وزیر خزانہ پاکستان جناب اسحاق ڈار صاحب نے
نواز جمہوریت کا چوتھا بجٹ پیش کر دیا ہے اس میں جو مال و مطا عوام پر
لٹایا گیا ہے یقیناً عوام ابھی بھی اس کے سرور سے باہر نہیں آئے ہوں گے اس
پر ہم بعد میں آتے ہیں۔
ڈار صاحب نے تقریر کرتے ہو ئے قائد اعظم کے چند کلمات دہرائے جو انھوں نے
پاکستان کے پہلے بجٹ کے موقع پر فرمائے تھے کہ۔ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں
ہے کہ ایک تابناک مستقبل پاکستان کا منتظر ہے جب وہ اپنے بے پناہ انسانی
اور قدرتی وسائل کو پوری طرح سے استعمال کرنے کے قابل ہو جائے اور جس راستے
پر ہم سفر کر رہے ہیں وہ یقیناً اس وقت دشوار گزار ہےلیکن بہادری اور ثابت
قدمی سے ہمیں اپنا مقصد حاصل کرنا ہے یہی مظبوط اور خوشحال پاکستان کی
تعمیر ہے۔
پہلے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کی اپنی ، بیٹوں اور خاندان کی سرمایہ
کاری اور گھر بار سب بیرون ملک ہو اک ایسا شخص پاکستان کا بجٹ بنا رہا ہے
اور مثال قائد اعظم کی دے رہا ہے قائد کی روح کو جھٹکا تو لگا ہو گا کہ اس
پاکستان میں کیسے کیسے لوگ حکمراں ہیں جس کو حاصل کرنے کے لئے لاکھوں
مسلمانوں نے قربانیاں دی اور آج یہ لوگ ہیں جو صدقہ خیرات کا مال بھی مال
غنیمت سمجھتے ہیں۔بقول حکومت اس عوام دوست بجٹ کی طرف آتے ہیں جسے تقریباً
تمام ہی سیاسی جماعتوں نے یکسر مسترد کر دیا اور عوام دشمن بجٹ قرار دیا
سوائے کسی ایک مولانا صاحب کے جنھوں نے نواز جمہوریت کو بچانے کا بھاری
بھرقم گناہوں سے پاک بھیڑا اپنے کندھوں پر اٹھانے کی ذمہ داری لی
ہے۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن کا بجٹ ہے جس پر میں
تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ رواہ سال دسمبر میں میاں صاحب جانے کا فیصلہ کر
چکے ہیں جس پر میں ابھی بھی قائم ہوں ۔حکومت کے پاس کوئی کاروبار نہیں ہوتا
جس سے وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام کر سکے یہ مختلف ذرائع سے ٹیکس
اکٹھا کرتی ہے اور اس مد میں جمع ہونے والی رقوم سے کاروبار حکومت چلایا
جاتا ہے ویسے پاکستان میں حکومت کے معنی بھی منافع بخش کاروبار ہے ۔بہرحال
کاروبار حکومت کے جو معنی جمہوریت میں ہیں ہم اسکی طرف آتے ہیں جس پر حکومت
نے براہ راست ٹیکس کا کوئی بہتر نظام واضح نہیں کیا بلکہ ود ہولڈنگ ٹیکس
میں اضافہ کر دیا گیا جو کہ کاروباری لوگ مہنگائی کر کے غریب عوام سے ہی
موصول کرے گی جس کا سارا بوجھ ایک بار پھر امراء اور کاروباری طبقات پر آنے
کی بجائے عوام کے جھکے ہوئے آسودہ کندھوں پر ہی آئے گا۔
اس بجٹ میں ایک ہی بات اچھی نظر آتی ہے جس کی تعریف کرنی چاہیے کیونکہ ہم
