آزادی ء فکر

جدیدیت کا تصور درست یا غلط
آزادی فکر سننے میں تو یہ لفظ بہت بھلا لگتا ہے.لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اسکا مطلب اصل میں کیا ہے.بیسویں صدی میں اشتراکیت کا بلند و بانگ نعرہ لگا کر انسانیت کی وہ درگت بنائ گئ ہے جس نے معاشرے کا سکون درہم برہم کردیا.جو لوگ مادی نفع اور نفسانی لذتوں کو ہی سب کچھ سمجھتے ہین کبھی انکی زندگی میں جھانک کر دیکھیئے. آخر کیوں راحت اور وسائل کے تمام اسباب ملکر بھی انھیں سکون قلب سے محروم رکھتے ہیں.آخر کیوں یہ اضطراب اور کسک کی کیفیت انھیں تیزی سے اسلام سے متعارف کرارہی ہے.اسلیئے کہ انکی اکثریت اپنے نظام سے خائف ہوچکی ہے وہ اسکے بدترین نتائج سے آگاہ ہوچکے ہیں.اور جب بھی کوئ شخص نفس اور مادہ کے گرداب سے نکلنے کے بعد خالق حقیقی سے رشتہ استوار کرتا ہے تب اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اسکی زندگی مین وہ کمی کونسی تھی جس نے اس کے لیئے آرام و راحت کے تمام وسائل کو بے کیف اور بے اثر بنا دیا تھا.ترقی پسند مغربی ممالک ہمارے سامنے ایک پیکر عبرت کے طور پر موجود ہیں.جنھوں نے آزادیء فکر کے نام پر انسان کو کفر و الحاد کی گود میں ڈال دیا ہے.آزادیء فکر سے مراد انکے نزدیک یہی ہے کہ انسان اپنے معبود حقیقی سے منہ موڑ لے.پر انکے اندر اس فکر کو پروان چڑھانے کے اصل ذمے دار انکے مذہبی کلیسا تھے.جنھوں نے عیسائیت کا ایک گمراہ کن تصور اپنے معاشرے کے سامنے پیش کیا انھون نے جھوٹ توہمات خرافات کو مذہب کا حصہ بنالیااور واضح سائنسی حقائق کو جھٹلایا.اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ آزاد خیال یورپی مفکرین نے خدا پر فطری ایمان کی راہ ترک کرکے صرف سائنس اور اسکے فرمودات کو ہی اصل قرار دے دیااور انکا معاشرہ تیزی سے اخلاقی و جنسی گراوٹ کا شکار ہوتا چلا گیا.آزادیء فکر کے ان داعیوں کو آزادیء فکر سے کوئ مطلب نہیں بلکہ انکا مقصد صرف اسکی آڑ لے کر پوری دنیا کو اخلاقی انتشار اور جنسی انارکی کا روگ لگانا ہے.وہ اس نعرہ کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیئے استعمال کررہے ہین.یہ لوگ اسلام کے اسلیئے خلاف نہین کہ وہ انکے اس نام نہاد آزادی کی حمایت نہیں کرتا بلکہ انکی اصل دشمنی کی وجہ یہی ہے کہ اسلام بنی نوع انسان کو انکی ذہنی و فکری غلامی سے نجات دلا سکتا ہے.اسلام مین نہ تو اسطرح کا کوئ نظام ہے نہ ہونے کی گنجائش ہے وہ ایک مکمل ضابطہء حیات ایک خدا کے تصور کے ساتھ پیش کرتا ہے.

