مولاناراشد وحیدقاسمی کان پوری لکھتے
ہیں:’’روزہ کیلئے عربی میں صوم کالفظ آیاہے‘صوم کے معنی ہیں رکنا۔خاموشی
کوصوم کہاجاتاہے اس لئے کہ خاموش رہنے والا خود کوبولنے سے روکتاہے۔ہواکے
بندہونے کو بھی صوم کہتے ہیں اس لئے کہ وہ چلنے سے رکی ہوئی ہوتی ہے وہ
گھوڑاجس کادانہ پانی بندکرکے ایک جگہ باندھ دیاجاتاہے اسے الخلیل الصائم
کہتے ہیں۔لفظی اعتبارسے صوم کے معنی ہیں چلنے پھرنے‘کھانے پینے اوربات کرنے
سے رکنا۔‘‘
رمضان المبارک یوں توسارے کاسارااﷲ کی خاص عنایت سے بھرپورہے مگرکچھ گھڑیاں
خاص بھی ہوتی ہیں ‘جیسے طاق راتیں ‘شب قدروغیرہ ۔اسی طرح رمضان کو حدیث
مبارک میں تین حصوں میں تقسیم کرکے اس میں اﷲ کی لطف وعنایات کو مزید
دلفریب اندازمیں پیش کیاگیاہے تاکہ مومن کے جذبہ الفت کومہمیزملے‘ولولہ
وشوق بڑھے‘روحانی تشنگی عروج کوپہنچے اورجسمانی پاکیزگی اپنی
انتہاکو۔سرکاردوعالم فرماتے ہیں(مفہوم):رمضان کاپہلاعشرہ رحمت الہی
‘دوسرامغفرت اورتیسراعشرہ دوزخ سے نجات ہے ۔‘‘
روایت کے مطابق اﷲ تعالی گیارہ ماہ جنت کورمضان شریف کیلئے سجاتے رہتے ہیں
۔رمضان کی پہلی شب جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اوردوزخ کے تمام
دروازے بندکردیئے جاتے ہیں۔اس ماہ مبارک میں رب کریم تمام شیاطین
کوقیدکردیتے ہیں تاکہ وہ اس کے بندے کوراہ مستقیم سے نہ بھٹکاسکیں اوروہ
رحمت ‘برکت ‘مغفرت کی اس ’’لوٹ سیل‘‘سے خوب مستفیدہوسکے۔جنت کے دروازوں کے
کھلنے کے بعدایک فرشتہ صدالگا تاہے کہ’’اے نیکی کرنے والے !متوجہ ہو‘اوراے
بدی کے خوگر‘بدی کرنے سے بازرہ۔‘‘ ایک اور حد یث شریف جسے حضرت سہل بن سعدؓ
نے روایت کیاہے میں ہے کہ ’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں ‘جن میں سے ایک کانام
باب الریان ہے ‘جنت میں داخلے کیلئے ’’باب الریان‘‘کو فقط روزہ دارہی
استعمال کرسکیں گے۔‘‘۔مشکوہ المصابیح ۔حدیث نمبر1861۔
روایت میں آتاہے کہ حسنین کریمین ؓ کے نانا ﷺ رمضان کاچانددیکھ کرفرماتے
:’’ھلال رشدوخیر‘ھلال رشدوخیرامت بالذی خلقک (مصنف ابن ابی شیب ۔رقم حدیث
9798)
علماء امت کہتے ہیں کہ پہلے عشرے میں مسلمان یہ دعا کثرت سے مانگے:’’رب
اغفروارحم وانت خیرالرحمین ۔‘‘ترجمہ:اے میرے رب مجھے بخش دے‘مجھ پر رحم
فرما‘توسب سے بہتررحم فرمانے والاہے ۔‘‘سرکاردوعالم ﷺ کافرمان ہے (مفہوم)کہ
پہلے عشرے میں کلمہ کے پہلے حصے کی کثرت کی جائے دوسرے میں استغفاراورتیسرے
میں درودمحمدﷺ۔
رمضان المبارک پورے سال کی عبادات پرحاوی ہے ۔اﷲ والے گوکہ پورابرس عبادت
کرتے ہیں مگراس ماہ مقدس کی فضیلت کی وجہ سے ان کی عبادات بھی اس ماہ میں
ایک خاص موڑ لیتی ہیں ۔اسی طرح ہم سے گنہگار افرادکی روزمرہ کے معمولات میں
ایک خاص تبدیلی واقع ہوتی ہے اورہماری روحانیت بھی ایک نئی منزل کی جانب
گامزن ہوتی ہے‘ اس طرح زاہدورند‘متقی وگنہگارسمیت ہم سب کی روحانیت اس ماہ
کی پہلی تاریخ سے ایک نئے سفرکاآغاز کرتی ہے ۔کسی بھی کام کاآغاز
بھرپورہوتاہے اورانسان اس کیلئے خصوصی انتظامات کرتاہے ۔ اسی انسانی فطرت
