حدیثِ قدسی ہے ''بنی آدم کے تمام اعمال اس
کے اپنے لیے ہیں سوائے روزے کے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر
ہوں''
رمضان المبارک کی آمد پر اﷲ رب العزت جہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور
جنتوں کے دروازے کھول دیتا ہے ۔ اب بندوں پر ہے کہ ہم اعمال صالحہ کے بیج
بو کر جنت کی کھیتوں کی بہاریں لوٹ لیں۔جس طرح اﷲ رب العزت رمضان کریم میں
اپنے بندوں کے فلاح و بہبوداور بہتری کے لیے خصوصی اقدامات کی آفرز عطا
کرتا ہے تو اسی طرح بندوں کو بھی ان خصوصی سے فائدہ اٹھانے کے لیے اور اﷲ
رب العزت کا قرب حاصل کرنے لیے خصوصی کاوشیں کرنی چاہیے اور ان آفرز سے
فائدہ اٹھا نا چاہیے ۔قیام و قعود کا خصوصی احتمام کرنا چاہیے ، تلاوت قرآن
مجید کے لیے خصوصی وقت نکالنا چاہیے ۔ اورروزنے اس کی عملی روح کے مطابق
گزارنا چاہیے ، اپنے شب و روز کو اخلاق ِ حسنہ سے سجا لینا چاہیے ۔ تناولی
روزے کے ساتھ ساتھ ہاتھ، پاؤں ،کان، آنکھ اور زبان کے روزے کی بھی حفاظت
کرنی چاہیے اور اپنے اردگرد کے ماحول میں فقراء اور مساکین کا خصوصی خیال
رکھنا چاہیے ، سفید پوشوں کا تو اس سے بڑھ کر خیال رکھنا چاہیے کہ سفید پوش
اس مہنگائی کے دور میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ ہے ۔ اﷲ کی رضا
جوئی کے لئے فقراؤ مساکین، یتامی و بیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے
سہارا اَفراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ان کی خبرگیری کرنا۔ بے لباسوں کو
لباس پہنانا، بھوکوں کو غلہ فراہم کرنا، بیماروں کا علاج معالجہ کرنا،
یتیموں اور بیواؤوں کی سرپرستی کرنا، معذوروں کا سہارا بننا، مقروضوں کو
قرض کے بوجھ سے نجات دلا دینا اور اس طرح کے دیگر افراد کے ساتھ تعاون و
ہمدردی کرناپڑوسیوں اور محلے داروں کے لیے سحرو افطار کے خصوصی اہتمام کرنے
چاہییں، رسول اﷲﷺ بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور
آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی… ا س مہینے میں (قرآن
پاک کا دور کرنے کے لئے ) آپ سے جب حضرت جبریل علیہ السلام ملتے ، تو آپ کی
سخاوت اتنی زیادہ اور اس طرح عام ہوتی جیسے تیز ہوا ہوتی ہے ، بلکہ اس سے
بھی زیادہ جب ہم عبادات ، توبہ استفار، درود علی رحمۃ العالمین، اور آخری
طاق راتوں میں قیام اور شبِ لیلۃ القدر کی تلاش میں رمضان کے شب و روز صرف
کریں گے ۔
رمضان کی ایک خصوصی عبادت اعتکاف بھی ہے ۔ نبی اکرمﷺ رمضان المبارک میں
اعتکاف کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے ۔ رمضان کے آخری دس دن، رات دن مسجد
کے ایک گوشے میں گزارتے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرما دیتے ۔
بخاری شریف میں مذکور ہے کہ نبیﷺ اتنی پابندی سے اعتکاف فرماتے تھے کہ ایک
مرتبہ آپﷺ اعتکاف نہ بیٹھ سکے ، تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا
اور جس سال آپ کی وفات ہوئی، اس سال آپ نے رمضان المبارک میں دس دن کی
بجائے ۰۲ دن اعتکاف فرمایا ایسے میں اﷲ پا ک ارشاد ہیں ایسے لوگوں کے لیے
دو خوشیاں ایک تو افطار کے وقت کی خوشی ہے اور دوسری خوشی اپنے رب سے
ملاقات کے وقت کی خوشی ہے ،نبی اکرم ﷺنے روزے کو روزے دار کے لیے دن بھر کے
گناہوں سے بچنے کی ڈھال قرار دیا ہے ، اور رمضان کی راتیں کی برکت کے تو
کیا کہنے سبحان اﷲ ماشاء اﷲ ان راتوں کا قیام نبیﷺ کا بھی مستقل معمول تھا،
صحابہ کرامؓ او رتابعین عظامؒ بھی اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور ہر
دور کے اہل علم و صلاح اور اصحاب ِزہد و تقویٰ کا یہ امتیاز رہا ہے ۔ خصوصا
ً رمضان المبارک میں اس کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے ۔ رات کا یہ تیسرا آخری
پہر اس لئے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس وقت اﷲ تعالیٰ ہرروز آسمانِ دنیا
پر نزول فرماتا ہے اور اہل دنیا سے خطاب کرکے کہتا ہے :
’’کون ہے جو مجھ سے مانگے ، تو میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے
سوال کرے ، تو میں اسکو عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے ، تو میں
اسے بخش دوں؟
رمضان کی تعلیمات میں سے سب اعلی تعلیمات میں سے اخلاق حسنہ ہے نبی اکرم ﷺ
اخلاق ِحسنہ کی ایک مثالی شخصیت ہیں آپ کے اخلاق حسنہ کے غیرمسلم کفار، اور
یہود و نصاری بھی معترف تھے ،اﷲ رب العزت نے آپ ﷺکو صاحبِ خلق عظیم کے خطاب
سے نوازا ہے تو آج کے دور میں صاحبِ خلقِ عظیم کی امت ہونے کی بنا پر ہمیں
تفرقہ اور معاشرتی، مذہبی،لسانی، اور مسلکی تقسیمات کو ختم کرنا چاہیے ،کیونکہ
مسلکی بنیادوں امت مسلمہ کی تقسیم اس کے لیے زہر قاتل ہے جس نے امت کی جڑوں
کی دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیا ہے ، ہم سب کو اپنی زندگی کسی مسلکی تقسیم و
تعلیمات کے زیرِ اثر نہیں بلکہ خالصتا اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات یعنی
قرآن و سنہ کے مطابق گزارنی چاہیے ، اور عمل کی شاخ کو سینچ کرتناور بنانا
چاہیے نہ کہ تفرقہ، تقسیم، مسلک اور سیکٹر کی بنیاد پر عمل پیرا ہو کر دینِ
متین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا چاہیے ۔اسی میں ملک ہمارے ملک وملت کی بقا
پنہاں ہے- |