بھی بار بار اس کے بارے میں لکھتے اور کہتے رہے ہیں وہ ہے کاشتکاروں پر
مہربانی کیونکہ پاکستانی معیشت میں زراعت کا بڑا اہم کردار ہےزراعت کو ہمیں
ایک صنعت کا درجہ دینا ہو گا اسی کے مد نظر مؤثر اور جامعہ منصوبہ بندی جو
کئی سال پر محیط ہو سکتی ہے لیکن ملک کی تاریخ میں یہ چند سال چند ہفتوں کی
طرح ہوتے ہیں اور ایک دن آئے گا جب پاکستان دنیا میں زراعت کا بادشاہ
کہلائے گا۔اس بجٹ میں کسانوں پر جو شفقت فرمائی گئی ہے اگر وہ زبانی جمع
خرچ نہ ہو تو یہ کافی کارآمد ثابت ہو سکتی ہےلیکن اگر حکومت کا ریکارڈ
دیکھا جائے تو امید کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں مثبت توقع
رکھنی چا ہیے۔ لیکن اگلے ہی لمحے اسی عوام پر بجلی بھی گرائی گئی ہے اگر آپ
عام عادی کی روزہ مرہ کی ضروریات دیکھیں تو آٹا 45 روپے سے بڑھا کر 48 روپے
فی کلو دال 176سے 200 ، چینی 56 سے 62 اسی طرح بتدریج مرغی ، مٹن ، گھی ،
اور چاول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے حسن اتفاق یہ بھی ہے کہ یہ
تمام کاروبار ایک مخصوص حکمراں کاروباری طبقے کے ہی ہیں ۔
پاکستان کے کسی بھی حصے میں دیکھیں تو ہسپتالوں کی خستہ حالت اجڑے ہوئے چمن
جیسی ہے جو چیخیں مار مار مالی کو پکار رہی ہیں جس کے لئے 22 اور 40 کروڑ
کی رقم مختص کی گئی ہے جبکہ سڑکوں کے لئے 188 ارب رکھے گئے ہیں مریضوں کے
لئے بستر نہیں ہیں ایک بیڈ پر دو دو مریض لیٹے ہوئے ہیں ابھی میاں صاحب نے
اسی غریب عوام کے پیسے سے لندن میں مہنگا ترین اعلاج کروایا ہے لیکن وہاں
روزانہ سینکڑوں لوگ مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے موت کی آگوش میں پناہ
لیتے ہیں پھر بھی وزیر اعظم کی صحت یابی کے لئے دعا گوہ ہیں ۔
مزدور کی کم از کم اجرت ایک ہزار اضافے کے ساتھ 14000 ( چودہ ہزار ) ماہانہ
کی گئی ہے جو کہ وزیر خزانہ کے ایک دن کے اخراجات بھی پورے نہیں کر سکتی
مہنگائی کے اس دور میں کم از کم اجرت تیس ہزار ماہانہ ہونی لیکن انھیں تو
یہ چودہ ہزار بھی نہیں ملتے آٹھ سے دس ہزار تنخواہ دی جاتی ہے سمجھ سے
بالاتر ہے کہ حکومت چودہ ہزار میں گھر کے اخراجات کیسے پورے کر سکتی ہے.
تعلیم کے شعبے میں اگرچہ پچھلے سال سے تقریبا گیارہ فیصد بجٹ میں اضافہ کیا
گیا ہے لیکن ابھی بھی بہت کم ہے ہائر ایجوکیشن کے لئے 79.5ا ارب مختص کئے
گئے ہیں۔ پاکستان میں اب بھی پانچ ہزار سے زائد سکول ایسے ہیں جن میں صاف
پینے کا پانی اور چار دیواری کی صہولت میسر نہیں ہے اسی طرح بے نظیر انکم
سپورٹ پروگرام میں 115 ارب جھونک دئے گئے ہیں جو کہ مکمل طور پر سیاسی
فوائد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور بڑی رقم تو کرپشن کی نظر ہو جاتی ہے
۔ |