اسلام مذہبی اجارہ داری کی اجازت نہین دیتا اسکی نظر میں سب برابر ہیں.بے شک کسی معاشر ے میں معاشرتی قوانین اور اصولوں کے ماہرین کی موجودگی اشد ضروری ہے پر انکی حیثیت ایک مشیر کی طرح ہوتی ہے انکا کام ہوتا ہے کہ وہ افراد کے دینی فہم اور نظریات کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھے اور ان میں جو خامی پائے اسے مذہبی اور عقلی دلائل کی روشنی میں واضح کرے.اسکی درست رہنمائ کرے دوسری طرف عام افراد کو بھی پورا حق حاصل ہے کہ وہ صحیح جگہ نقطہء اعتراض اٹھا سکتے ہیں.اسلام پر کسی خاص طبقے یا فرد کی اجارہ داری نہین ہان ان لوگوں جو اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے جو دین کا گہرا علم رکھتے ہوں پر انھین بھی اجازت نہین کہ وہ اس میں اپنی ذاتی آراء یا پسندناپسند شامل کریں.اسلامی نظام کا مطلب یہ ہرگز نہین کہ علمائے کرام کو اقتدار حاصل ہو اسلامی نظام کا مقصد شریعت اسلامی کا نفاذ ہے وہ ڈاکٹر انجینیئر ماہرین معاشیات کو روزمرہ کے امور انجام دینے سے نہین روکتا بلکہ انکے معاشی سرگرمیوں کے بنیادی خطوط اسلامی نظام معیشت کی روشنی میں مرتب کرتا ہے.تاریخ شاہد ہے کہاسلامی عقائد کبھی سائنسی نطریات سے متصادم نہیں رہے-

اسلام کے بنیادی عقیدے خدائے واحد کے تصور کو سائنس کبھی نہین جھٹلا سکتی.اسلام بار بار آسمان و زمین سے لے کر پوری کائنات تک کے مطالعے اور مشاہدے کی دعوت دیتا ہے تاکہ انسان اس پر غوروفکر کرے.خود کو پہچانے اپنے خالق کی بندگی کا کھلے دل سے اعتراف کرے.آج تک کی جانے والی جتنی بھی سائنسی ریسرچ ہوئیں وہ اس بات کو ثابت کرتیں ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت سے مغربی سائننسدان بھی اسلام اور قرآن کے متعرف ہوگئے.

آزادی ءفکر کے مبلغین اپنے سابق نو آبادیاتی آقاؤں کی اندھی تقلید کرتے ہیں.وہ دین پر غیر صحت مندانہ تنقید کو جائز قرار دیتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ مسلم امہ بھی انکی اندھی تقلید کرے.اور مرتد ہوجائے جبکہ اسلام میں نہ تو چرچ و کلیسا جیساـ استبداد ہے نا کسی قسم کی توہمات اور خرافات کی گنجائش ہے وہ تو خود ہر انسان کو اسکے بنیاد ی حقو ق اور ضروری آزادی دینے کی بات کرتا ہے اگر بات انکے مزہبی معاشرے کی ہو تو ایک لحاظ سے وہ حق بجانب ہیں مگر ہمارے یہان اس کا کیا مطلب نکلتا ہے مغرب کی اندھی تقلید اور ضروری مذہبی معلومات کا فقدان ہمارے یہاں جس بگاڑ کی طرف اشارہ کررہا ہے وہ قطعی طور پر اسلامی تعلیمات کا نتیجہ نہیں.آزادیء فکر اور جدیدیت کے حامی اسلامی نظام کو آمرانہ نظام قرار دیتے ہین.جس مین ریاست وسیع اختیارات کی مالک اور عوام محکوم ہوتی ہے لوگ مذہبی جنون میں خود کو جابرانہ اور ظالمانہ قوانین کے حوالے کردیتے ہین.عوام کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہےانھین اپنی سمجھ کے مطابق رائے دینے یا فیصلہ کرنے کا اختیار نہین ہوتا انکی آزادی ہمیشہ کے لیئے چھین لی جاتی ہے نہ تو آواز اٹھا سکتے ہین اور نہ ہی اسکا حوصلہ لا پاتے ہیں سخت سے سخت ترین سزاؤں کا تصور بھی اس الزام کا حصہ ہے کیا سچ میں درحقیقت ایسا ہی ہے اگر ایسا ہے تو عالمی سطح پر اسلام کو سب سے پسندیدہ مذہب اور رسول عربی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بہترین شخصیت کیوں قرار دیا گیا.کیا قرآن ان تمام بے سروپا الزامات کا جواب نہیں دیتا کیا تاریخ اسلامی دور حکومت کو تاریک دکھاتی ہے. کیا ان سب الزامات مین سچائ ہے کیا آزادیء فکر کے حامی ممالک میں خود مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازانہ اور ظالمانہ سلوک روا نہیں رکھاگیا. کیا ظلم وستم صرف مذہب کے نام پر ہی روارکھا جاتا ہے. اگر ایسا ہے تو شاید ہٹلر کی آمریت کی بنیاد بھی مذہبی ہی ہوگی؟کیا اسٹالن کی حکومت کسی پولیس اسٹیٹ سے کم تھی کیا ظالم اور جابر ڈکٹیٹراسٹالن کی حکومت مذہبی بل بوتے پر قائم کی گئی؟

