پیر کی گدی خطرے میں
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا
کنپٹیاں غصے کی آنچ سے دہکنا شروع ہو گئیں تھیں جسم آتش فشاں کی طرح پھٹنے
کو تیار تھا ایک جاہل مداری نما گدی نشین صبح سے اب تک اپنا رعب جما نے اور
مجھے زیر کر نے کے لیے بے شمار حما قتیں اور کر تب دکھا چکا تھا اب بھی وہ
ہمیں اپنے کمرہ خاص میں مداریوں کی طرح اپنے اسلاف کی زیر استعمال اشیا ء
اور صدیوں پرا نے قیمتی نوادرات دکھا کر متاثر کر نے کی ناکام کو شش کر رہا
تھا ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس کے آباؤاجداد بہت نیک لو گ ہو نگے اور
ان کی زیر استعمال اشیا بھی قابل احترام لیکن یہ خو د کیا تھا جو ہر گزرتے
لمحے کے ساتھ نئی سے نئی حما قت کر تا جا رہا تھا ۔ یقینا اپنی اِس چال سے
وہ بے شمار لوگوں کواپنے دام میں پھانس بھی چکا ہو گا ۔ وہ ہر نئی چیز دکھا
نے کے بعد مغرور فاتحانہ نظروں سے ہما ری طرف دیکھتا اُس کی نظروں اور چہرے
پر پھیلے تا ثرات بتا رہے تھے کہ وہ ہم پر بہت بڑا احسان کر رہا تھا اہل حق
اپنی تعلیمات، اعلی حقیقی کردار اور روحانی تصرف سے لوگوں کو متاثر کر تے
ہیں جبکہ یہ بیوقوف ما دی چیزوں سے ہمیں قائل اور متاثر کر نے کی بھونڈی
کوششوں میں لگا ہوا تھا صدیوں پرا نی اشیا ء عطر پھول اور اگر بتیوں کی ملی
جلی خوشبو نے ایک خاص سحر قائم کر رکھا تھا ۔ قیمتی پتھروں کی انگوٹھیاں
،سچے موتیوں کی ما لائیں پرانی زری کی قیمتی شکستہ بوسیدگی کا شکار ٹوپیاں
فقیرانہ لباس پرانے برتن جھولے چارپائیاں پرانے سکے پرانی کتابیں اور قرآن
مجید کے پرانے نسخے لکڑی اور دھات کے چھوٹے بڑے صندوق مر جھائے ہو ئے پھول
اور پتیاں چاروں طرف بکھری ہو ئی تھیں لکڑی اور چمڑے کے پرانے جو تے مٹی کے
چھوٹے بڑے برتن ۔ درج بالا تمام چیزوں سے منسوب بے شمار کرا متیں وہ بیان
کر تا جا رہا تھا اب ہمیں وہ اُس حصے میں لے آیا جہاں پر بہت سارے کپڑے اور
چمڑے کی جا ئے نماز پڑے ہو ئے تھے ۔ اب اُس نے ایک ایک جا ئے نماز کی قصیدہ
نگاری شروع کر دی کہ یہ جا ئے نماز کس کا ہے اور اِس کی مشہور کرا مت کو
نسی ہے اِس پر ایک ہی سجدہ عبادت کی چند گھڑیاں کسی بھی انسان کی کثافت کو
لطافت میں بدل دیتی ہے روحانیت کے سالوں پر انے الجھے ہو ئے اسرار لمحوں
میں سلجھ جا تے ہیں بصیرت کی گُتھیاں آسان ہو جا تی ہیں وہ بو لے جا رہا
تھا اور ہم بیچارے سنتے جا رہے تھے اب وہ برتنوں والے حصے میں آکر برتنوں
اورلو ٹوں کی کرا مات بیان کر نا شروع ہو گیا کہ اِس لو ٹے سے ایک ہی وضو
زمین آسمان کے دور دراز گوشوں کو ہتھیلی کی طرح سامنے لے آتا ہے جس کا کشف
