اسلام آباد کے فیصلے اسلام آباد سے باہر

صدر ایوب خان کے زمانے میں بہت ہی خوبصورت علاقے کو دارلخلافہ کے لئے منتخب کیاگیا۔ماسٹر پلان بھی اچھا بنا۔اب یہ کافی حد تک خوبصورت اور جدید شہر بن چکا ہے۔یہاں بہت زیادہ شدید گرمی بھی نہیں ہوتی۔بارشیں اس کا موسم خوشگوار اور سہانا بنائے رکھتی ہیں۔لیکن عرصے سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ سیاست دانوں کا یہاں دل نہیں لگتا۔اور وہ باہر جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔اور مہینوں اپنے ملک یا دارلخلافہ واپس آنا پسند نہیں کرتے۔جب بھی انہیں کوئی میٹنگ بلانی ہو تو متعلقہ لوگوں کو لندن یا دبئی بلا لیتے ہیں۔پاکستان کی قسمت انہی شہروں میں بیٹھ کر لکھتے ہیں۔سندھ حکومت تو اس کار خیر کے لئے کافی معروف ہوچکی ہے۔سندھ حکومت کے اصل سربراہ ایک سال قبل افواج کے خلاف ایک دھنواں دار تقریر کرکے عازم دبئی ہوگئے تھے۔انہوں نے جب بھی اپنی پارٹی کے لوگوں سے کوئی مشورہ کرنا ہو۔پارٹی کی سیاسی پالیسی بنانی ہو تو وہ خود پاکستان آنے کی بجائے اپنے ساتھیوں کو دبئی طلب کرلیتے ہیں۔سیاسی ساتھیوں کاجانا تو اور بات ہے لیکن وزیر اعلیٰ سندھ اور وزراء کی میٹنگ دبئی میں منعقد کرنا انتہائی غیر قانونی اور بے شرمی کی بات ہے۔ایسی ہی صورت حال لندن کی بھی ہے۔یہاں بھی سیاست دان اکثر اکٹھے ہوتے ہیں اور پاکستانی سیاست کے بارے فیصلے کرتے ہیں۔مسلم لیگ والوں کا رخ اکثر لندن کی طرف رہتا ہے۔اس وقت تو جناب وزیراعظم صاحب علاج کے لئے گئے ہوئے ہیں۔اﷲ کے فضل سے صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔لیکن شہباز شریف اور کئی مرکزی کابینہ کے ارکان بھی وہاں دیکھے جاتے ہیں۔اس دفعہ بجٹ کی منظوری اورایکنک اجلاس کی صدارت بھی لندن سے ہوئی۔توجب بھی پاکستان میں کوئی بحران سا پیداہوتا ہے تو ان دو پارٹیوں کے علاوہ بھی لوگ لندن میں دیکھے جاتے ہیں۔مجھے میثاق جمہوریت کا زمانہ یاد آرہا ہے۔ملک پر مشرف کی حکومت تھی۔محترمہ بے نظیر بھٹو حیات تھیں۔نواز شریف،بے نظیر اور دیگر بے شمار سیاست دان لندن میں اکٹھے ہوئے۔گلے شکوے دورہوئے۔ 90ء کی دہائی کی سیاست اور آپس کے لڑائی جھگڑے ختم کرکے جمہوریت کو بچانے اور آگے بڑھانے کے لئے "میثاق جمہوریت ـ ـ"پر دستخط کئے گئے۔تب محترمہ بے نظیر کی جلاوطنی خودساختہ اور نواز شریف کو مشرف نے دس سال کے لئے سعودی عرب بھیجا ہوا تھا۔یہ تمام لوگ کسی اور شہر جیسے جدہ کی بجائے صرف لندن میں اکھٹے ہوئے۔جمہوریت کی بقاء کا پروگرام صرف لندن میں ہی بنا۔پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اسکی قسمت باہر بیٹھ کر لکھی جارہی ہے۔جناب عمران خان کو بھی لندن اکثر یاد آتا رہتا ہے۔بچوں کو ملنے کے بہانے وہ اکثر لندن جاتے رہتے ہیں۔اور وہاں جاکر ملکی سیاست کی باتیں کرتے ہیں۔لندن کی سڑکوں پر PTIکی طرف سے مسلم لیگ کے خلاف اور مسلم لیگ کی جانب سے PTI کے خلاف نعرہ بازی،اپنے اختلافات کو دوسروں کے گھر جاکر بیان کرنے اور دکھانے کے مترادف ہیں۔مسلم لیگ کے ورکر لندن میں جمائما کے گھر پر دھاوا بولیں یا PTI کے ورکر حسین نواز کے گھر کی طرف مارچ کریں۔یہ تمام کچھ سیاسی اخلاقیات سے گری ہوئی باتیں ہیں۔یہ سارے اختلافات ہمیں اپنے گھر میں رکھنے چاہیئے۔جیسے کسی نے کہا ہے۔
نظر کا تیر نظر میں رہے تو اچھا ہے
یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے

