’میرا خون قاتلوں کی حمایت میں جائے گا‘

یوپی اسمبلی الیکشن قریب ہے اس معاملے کو بھنانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اس کا فائدہ راست اُٹھایا جاسکے ۔ اور ایسا ہی لگ رہا ہے کہ یوپی الیکشن کی بساط بچھائی جاچکی ہے تاکہ اخلاق کے خون کے چھینٹوں سے اپنی اپنی روٹیاں سینکیں جاسکے۔ سماج وادی پارٹی اگر حمایت میں ہے تو وہ مسلم ووٹ کے لالچ میں اور اگر بی جے پی دیگر مخالفت میں ہے تو ہندو ووٹوں کو یکجا کرنا مقصد ہے۔ کیو ںکہ اگر فرقہ پرست پارٹی یوپی جیت گئے تو ان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ برادران وطن سے تعلق استوار نہ ہو وہ برابر آپس میں الجھے رہیں اور ہم اپنے کاموں میں مصروف رہ کر ان کو تہہ و تیغ، ان کی لاشوں پر سیاست کرتے ہوئے اپنی کرسیوں کو مضبوط کریں تاکہ ایک دن مکمل طور سے ہر جگہ اخلاق جیسوں کی لاشوں کے جنازے اُٹھے پھر اس پر کوئی واویلا کرنے والا نہ بچے اور نہ ہی عدم رواداری کا راگ الاپنے والا۔ ان فرقہ پرستوں کا مقصد ہی ہے کہ وہ پورے ہندوستان میں بھگوا جھنڈا لہرا سکیں۔ ہر اس آواز کو دہشت گردی کا سرٹیفٹ دے دیں جمہوریت کی حامی عدل وانصاف کی متلاشی ہو۔ لیکن ہمیں یوپی کے ان غیور مسلمانوں سے یہ اُمید کرنی چاہئے کہ وہ کانگریس کا ہاتھ مروڑ کر، بی جے پی کے کمل کو مرجھا کر ایس پی کی سائیکل کو پنکچر کرکے بی ایس پی کے ہاتھی کو بدکا کر اپنی سیاسی طاقت کو مستحکم کرتے ہوئے اور دہلی وبہار اسمبلی الیکشن کے مثبت نتائج کو مدنظر رکھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں تاکہ ان بھگوائیوں پر بھی پابندی لگے جو آئے دن ہتھیار پریکٹس کرکے مسلمانوں کو ہراساں کرنا چاہتے ہیں اور ان ظالموں پر بھی شکنجے کسے جائیں جو مظفر نگر کے فسادات میں ملوث ہیں۔
گزشتہ سال۲۸؍ستمبر کو ہندو جنونیوںکی ایک بھیڑ نے دادری کے محمد اخلاق کو محض اس لئے قتل کردیا تھا کہ اس نے ان کی مقدس ماں (گائے) کا خون کرکے اس کاگوشت کھایاتھا ۔ اس قتل پر بہت واویلا ہوا۔سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی روٹیاں سینکیں۔ کچھ ہمدردوں نے واقعتاً انصاف کی جدوجہد بھی کی۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہ ناحق خون سرخیوں میں رہا۔ امریکہ لندن برطانیہ سمیت دیگر یوروپی ممالک میں بھی ہندوستان کی شبیہ اس سانحہ سے داغدار ہوئی۔ ملک کے دانشورطبقوں نے احتجاجاً اپنے ایوارڈ واپس کرنے شروع کردیئے جس سے بہت حد تک ان ہندو جنونیوں کے کرتوت وقتی طورپر رک گئے ۔ لیکن جنہیں خون کا چسکہ لگ جائے ان کی فطرت موقع پاتے ہی اُبل پڑتی ہے ۔ دادری سانحہ کے بعد بھی کئی ایسے سانحے ہوئے جس سے اقلیت مزید ہراساں اور ڈروخوف کے سایے میں جینے پرمجبور ہوگئی۔ اس قتل کی جو اول مرحلے کی جانوروں کے ڈاکٹروں نے رپورٹ پیش کی تھی اس سے یہ ثابت ہوا تھا کہ محمداخلاق کے گھر پائے جانے والا ’بیف‘ نہیں تھابلکہ وہ مٹن (چھوٹے ) کا تھا۔ اب جب کہ اس سانحہ کو تقریباً ایک سال کا عرصہ ہونے کو ہے ایسے میں متھرا کے فارینسک لیب سے یہ یہ رپورٹ آنا کہ اخلاق کے گھرسے جو گوشت دریافت ہوا تھا وہ گائے کا ہی تھا۔ یہ قتل ناحق کو برحق کرنے کے مترادف ہے ۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک ہی گھر سے پائے جانے والے گوشت کی دو الگ الگ رپوٹیں کیسے ہوگئیں؟ ۔سرکاری ڈاکٹر کی رپورٹ مٹن کی طرف مشیر ہے تو متھرا فارینسک لیب بیف پرمصر۔ اس سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اخلاق کے قتل ناحق کو برحق اور جائز قرار دیا جاگائے؟۔ ان کے قاتلوں کو رہاکردیا جائے تاکہ وہ کسی اورگھرمیں گھس کر دیگر اخلاق کی تلاش میں سرگرداں ہوں۔ اس معاملے میں یوپی کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو اخلاق کے کنبہ کی حمایت میں پورے طور پر اُتر ے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اخلاق کے خاندان والوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں سیاست نہیں کی جانی چاہئے کیونکہ اس میں قتل ہوا تھا۔ مسٹر یادو نے مزید کہا کہ دادری سانحہ کی جانچ چل رہی ہے۔پورے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جا رہی ہے۔اس معاملے کے تحت میڈیا میں پولیس ڈائریکٹر جنرل کا بیان بھی آ چکا ہے کہ سیمپل کہاں سے لیا گیا۔ اخلاق کے گھر ایسی کوئی چیز نہیں ملی تھی جس پر کوئی اعتراض کرے۔وہیں نوئیڈا کے ایس ایس پی دھرمیندر یادو کا کہنا ہے کہ جس بیف کی بات کی جا رہی ہے وہ اخلاق کے گھر کے پاس سے نہیں ملاتھا؟۔توپھراس گوشت کو اخلاق کے گھر سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟۔ اوراگربالفرض وہ گائے کاہی تھاتوکیاکسی کے گھرمیں گھس کرغنڈہ گردی کی اجازت ہماراقانون اورسسٹم دیتاہے ؟۔گزشتہ روز متھرا کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر اس قتل کے اہم ملزم وشال رانا کے والد نے محمد اخلاق کے کنبہ کے خلاف پولس میں گئو کشی کی رپورٹ درج کروائی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کیس درج کرلیا گیا ہے اور الزمات کی جانچ کی جائے گی۔ اگر اخلاق کا کنبہ قصوروارپایا جاتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ وہیں اپنی زبان سے ہمیشہ اقلیتوں کے خلاف مغلظات اُگلنے والا آدتیہ ناتھ بھی میدان میں کود پڑا ہے اس کا کہنا ہے کہ ’’یوپی حکومت نے جو معاضہ دیا تھا اسے واپس لیا جائے کیوں کہ اخلاق قصور وار تھا اس نے گئو ماتا کی توہین کی ہے جس کی سزا اسے مل چکی ہے پھر اخلاق کے گھر والوں کو معاوضہ کیوں دیا جائے۔ بے چارے اخلاق نے کبھی وہم وگمان میں تصور نہیں کیا ہوگا کہ میرے ساتھ ایسا ہوگا مجھے مرنے کے بعد بھی چین سے رہنے نہیں دیا جائے گا … میرا خون ناحق قاتلوں کی حمایت میں جائے گا … وہ اخلاق جس نے اپنے ایک بچے کو دیش کی حفاظت پر مامور کیا اسے ہی ’بھارت ماتا ‘ کی بلی کے طور پر چڑھا دیا جائے گا۔ خیر اب اس معاملے میں آوازیں بہت اُٹھ رہی ہیں ۔ سیکولر پسند عوام اخلاق کے قتل کے مخالف تھے ہیں اور رہیں گے انہوں نے فارینسک رپورٹ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن جنہیں جمہوریت کی چادر کو تار تار کرنا ہے وہ اس بات پر مصر ہیں کہ اخلاق نے جرم کیا ہے اسے اس کی سزا ملی لہذا اسے قتل کرنے والے بھارت ماتا کے سپوتوں کو رہا کیا جائے تاکہ وہ اور دیگر اخلاق کو ڈھونڈیں اور شاید وہ جلد ہی چھوٹ کر اس امر پر مامور بھی ہوجائیں گے کیوں کہ حکومتی تفتیشی ایجنسیاں اپنے طریقے بدل رہی ہیں سادھوی جیسی دہشت گرد رہا ہورہی ہیں تو یہی اُمید کی جاسکتی ہے کہ ہر جگہ سے اخلاق جیسوں کی خون سے ہولی کھیلی جائے۔

