ایک خبر کے مطابق بجٹ میں سرکاری
ملازمین کے تنخواہوں میں معقول اضافہ کردیاگیا ہے ۔ہر سال کی طرح سرکاری
ملازمین اس اضافے کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف قرار دیتے ہوئے مسترد
کردیا ہے۔ جہاں تک سرکاری ملازمین کی اس بات کا تعلق ہے تو ذرا ان کی
کارکردگی پر ایک نگاہ ڈال لی جائے تو بات کو آگے بڑھانے میں آسانی رہے گی ۔
حسن اتفاق سے میں ضروری کام کے سلسلے میں ایک سرکاری دفتر پہنچ۔ دفتر سے
باہر ہی ایک بزرگ شخص جھولی ہاتھوں میں اٹھا کر آسمان کی طرف منہ کرکے
باآواز بلند بدعائیں دیتا ہوا یہ کہہ رہا تھا خدا نہ کرے کسی کو سرکاری
محکموں سے واسطہ پڑے ۔ صحافیانہ حس کی بنا پر میں نے اس سے پوچھا کہ بزرگو
آخرماجرا کیا ہے ۔ اس نے بتایا میں ایک مہینے سے دفتر کے چکر لگا لگا کر
تھک گیا ہوں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ کبھی اس دفتر کا پورا عملہ حاضر نہیں
ہوتا۔ آدھی سے زیادہ نشستیں خالی ہوتی ہیں جو لوگ اپنی نشستوں پر بیٹھے ہیں
ان کے ہاتھ میں قلم کی بجائے موبائل ہوتے ہیں ۔ ایک جانب فائلوں کی انبار
میز پر تو دوسری جانب موصوف موبائل پر چیٹنگ میں اس قدر مصروف نظر آتے ہیں
کہ سر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ جو شخص سخت گرمی اور چچلاتی
ہوئی دھوپ میں کیسے بسوں اور ویگنوں کے دھکے کھاکر ان تک پہنچا ہے۔ اس کی
بات ہی توجہ سے سن لیں ۔ سائلوں کو ٹھنڈا پانی پلانا اور کرسی پر بٹھانا تو
ویسے ہی گناہ تصور کیاجاتا ہے ۔ ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر اخبار پڑھنا
ٗموبائل پر چیٹنگ کرنا ٗ سرکاری چائے نوش فرمانا اور بارہ بجے ہی نماز ظہر
کا بہانہ کرکے گھروں کو رفوچکر ہو جانا ایک معمول بن چکا ہے ۔بزرگ نے بتایا
کہ میں جس کے پاس بھی جاتا ہوں وہ اپنی جان چھڑا کر دوسرے کے پاس بھیج دیتا
ہے ۔ایک دن میں تنگ آکر کر بڑے افسر کے کمرے میں جا پہنچا ۔ افسر کے کمر ے
میں ائیرکنڈیشنڈ کی کولنگ اس قدر زیادہ تھی کہ مجھے سخت گرمیوں میں بھی
سردی لگنے لگی لیکن افسر کوٹ پینٹ پہنے لیپ ٹاپ پر اپنے فرینڈز کے ساتھ خوش
گپیوں میں مصروف تھے۔ ابھی میں جھجک کر کرسی پر بیٹھنے کی اجازت مانگ ہی
رہا تھا کہ ایک خوش لباس جواں سالہ فیشن ایبل خاتون کمرے میں داخل ہوئی تو
صاحب نے اٹھ کر اس کااستقبال کیا اور مجھے حقارت آمیز لہجے میں کہا آپ اس
وقت جائیں میں اہم میٹنگ میں ہوں ۔ میں ابھی بات مکمل بھی نہیں کرپایا تھا
کہ صاحب نے گھنٹی بجائی اور چپڑاسی مجھے دھکے مارتا ہوا دفتر سے باہر لے
آیا ۔ یہ کہانی کسی ایک محکمے کی نہیں ہے جتنے بھی سرکاری محکمے ہیں سب میں
کام سے بدنیتی ٗ موبائل چیٹنگ اور دفترسے غیر حاضری ایک معمول بن کر رہ چکی
