یہ مبارک سعاتیں کہیں غفلت میں گزر نہ جائیں
(Saeed Ullah Saeed, Swat)
یہ ہم سب کی خوش قسمتی اور اﷲ پاک کا ہمارے
اوپر رحم و کرم ہے کہ ایک بار پھر رحمتوں ،برکتوں ،بخششوں اور بندے کو اﷲ
کے قریب تر کرنے والا مہینہ ماہ رمضان البارک ہمیں نصیب ہورہا ہے۔ اہلاً و
سہلاً مرحبا، اے ماہ صیام ۔ اب یہ ہم پر منحصرہے کہ ہم اس مبارک مہینے سے
کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ اﷲ رب العزت نے تو ہمیں کھلا موقع فراہم
کردیا ہے کہ جتنا کچھ اس ماہ میں سمیٹ سکتے ہو سیمٹ لو۔ اگر ہم تھوڑا سا
غور کریں اور دل و دماغ کے دریچے کھولر اﷲ کی مہربانیوں پر کچھ دیر کے لیے
نظر ڈالیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص آئندہ کوئی گناہ کرنے سے
پہلے کئی بار ضرور سوچے گا۔ یہ اﷲ پاک کا ہم پربے پناہ رحم و کرم نوازی ہے
کہ اس ماہ بابرکت میں سرکش شیاطین کو قید کرلیا جاتا ہے اور ہمارے ہر نیک
عمل کو کئی درجے بڑھا دیا جاتا ہے۔
اگرچہ رمضان کریم کے فضائل و برکات علماء کرام ہی بہتر طریقے سے بیان اور
عوام الناس کو سمجھاسکتے ہیں مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان مبارک دنوں میں
نفلی عبادت کا درجہ فرائض کے برابر اور فرائض کا درجہ ستر گنا بڑھایا دیا
جات اہے۔ مومن کا رزق اس مہینے بے حساب بڑھ جاتا ہے، جو کسی روزے دار کو
روزہ افطار کرائے ــ’’چاہے پانی کے ایک گھونٹ ہی سے کیوں نہ ہو‘‘ اس کا یہ
عمل گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے اور اس روزہ دار
کے ثواب جتنا ثواب بھی اس کو حاصل ہوتا ہے۔
اس مہینے کے پہلا عشرہ رحمت، دوسر امغفرت اور تیسرا عشرہ آگ سے نجات کا
ذریعہ ہوتا ہے اور وہ عظیم رات کہ جسے ہم لیلۃ القدر کی نام سے جانتے ہیں
وہ اس ماہ مبارک میں اس امت کو عطاء کی گئی اور اس رات میں عبادت کو ہزار
مہینوں کے عبادت سے بہتر قرار دیا گیا۔ ان تمام عبادات سے صاف ظاہر ہوتا ہے
وہ بے نیاز اور غفورالرحیم ذات چاہتی ہے کہ میرے بندے اس دار فانی سے جب
واپس لوٹیں تو کامیاب و کامران ہوں اور آخرت کے اس لامحدود زندگی سے جیسے
چاہے لطف اٹھاسکیں۔
ہمارے اس معاشرے کے بیشتر لوگ اس ماہ مبارک سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش
کرتے ہیں جس کا اندازہ ہم مساجد میں نمازیوں کے بڑھتی ہو تعداد سے لگا سکتے
ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایک قابل توجہ اور آفسوسناک امر یہ بھی ہے کہ ہم
میں سے کئی لوگ اس ماہ مبارک میں اﷲ رب العزت کے بے پناہ رحمتوں کو یکسر
نظر انداز کردیتے ہیں۔ نفس کے اشاروں پر چلتے ہوئے اس موقع غنیمت کو ضائع
کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک طبقہ تو وہ ہے جو سرے سے روزے رکھتے ہی نہیں