یوپی اسمبلی الیکشن قریب ہے اس معاملے کو بھنانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اس کا فائدہ راست اُٹھایا جاسکے ۔ اور ایسا ہی لگ رہا ہے کہ یوپی الیکشن کی بساط بچھائی جاچکی ہے تاکہ اخلاق کے خون کے چھینٹوں سے اپنی اپنی روٹیاں سینکیں جاسکے۔ سماج وادی پارٹی اگر حمایت میں ہے تو وہ مسلم ووٹ کے لالچ میں اور اگر بی جے پی دیگر مخالفت میں ہے تو ہندو ووٹوں کو یکجا کرنا مقصد ہے۔ کیو ںکہ اگر فرقہ پرست پارٹی یوپی جیت گئے تو ان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ برادران وطن سے تعلق استوار نہ ہو وہ برابر آپس میں الجھے رہیں اور ہم اپنے کاموں میں مصروف رہ کر ان کو تہہ و تیغ، ان کی لاشوں پر سیاست کرتے ہوئے اپنی کرسیوں کو مضبوط کریں تاکہ ایک دن مکمل طور سے ہر جگہ اخلاق جیسوں کی لاشوں کے جنازے اُٹھے پھر اس پر کوئی واویلا کرنے والا نہ بچے اور نہ ہی عدم رواداری کا راگ الاپنے والا۔ ان فرقہ پرستوں کا مقصد ہی ہے کہ وہ پورے ہندوستان میں بھگوا جھنڈا لہرا سکیں۔ ہر اس آواز کو دہشت گردی کا سرٹیفٹ دے دیں جمہوریت کی حامی عدل وانصاف کی متلاشی ہو۔ لیکن ہمیں یوپی کے ان غیور مسلمانوں سے یہ اُمید کرنی چاہئے کہ وہ کانگریس کا ہاتھ مروڑ کر، بی جے پی کے کمل کو مرجھا کر ایس پی کی سائیکل کو پنکچر کرکے بی ایس پی کے ہاتھی کو بدکا کر اپنی سیاسی طاقت کو مستحکم کرتے ہوئے اور دہلی وبہار اسمبلی الیکشن کے مثبت نتائج کو مدنظر رکھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں تاکہ ان بھگوائیوں پر بھی پابندی لگے جو آئے دن ہتھیار پریکٹس کرکے مسلمانوں کو ہراساں کرنا چاہتے ہیں اور ان ظالموں پر بھی شکنجے کسے جائیں جو مظفر نگر کے فسادات میں ملوث ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اخلاق کے قاتلوں کو پھانسی پر چڑھائیں جو اس قتل ناحق کے مجرم ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک فوج کابھگوڑاپورے ہندوستان میں اَن شَن کرکے پوری ہندو کمیونٹی کو متحد کرسکتا ہے کانگریس مخالف لہر پیدا کرکے بھگوا طاقتوں کو براجمان کرسکتا ہے۔ ایک پٹیل برادری کانوجوان اُٹھ کر اپنی قوم کو للکار سکتا ہے ، جاٹ اپنے حقوق کے لئے تشددکرسکتے ہیں توکیا مسلمان آپس میں مل کراپنے حقوق کی لڑائی نہیں لڑسکتے ؟۔ اگر اس وقت متحدنہیں ہوئے۔آپسی انتشار آپ کا معمول رہا تو یوپی بھی بھگواغنڈوں کے ہاتھوں میںچلا جائے گا اور اگر یوپی چلا گیا تو پھر خیر نہیں۔ کہاں کہاں مظفر نگر ہوں گے اس کی پیشین گوئی یکے بعد دیگر آدتیہ ناتھ ساکشی مہاراج کرتے نظر آئیں گے ۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77627 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.