وجدان اور الہام نہ کھلتا ہو وہ صرف ایک وضو اِس لو ٹے سے کر لے با طن کے
سارے بند پٹ کھل جا ئیں گے ۔ لوٹوں کے بعد اب وہ برتنوں کی مدح سرائی میں
مصروف ہو گیا کہ یہ مٹی کا پیا لہ اگر بھر کر سامنے رکھا جا ئے تو ایک ہی
گھونٹ سے انسان زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جا تا ہے ساری دنیااور دنیا
کے چھپے ہو ئے راز کھلی کتاب کی طرح سامنے آجاتے ہیں ۔ اب وہ پرانی کر سی
نما کسی چیز کے سامنے کھڑا ہو گیا اور شروع ہو گیا کہ ہما رے بزرگ ایک جگہ
سے دوسری جگہ جا نے کے لیے ایسی کر سیوں کا استعمال کر تے تھے وہ سیر الارض
کے مالک تھے زمین کی لگامیں کھینچ لیتے تھے ہما رے بزرگوں کے اشاروں پر
دیوار یں بھی دوڑ لگا دیتی تھیں وہ کسی بھی دیوار پر بیٹھ کر گھوڑے کی طرح
اُس دیوار کو حکم دیتے تووہ دیوار مطلوبہ جگہ اُن کو پہنچا دیتی اب پیر
صاحب نے بہت سارے واقعات کرا متوں کی صورت میں بتا نے شروع کر دئیے کہ کس
طرح اُ ن کے بزرگ اپنے مرشدوں اور مریدوں سے ملنے جا تے تھے ۔ اب انہوں نے
چارپائیوں کے قصیدے پڑھنے شروع کر دئیے کہ کو ئی گنا ہ گار اِن چارپائیوں
پرسونہیں سکتا اُس کی موت بھی واقعہ ہو سکتی ہے ۔ اب انہوں نے مختلف ٹوپیوں
کی قصیدہ نگا ری شروع کر دی ایک ٹو پی کے بار ے میں وہ فرمانے لگے کہ دنیا
کی لا علاج سے لا علا ج بیماری کا علاج اِس ٹو پی کو پہن لینے میں ہے آپ کا
جسم تمام روحانی جسمانی بیما ریوں سے پاک ہو جا تا ہے اب انہوں نے
انگوٹھیوں کی کرا مات بتا ناشروع کردیں کہ اِن میں سے چند انگوٹھیاں ایسے
با کمال پتھروں پر مشتمل ہیں کہ وہ جام جہاں نما کا درجہ رکھتی ہیں جس کسی
کے پاس یہ انگوٹھی ہو تی ہے وہ اُس انگوٹھی میں ساری دنیا ،اپنے مرید اور
مطلوبہ نظارے دیکھ سکتا ہے کو ئی مرید بھی پیر صاحب کی آنکھ سے محفوظ نہیں
اب پیر صاحب نے توجہ طلب نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا میں ایک ایسی چیز
آپ کو دکھا نے لگا ہوں جو دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے اُس نے ایک پرانی
ریشمی کپڑے کی تھیلی ایک صندوق سے نکالی اس میں پانچ سکے بھی نکا لے اور
کہا یہ ہمارے بزرگوں کے خاص سکے ہیں اِن کی خو بی یہ ہے کہ ایک سکہ ہما رے
پاس رہتا تھا با قی ہم خرچ کر دیتے تھے چاروں خرچے ہو ئے سکے تھو ڑی ہی دیر
میں واپس آجا تے تھے میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ آپ کسی سے کو ئی چیز
خریدیں اور پیسے نہ دیں یہ تو چوری ہو گی یہ تو بد دیانتی ہو گی یہ تو غلط
عمل ہوا میری اس جسا رت اور گستاخی پر پیر صاحب نے قہر آلودہ نظروں سے میری
طرف دیکھا اور کہا اﷲ والوں کے ہر عمل میں کو ئی راز ہو تا ہے جس کو عام
