھا
سکتے ہیں“ بابے نے غور سے میری طرف دیکھا اور پوچھا ” تم سیکھ کر کیا کرو
گے“ میں نے عرض کیا ” میں دولت مند ہو جاﺅں گا“ بابے نے قہقہہ لگایا‘ وہ
ہنستا رہا‘ دیر تک ہنستا رہا یہاں تک کہ اس کا دم ٹوٹ گیا اور اسے کھانسی
کا شدید دورہ پڑ گیا‘ وہ کھانستے کھانستے دہرا ہوا اور تقریباً بے حالی کے
عالم میں دیر تک اپنے ہی پاﺅں پر گرا رہا‘ وہ پھر کھانستے کھانستے سیدھا
ہوا اور پوچھا ” تم دولت مند ہو کر کیا کرو گے“ میں نے جواب دیا ” میں دنیا
بھر کی نعمتیں خریدوں گا“ اس نے پوچھا ”نعمتیں خرید کر کیا کرو گے“ میں نے
جواب دیا ”میں خوش ہوں گا‘ مجھے سکون ملے گا“ اس نے تڑپ کر میری طرف دیکھا
اور کہا ”گویاتمہیں سونا اور دولت نہیںسکون اور خوشی چاہیے“ میں خاموشی سے
اس کی طرف دیکھتا رہا‘ اس نے مجھے جھنجوڑا اور پوچھا ” کیا تم دراصل سکون
اور خوشی کی تلاش میں ہو؟“ میں اس وقت نوجوان تھا اور میں دنیا کے ہر
نوجوان کی طرح دولت کو خوشی اور سکون سے زیادہ اہمیت دیتا تھا مگر بابے نے
مجھے کنفیوز کر دیا تھا اور میں نے اسی کنفیوژن میں ہاں میں سر ہلا دیا‘
بابے نے ایک اور لمبا قہقہہ لگایا اور اس قہقہے کا اختتام بھی کھانسی پر
ہوا‘ وہ دم سنبھالتے ہوئے بولا ” کاکا میں تمہیں سونے کی بجائے انسان کو
بندہ بنانے کا طریقہ کیوں نہ سکھادوں‘میں تمہیں دولت مند کی بجائے پرسکون
اور خوش رہنے کا گر کیوں نہ سکھادوں“ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘
وہ بولا ” انسان کی خواہشیں جب تک اس کے وجود اور اس کی عمر سے لمبی رہتی
ہیں‘ یہ اس وقت تک انسان رہتا ہے‘ تم اپنی خواہشوں کو اپنی عمر اور اپنے
وجودسے چھوٹا کر لو‘ تم خوشی بھی پاﺅ جاﺅ گے اور سکون بھی اور جب خوشی اور
سکون پا جاﺅ گے تو تم انسان سے بندے بن جاﺅگے“ مجھے بابے کی بات سمجھ نہ
آئی‘ بابے نے میرے چہرے پر لکھی تشکیک پڑھ لی‘ وہ بولا ” تم قرآن مجید میں
پڑھو‘ اللہ تعالیٰ خواہشوں میں لتھڑے لوگوں کو انسان کہتا ہے اور اپنی محبت
میں رنگے خواہشوں سے آزاد لوگوں کو بندہ“ بابے نے اس کے بعد کامران کی بارہ
دری کی طرف اشارہ کیا اور بولا ” اس کو بنانے والا بھی انسان تھا‘ وہ اپنی
عمر سے لمبی اور مضبوط عمارت بنانے کے خبط میں مبتلا تھا‘ وہ پوری زندگی
دولت بھی جمع کرتا رہا مگر اس دولت اور عمارت نے اسے سکون اور خوشی نہ دی‘
خوش میں ہوں‘ اس دولت مند کی گری پڑی بارہ دری میں برستی بارش میں بے امان
بیٹھ کر“ میں نے بے صبری سے کہا ” اور میں بھی“ اس نے قہقہہ لگایا اور جواب