دبئی ہویا لندن کسی بھی دوسرے شہر یا ملک میں جاکر اپنے سیاسی اختلافات بیان کرنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔اب اس حمام میں تینوں بڑی پارٹیوں کے لیڈر ننگے ہیں۔چھوٹی پارٹیوں کے لوگ بھی اکثر باہر جاکر ملکی جھگڑے اچھالتے رہتے ہیں۔ایک صاحب نے تو35سال سے لندن میں ڈیرے لگائے ہوئے ہیں۔سیاست یہ پاکستان کی کرتے ہیں لیکن بیٹھے لندن میں ہیں۔الطاف انتہائی کم تر درجے کی باتیں لندن میں بیٹھ کر پاکستان سے متعلق کرتے رہتے ہیں۔ٹیکنالوجی نے یہ تمام باتیںLiveدکھانے کا انتظام کردیا ہے۔لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ کبھی افغانستان،ایران اور بھارت کے حکمرانوں نے پاکستان میں آکر اپنے ملکی سیاسی جھگڑوں کا اسلام آباد یا لاہور میں ذکر کیاہو۔ہرکوئی اپنے سیاسی اختلافات کو اپنے ملک تک محدود رکھتاہے۔باہر جاکر قومی یکجہتی کی باتیں ہی کی جاتی ہیں۔شاید اسکی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جناب نواز شریف،جناب زرداری اور دیگر بے شمار سیاست دانوں اور کاروباری لوگوں نے اب اپنے اثاثے بھی لندن اور دبئی میں منتقل کرلئے ہیں۔انکی دلچسپیاں اب باہر کی دنیا کے ساتھ ہیں۔پاکستان میں آکر وہ صرف انتخابات لڑتے ہیں ۔اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔اقتدار کا عرصہ ختم ہوجانے کے بعد باہر پڑی اپنی دولت سے مزے لوٹتے ہیں۔محسوس ایسا ہی ہوتا ہے کہ یہ ساری دولت انہوں نے ناجائز طریقے سے کما کر باہر منتقل کردی ہے۔اب انکا دل پاکستان میں نہیں لگتا۔ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کو پاکستان پر رحم کرنا چاہیئے۔انہیں اپنے تمام اثاثے اپنے ملک میں منتقل کرنے چاہیئے۔سیاسی فیصلے بھی اسلام آباد اور پاکستان کی سرزمین پرکرنے چاہیئے۔موجودہ صورت حال کو جگ ہنسائی ہی کہا جاسکتا ہے۔ملک کا وقار اسی لئے گررہا ہے۔کہ حکمران اور سیاست دان اپنے ملک سے"وفا ـ ـ"نہیں کررہے۔پاکستان کی کسی وفاقی یا صوبائی کابینہ کا اجلاس لندن یا دبئی میں ہونا تو انتہائی گھٹیا اخلاقی حرکت ہے۔اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد بھی حکمرانوں کو دبئی یا لندن ہی یاد آتا ہے۔مدتوں سے مشرف اور شوکت عزیز بھی لندن میں ہی مقیم ہیں۔وہ 2سال پاکستان میں قید رہنے کے بعد دوبارہ چلے گئے ہیں۔اقتدار کے مزے تو پاکستان میں بیٹھ کر لوٹے اور اب ناجائز کمائی ہوئی دولت سے لندن میں عیاشیاں کررہے ہیں۔وہیں بیٹھ کر کتابیں لکھ رہے ہیں۔پاکستان کو گاہے بہ گاہے وہیں سے نصیحتیں بھی بھجواتے رہتے ہیں۔کسی کو بھی اپنے ملک کی ساکھ کا خیال نہیں آتا۔محترم نواز شریف جو اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے عہدے پر ہیں اپنے موجودہTenureمیں وہ18دفعہ لندن جاچکے ہیں۔وہ یورپ جائیں یا امریکہ،لندن میں ان کا ٹھہرنا لازمی ہوتا ہے۔جناب زرداری صاحب جو سابق صدر ہیں انکا گزشتہ ایک سال سے باہر ہونا عجیب سالگتا ہے۔سندھ کابینہ کے لوگ بھی بھاگ گئے ہیں اور باہر جا کر پناہ گزین بن چکے ہیں۔اپنے ملک کے فیصلے اپنی سرزمین پر ہوں تبھی ان میں اخلاص پیدا ہوگا۔لندن میں فیصلے کرنے سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ برطانوی استعمار کا دورجاری ہے۔پاکستانی حکمرانوں اور سیاست دانوں کو شرم آنی چاہیئے۔لوٹ مار بھی چھوڑ دینی چاہیئے۔اپنے اثاثہ جات کو فوراً اپنے ملک منتقل کریں۔ہر طرح کی سیاسی سرگرمیاں اپنے ملک کے دارلخلافے اور اپنے شہروں میں کریں۔جناب نواز شریف کو اپنے صاحبزادوں کے تمام Flatsفروخت کرکے رقم اپنے ملک منتقل کردینی چاہیے۔ایسے ہی تحریک انصاف کے لیڈروں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو بھی کرناچاہیئے۔جب ایسے نیک کام حکمران اور سیاست دان کریں گے تو باقی کاروباری لوگ بھی اپنے ملک کے اندر سرمایہ لانے کی کوشش کریں گے۔تمام سیاسی اور معاشی سرگرمیوں میں حصے ضرور لیں لیکن اپنے ملک کے اندر۔یہاں سرمایہ کی بڑی کمی ہے۔زرداری صاحب ،نواز شریف صاحب اور عمران خان اسلام آباد میں بیٹھ کر میٹنگز کرتے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے اچھے لگتے ہیں۔آئیے دوسرے ملکوں کو چھوڑ کر اپنے ملک کی مٹی سے وابستہ ہوجائیں۔تمام فیصلے اسلام آباد میں بیٹھ کر ہونگے تو فیصلے ماثر ہونگے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.