لوگ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ میرے صبر کا پیمانہ چھلکنے کے قریب تھا اِس لیے
میں تنگ آچکا تھا مجھے اُس سے الجھن ہو رہی تھی میں اِس جا ہل پیر سے جان
چھڑاناچاہتا تھا میں نے اِس سے دو سوال کر نے کا فیصلہ کر لیا تھا اِس کی
اوقات یا د دلانے کا وقت آگیا تھا میں سارادن اِس کے ساتھ گزار کر اِس کی
حقیقت اور مسائل سے با خبر ہو چکا تھا کہ اِس نے مجھے یہاں کیوں بلا یا ہو
ا ہے میں نے اُسے تنگ کر نے کے لیے کہا کہ اگر کو ئی پیرشراب پی لے تو اُس
کا یہ عمل بھی جا ئز ہو گا تو وہ بولا وہ شراب پی کر کسی دریا میں تھوک دے
تو وہ دریا بھی اُس کی تھوک سے پاک ہو جا ئے گایہ سن کر میرے تن بدن میں آگ
بھڑک اٹھی میں اُس کے قریب ہو گیا اور سرگوشی میں کہا تم یہ بکواس کر رہے
ہو جو چیز اﷲ اور سرور کا ئنات ﷺ نے منع اور حرام قرار دی تم تو کیا کوئی
بھی پیر اُس کو جا ئز قرار نہیں دے سکتا میری گستاخی پیر صاحب سے برداشت نہ
ہو ئی غصیلی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا جناب آپ کچھ نہیں جانتے تو
میں نے پھر آہستہ سے اُس کے کان میں کہا تا کہ کو ئی سن نہ لے پیر صاحب
تمہا ری گدی خطرے میں ہے تمہا ری اولاد نہیں ہے اورنہ تم میڈیکلی اولاد
پیدا کر نے کی صلاحیت رکھتے ہو روحانیت اور اعمال کی تم الف ب بھی نہیں
جانتے جس لڑکی سے تم شادی کر نا چاہتے ہو وہ کبھی نہیں کر ے گی میری با تیں
سن کر اُس کا چہرہ زرد پڑ گیا اُس نے تمام لوگوں کو کمرے سے باہر نکالا
لوگوں کے باہر جا تے ہی میں نے کہا تمہا ری یہ ساری چیزیں تمہا ری مدد کیوں
نہیں کر سکتیں اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس ساری کائنات کا مالک صرف ربِ کائنات
ہے پو ری کا ئنات اُس کے قبضے میں ہے اِن چیزوں میں نہیں ۔اگر اِن چیزوں
میں اتنی ہی کرامات ہیں تو مانگو اِن سے پیر صاحب کا سارا غرور ختم ہو چکا
تھا اب وہ منت سماجت پر اُتر آیا کہ اگر اولاد نہ ہو ئی اور میں نے دوسری
شادی نہ کی تو ہما ری گدی شدید خطرے میں پڑ جا ئے گی جب اولاد پیدا کر نے
کی صلاحیت تم میں نہیں تو کیوں کسی لڑکی کی زندگی برباد کر نا چاہتے ہو تو
وہ بولا اُس کی بہت بڑی جا گیر ہما رے خاندان میں آجا ئے گی ۔ اگر تم اﷲ
تعالی کے سامنے خلوص ِ نیت سے جھک جا ؤ تو وہ ہی تمہیں اِس مشکل سے نکال
سکتا ہے پیر صاحب مجھے بہت تر غیبات دیتے رہے لیکن میرا دم گھٹ رہا تھا میں
نے جان چھڑائی اور گاڑی میں آکر بیٹھ گیا لاہور واپس آتے ہو ئے میں سوچ رہا
تھا پتہ نہیں کب تک ان عظیم لوگوں کی گدیوں پر اِن جعلی بے عمل پیروں کا
قبضہ رہے گا ۔ |
|