ہیں۔ ان میں بڑے شہروں کے انڈسٹریل ورکرز، پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والے بعض
ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز ،گرم علاقوں کے وہ زمیندار جنہیں زمینوں پر کا کرنا
پڑتا ہے اس کے علاوہ ایلیٹ کلاس کے روشن خیال اور سندھ و پنجاب کے اکثر
درزی حضرات اس طبقے میں شامل ہیں۔ جو نہ رمضان کو جانتے ہیں اور ناہی
احترام رمضان۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو باقاعدہ سحری کے لیے اٹھتا ہے لیکن سحری
کھاکر نماز کا انتظار کئے بغیر مزے کی نیند سوتے ہیں اور سونے سے پہلے
اہلیہ کو یہ وصیت کرنا ہرگز نہیں بھولتے کہ بیگم بچوں کو سنبھال کے رکھنا ،
کہیں آرام میں خلل واقع نہ ہوجائے۔ ایسے حضرات کی آنکھ اگر نماز ظہر کے وقت
کھل جائے تو یہ نماز پڑھنے سے ہرگز دریغ نہیں کرتے لیکن اگر تین چار بجے تک
ان کی آنکھ نہ کھلے تویہ شیطان کو کوستے ہوئے بازار کی طرف چل پڑتے ہیں
جہاں سے یہ لوگ حسب استطاعت پھل، پکوڑے، سموسے، مشروبات اور مختلف قسم کی
چٹنیاں لے کر افطار سے پندرہ بیس منٹ پہلے گھر پہنچتے ہیں۔ ان پندرہ بیس
منٹ میں یہ لوگ افطاری تیار کرتے ہیں اور اس کے بعد ڈٹ کر افطارکرتے ہیں۔
تراویح یہ لوگ اس لیے نہیں پڑھتے کہ اس وقت ان حضرات کونیشنل اور انٹر
نیشنل صورت حال سے باخبر رہنے کے لیے ٹی وی پر خبریں اور ٹاک شوز دیکھنے
ہوتے ہیں ۔ اس طبقے میں کون لوگ شامل ہیں ، یہ بتانا اس لیے ضروری نہیں کہ
آس پاس دیکھنے سے ایسے لوگ ہزاروں کی تعداد میں نظر آجاتے ہیں۔ تیسرا طبقہ
وہ ہے جن کا مقصد صرف و صرف ترواویح میں ختم قران تک شریک ہونا ہوتا ہے۔
ادھر تروایح میں قرآن مجید مکمل ادھر یہ مسجد سے ایسے غائب جیسے کہ گدھے کہ
سر سے سینگھ۔
قارئین کرام! ذرا نظر دوڑائیں۔ آپ کو اپنے آس پاس ایسے بے شمار کردار نظر
آجائیں گے جن کا ذکر آپ نے کالم میں پڑھ لیا۔ اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے
کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے ان بھائیوں کی اصلاح کی بھی فکر کریں اور
اس کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں کے ساتھ ہم بے تکلف ہوکے مل سکتے ہیں
ان کی توجہ ہم خود دلائے ۔البتہ جن کے ساتھ ہمارے تعلقات اس نوعیت کے نہ
ہوتو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم محلے کی مسجد کے پیش امام صاحب یا محلے کے
بزرگوں کی توجہ اس جانب دلائے تاکہ پیش امام صاحب یا وہ بزرگ حضرات انہیں
یہ بتائے کہ بھائی اس مہینے میں بھی اگر کوئی اﷲ پاک کے ان ڈھیر سارے
انعاات اور اعزازات سے محروم رہا تو اس سے بڑا بدقسمت اور کوئی نہیں ۔اس
لیے اس غفلت کو چھوڑیں اور ماہ صیام کے ان برکتوں اور اﷲ کی رحمتوں سے بھر
پو فائدہ اٹھائیں تاکہ دنیاوی و اخروی زندگی میں کامیابی آپ کا مقدر ٹھہرے۔
|
|