کومدنظررکھ کرسرکاردوعالم نے دین فطرت میں نصف شعبان کے بعدروزے رکھنے
کوپسندنہیں فرمایا تاکہ تازہ دم ہوکربھرپورلگن سے رمضان کااستقبال کیاجاسکے
۔
رمضان المبارک میں ثانی ء الزہراؓ کے نانا ﷺ کامعمول تھا کہ آپ نماز عشاء
اورتراویح کے بعد بسترمبارک پر تشریف لے جاتے اورپھررات کے کسی حصے میں
اُٹھ کرتہجدادافرماتے اورقیام فرماتے ۔رات کی عبادت کی اہمیت وفضیلت رب
کریم سورہ مزمل میں اس طرح فرماتے ہیں’’بے شک رات کااٹھنانفس کوسختی سے
روندتاہے اور (اس وقت دل وزبان کی یکسانیت کے ساتھ)سیدھی بات نکلتی
ہے۔‘‘حدیث مبارک میں سرورکونین ﷺ کافرمان ہے’’میری امت کے برگزیدہ افراد
میں جوقرآن کو (اپنے سینوں میں)اُٹھائے ہوئے ہیں اورشب بیداری کرنے والے
ہیں ۔‘‘(شعب الایمان 2‘557‘رقم حدیث 9703)۔رمضان المبارک میں ہمارے پاس
قیام لیل کانادرموقع ہوتاہے ۔تہجدکیلئے عشاء کے بعدکچھ دیرسونالازم ہے
۔رمضان شریف میں ہم وقت سحرسے تھوڑاقبل اُٹھ کرتہجدبھی اداکرسکتے ہیں
اورقیام وتلاوت قرآن مجید فرقان حمید۔تہجدسے متعلق ارشادباری تعالی ہے ’’ان
کے پہلوبسترسے دوررہتے ہیں اوروہ خوف اورامیدکے ساتھ اپنے رب کوپکارتے ہیں
اورجوہم نے ان کودے رکھاہے اس کوراہ خدامیں خرچ کرتے ہیں ۔‘‘۔تاریخ سے ثابت
ہے کہ اصحاب رسول ﷺ کے بعد تابعین ‘تبع تابعین اوراسکے بعد کے اولیاء اﷲ
ایسے بھی ہوگزرے ہیں جورمضان کی رات میں جب عبادت کرنے کیلئے کھڑے ہوتے تو
ایک رکعت میں پوراقرآن مجیدتلاوت کرڈالتے ۔
حضرت شیخ الہند تہجدمیں دوپارے پڑھتے تھے۔امدالمشتاق میں نوراﷲ صاحب ‘حاجی
امداداﷲ مکی صاحب کے رمضان کے معمولات کے بارے لکھتے ہیں کہ انہوں نے
فرمایا’’تمہاری تعلیم کے واسطے کہتاہوں کہ یہ فقیرعالم شباب میں اکثرراتوں
کونہیں سویا۔‘‘شاہ عبدالرحیم رائے پوری تذکرہ الخلیل میں حضرت حاجی امداداﷲ
مکی کے متعلق لکھتے ہیں کہ رمضان میں دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے آپ
شایدگھنٹہ بھرسے زیادہ نہ سوتے تھے۔حضرت مکی کاسحروافطاردونوں کاکھانابمشکل
دوپیالی چائے اورآدھی یاایک چپاتی ہوتاتھا۔‘‘حضرت نوراﷲ کاتہجدمیں دوقرآن
کامعمول تھا۔ایک نوراﷲ صاحب پڑھتے دوسرامولانامحمدجلیل صاحب۔
شیرخداحیدرکرارسیدناعلی مرتضی ؓ کو گرمیوں کے روزے پسندتھے ۔عرب کاموسم
گرماہمارے موسم گرماپرقیاس ہی نہیں کیاجاسکتا۔بنیادی طورپرروزہ کامقصد
مادیت کی کمزوری اورروحانیت کی مضبوطی ہے۔ روزہ رکھنے سے انسانی خواہشات
وروحانیت میں صبح سے شام تک تکراررہتی ہے اوربالاآخرروحانیت کی یہ جیت
انسان کے اندراعتماد قائم کردیتی ہے کہ وہ جبلی ضروریات کوپسندخدواندی
کیلئے دباسکتاہے ’’لعلکم تتقون ای تضنعون (قرطبی)۔قابل غورہے یہ بات کہ سال
میں ایک ایسامہینہ بھی ہے جب اﷲ کی رضاوخوشی کی خاطرانسان پرحلال اشیاء کے
استعمال کی بھی ممانعت ہوجاتی ہے تو پھر باقی کے گیارہ ماہ ’’ناجائز‘‘اشیاء
وذرائع سے کس قدر بچاؤ اورگریز کی پالیسی ہوگی؟؟
قرآن کے مطابق جب سیدنامحمدﷺ کے خدانے حضرت موسی ؑ پرتوریت نازل کرنے