.چین کا جنرل چیانک کائ شیک جنوبی افریقہ کا ڈاکٹر علان، ماوزرے تنگ، فرانکو، چنگیز خان کیا یہ سب مذہبی آمر تھے؟آج کا انسان قدیم مذہبی اجارہ داری اور استبداد سے تو آزاد ہوچکا ہے پر ذہنی طور وہ اب بھی آمریت اور جبر کی مختلف صورتوں کا غلام ہے اس نے اپنے آزادی کے اس نئے قانون کو وہی جگہ دے دی جو کبھی مذہبی اجارہ داری کو حاصل تھی آزادی اور حقو ق کا پرچار کرنے والے کھلے عام اسکی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہین.اپنے اپنے حقوق کی بات سب کرتے ہین پر دوسرے کے حقوق غصب کرنے کے لیئے تیار نظر آتے ہیں.خوبصورت لیبل کی آڑ میں انسانیت کو جسطرح پامال کیا جارہا ہے اسے آپ اور ہم آزادی ء فکر کا نام کیسے دے سکتے ہیں؟ کیا آزادی یہی ہے کہ ہر ناجائز عمل کی چھوٹ دے دی جائے؟ ہر غریب اور کمزور کا معاشی مزہبی سماجی ثقافتی بنیادوں پر استحصال کیا جائے؟ جہاں چند ممالک بااثر ہوں اور باقی پسماندہ ممالک کو تیسری دنیا قرار دے کر انکی ملکی و شخصی آزادی پر ضرب لگائ جائے؟ جب اپنا مفاد ہو وہاں اپنی فوجیں لے کر چڑھائ کردی جائے؟ اگر آپ ایک ہوشمند انسان ہین تو کبھی جمہوریت کے پردے میں لپٹی ہوئ اس آمریت کی حمایت نہیں کریں گے اگر پاکیزہ اصولوں اور دینی حقائق کو مسخ کرکے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے تو قصور مذہب کا نہیں ان گمراہ انسانوں کا ہے جو انھیں اپنے مذموم مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں.اسلام تو خود حاکم اور محکوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا ہے.حقیقی آزادی ترک دین نہین بلکہ ایک ایسے انقلابی جذبے کی بیداری ہے جو ظلم و جبر کے خلاف معاشرے اور ریاست کی اصلاح کا فریضہ سر انجام دے.یہی ہماری امت مسلمہ کا وصف ہے اور یہی ہماری آزادیء فکر سو چیئے اور خود سوچنے کی عادت ڈالیئے. پھر ذہنوں پر چھایا اندھیرا خود بخود ہٹتا چلا جائے گا.اور پھر افق پر آزادی کا ایک نیا سورج طلوع ہوگا جسکی سنہری روشنی میں ہر چیز صاف ستھری نظر آئے گی.اور ہاں وٹامن ڈی بھی ملے گا بہت کام کی چیز ہے یہ..اندروںی اسٹرکچر بھی مضبوط کرتی ہے-
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 95154 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More