دیا ” نہیں تم نہیں! تم جب تک تانبے کوسونا بنانے کا خبط پالتے رہو گے تم
اس وقت تک خوشی سے دور بھٹکتے رہو گے‘ تم اس وقت تک سکون سے دور رہو گے“
بابے نے اس کے بعد زمین سے چھوٹی سی ٹہنی توڑی اور فرش پر رگڑ کر بولا ” لو
میں تمہیں انسان کو بندہ بنانے کا نسخہ بتاتا ہوں‘ اپنی خواہشوں کو کبھی
اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دو‘ جو مل گیا اس پر شکر کرو‘ جو چھن گیا اس پر
افسوس نہ کرو‘ جو مانگ لے اس کو دے دو‘ جو بھول جائے اسے بھول جاﺅ‘ دنیا
میں بے سامان آئے تھے‘ بے سامان واپس جاﺅ گے‘سامان جمع نہ کرو‘ ہجوم سے
پرہیز کرو‘ تنہائی کو ساتھی بناﺅ‘ مفتی ہو تب بھی فتویٰ جاری نہ کرو‘ جسے
خدا ڈھیل دے رہا ہو اس کاکبھی احتساب نہ کرو‘ بلا ضرورت سچ فساد ہوتا ہے‘
کوئی پوچھے تو سچ بولو‘ نہ پوچھے تو چپ رہو‘ لوگ لذت ہوتے ہیں اور دنیا کی
تمام لذتوں کا انجام برا ہوتا ہے‘ زندگی میں جب خوشی اور سکون کم ہو جائے
تو سیر پر نکل جاﺅ‘ تمہیں راستے میں سکون بھی ملے گا اور خوشی بھی‘ دینے
میں خوشی ہے‘ وصول کرنے میں غم‘ دولت کو روکو گے تو خود بھی رک جاﺅ گے‘
چوروں میں رہو گے تو چور ہو جاﺅ گے‘ سادھوﺅں میں بیٹھو گے تو اندر کا سادھو
جاگ جائے گا‘ اللہ راضی رہے گا تو جگ راضی رہے گا‘ وہ ناراض ہو گا تو
نعمتوں سے خوشبو اڑ جائے گی‘ تم جب عزیزوں‘ رشتے داروں‘ اولاد اور دوستوں
سے چڑنے لگو تو جان لو اللہ تم سے ناراض ہے اور تم جب اپنے دل میں دشمنوں
کےلئے رحم محسوس کرنے لگو تو سمجھ لو تمہارا خالق تم سے راضی ہے اور ہجرت
کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا“ بابے نے ایک لمبی سانس لی‘ اس نے میری
چھتری کھولی‘ میرے سر پر رکھی اور فرمایا” جاﺅ تم پر رحمتوں کی یہ چھتری
آخری سانس تک رہے گی‘‘ بس ایک چیز کا دھیان رکھنا کسی کو خود نہ چھوڑنا‘
دوسرے کو فیصلے کا موقع دینا‘ یہ اللہ کی سنت ہے‘ اللہ کبھی اپنی مخلوق کو
تنہا نہیں چھوڑتا‘ مخلوق اللہ کو چھوڑتی ہے اور دھیان رکھنا جو جا رہا ہو
اسے جانے دینا مگرجو واپس آ رہا ہو‘ اس پر کبھی اپنا دروازہ بند نہ کرنا‘
یہ بھی اللہ کی عادت ہے‘ اللہ واپس آنے والوں کےلئے ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا
رکھتا ہے‘ تم یہ کرتے رہنا‘ تمہارے دروازے پر میلا لگا رہے گا“ میں واپس آ
گیا اور پھر کبھی کامران کی بارہ دری نہ گیا کیونکہ مجھے انسان سے بندہ
بننے کا نسخہ مل گیا تھا۔ |