کافیصلہ کیا تو حضرت موسی ؑ کو اس بابرکت کتاب کے حصول کیلئے انسانی آبادی
سے دورپرے کوہ طورپرچالیس روز ‘روزے رکھ کرعبادت وریاضت کاحکم ہوا۔چالیس دن
کی اس عبادت کے بعد اﷲ نے اپنے پیارے پیغمبرؑ کو توریت عطافرمائی۔
روزہ کے افطارکے معمول میں بہت سے روایات ہیں۔آپ ﷺ اکثرکچھور سے روزہ
افطارفرماتے اوراگرکھجورکی فراہمی ممکن نہ ہوتی تو ساقی کوثرﷺ پانی سے روزہ
افطارفرماتے ۔حضرت سلیمانؓ بن عمرسے روایت ہے کہ ’’جب تم میں سے کوئی روزہ
افطارکرے تو اسے چاہیئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اگر
کھجورمیسرنہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتاہے۔‘‘
اصحاب رسول ﷺ کے پاس اکثر کھانے کو کچھ نہ ہوتاتوآدھی کھجوریا پانی سے
افطارفرماکررب کاشکراداکرتے ۔دورحاضرمیں ملتان شریف میں سلسلہ محمدیہ
ادریسیہ جوکہ عرب الاصل ہے کہ بزرگ شیخ حافظ امین بن عبدالرحمن نے اصحاب
رسول ﷺ کی یاد میں رمضان المبارک کی ترتیب ایسی رکھی ہے کہ پہلاروزہ کی
افطاری میں صرف کھجورکااہتمام ہوتاہے ‘دوسرے میں پانی اورتیسرے روز حسب
توفیق اشیائے خوردونوش ۔پورا رمضان انکے ہاں روزے اسی ترتیب کے ساتھ
افطارکیئے جاتے ہیں ۔اس طرح مجموعی طورپردس دن کھجورسے ‘دس دن پانی سے
اوردس دن مختلف نعمتوں سے ۔پانی سے روزہ افطارکرتے وقت جب محترم شیخ امین
صاحب کو ’’کربلا‘‘کی یاد آتی اورستاتی ہے توان کے لب پرحُب حسین ؓ سے متعلق
اشعارجاری ہوجاتے ہیں اورآنکھوں سے پانی جاری رہتاہے۔وہ پانی وکھجورسے
افطارکے دوران اپنے معتقدین سے فرماتے ہیں کہ اس افطاری پر غورکرو‘اصحاب
رسول ﷺ کہ پاس روزمرہ کی اشیاء کتنی کم تھیں ‘ان کے دسترخوان پر محض
کھجوریاپانی ہوتامگران کے قیام لیل‘تلاوت اورزہدوعبادت میں ذرابرابرفرق نہ
پڑتا۔
رمضان شریف کے دوران ہمیں چاہیئے کہ پہلے عشرے سے ہی اپنی تمام ترحرکات
وسکنات کواﷲ کی خوشنودی ورضامیں ڈھال لیں ۔رمضان ہمدردی ومحب کادرس دیتاہے
۔ہمیں چاہیئے کہ افطارپارٹیز کااہتمام اﷲ کی رضاکی خاطرکریں ‘مستحق
افرادکواس میں شامل کریں ‘تضنیع بناوٹ اوردکھاوے سے پرہیزکریں کیونکہ
ریاکارکیلئے سخت وعیدہے ۔ درس قرآن سنیں ‘قرآن ورمضان کی اہمیت وفضیلت سے
متعلق اکابرکی کتب کامطالعہ کریں ‘ان کی سیرت کوپڑھیں کہ وہ کیسے رمضان
گزارتے تھے ۔افطارپارٹیزمیں وقت افطارسے آدھ گھنٹاقبل درس قرآن کاپروگرام
رکھ کرہم اس پروگرام کومزید روحانی تقویت پہنچاکراپنی جنت کاراستہ مزیدآسان
کرسکتے ہیں۔
سائیڈسٹوری
روزہ اﷲ کیلئے ہے اوربلاشبہ وہی اسکااجرعطاکرنے والاہے مگر یہ ہمدردی واخوت
کامہینہ بھی ہے ۔کسی کاروزہ افطارکرانے کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔
دوسرے سرمایہ داروں اورحاکموں کیلئے بھی روزہ دارسے بھلائی کے صلے میں
انعام کاوعدہ کیاگیاہے ۔حدیث شریف ہے (ترجمہ):’’یہ ایسامہینہ ہے جس کے آغاز
میں رحمت ‘درمیان میں مغفرت اورآخرمیں دوزخ سے نجات ہے۔اورجس کسی نے اس
مہینے میں اپنے غلام(روزہ دار)سے کم کام لیا‘اﷲ تعالی اسے بخش کردوزخ سے
نجات دے گا۔‘‘
|