ہے ۔ ایک چھوٹا سا واقعہ میں اپنا بھی سناتا ہوں۔ میری بائیک کی رجسٹریشن
گم ہوگئی۔ میں موٹررجسٹریشن آفس پہنچااور نئی رجسٹریشن کے درخواست جمع
کروادی اس لمحے ایک شناسا شخص مل گیااس نے کہا اگر آپ جلد رجسٹریشن بنوانا
چاہتے ہیں تو کھڑکی میں بیٹھے ہوئے کلرکوں کے پاس نہ جائیں۔ دفتر کے باہر
ان لوگوں کے ٹاؤٹ بیٹھے ہیں ان کے پاس جائیں جتنے پیسے وہ مانگیں انہیں دے
کر دو تین دنوں میں رجسٹریشن حاصل کرلیں ۔میں نے کہا جناب رشوت لینے اور
دینے والے دونوں جہنم میں جائیں گے میں یہ کام نہیں کرتا۔میرا کام ناجائز
نہیں جائز میں رشوت کیوں دوں اور غلط راستہ کیوں اختیار کروں ۔چنانچہ میں
نے قطار میں کھڑے ہوکر درخواست جمع کروا دی۔مجھے ایک سلیپ دے دی گئی اور
ایک ہفتے بعد آنے کا حکم ملا ۔میں مسلسل چار پانچ ہفتے میں چکر لگاتا
رہالیکن رجسٹریشن نہ ملی میں ایک سنئیر افسرکے پاس گیا اور پوچھا کہ میرا
قصور کیاہے آخر آپ لوگ مجھے نئی رجسٹریشن کیوں نہیں دے رہے جبکہ میں نے
تمام کاغذات بھی مکمل کردیئے ہیں۔ اس نے متعلقہ کلرک کو بلایا اور ڈانٹ کے
انداز میں کہا ان کی فائل لے کر آؤ۔اس نے جواب دیا سر ان کی فائل گم ہوگئی
ہے مل نہیں رہی ۔ اب افسر صاحب فرمانے لگے سر اب تو کچھ نہیں ہوسکتا ۔ میں
نے کہا آپ مجھے یہ بتائیں کہ دفتر میں فائلوں کی حفاظت کیا میری ذمہ داری
ہے اگر یہ غفلت ہوئی ہے تو متعلقہ کلرک کو آپ ڈسمس کیوں نہیں کرتے ۔ابھی یہ
بحث و تکرار چل رہی تھی کہ ایک بار وہی شناسا شخص وہاں کھڑا نظر آیا مجھے
پریشان دیکھ کر کہنے لگا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا لیکن اس وقت حاجی صاحب
بن گئے تھے اب بھی وقت نہیں گزرا میری بات مان جاؤ ۔ چنانچہ وہ میری
درخواست لے کر دفتر کے اندر گیا اور آدھے گھنٹے بعد نئی رجسٹریشن بنوا کر
مجھے تھما دی ۔رشوت اور سفارش کے بغیر کامنہ کرنے کی بیماری تمام سرکاری
محکموں میں موجود ہے ۔ چپڑاسی سے لے کر افسروں تک صرف انجوائے کرنے ٗاخبار
پڑھنے اور چائے پی کر موبائل پر چیٹنگ کرنے کے لیے دفتروں میں آتے ہیں اور
جب دل چاہا بغیر بتائے ہی رفوچکر ہوجاتے ہیں۔ میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں
اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 100 فیصد بھی اضافہ کردیاجائے تو ان کی
کارکردگی اور عوام دوستی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔افسوس تو اس بات کا ہے
جہاں ایک افسر اور ملازم کام کرسکتا ہے وہاں دس دس بٹھادیئے گئے۔ یہی وجہ
ہے کہ جو کام ایک یا دو دن میں ہوسکتا ہے اسے مہینے لگ جاتے ہیں۔ فائل ایک
افسر سے دوسرے افسر تک پہنچنے میں ہفتے لگادیتی ہے۔آپ یقین نہیں کریں گے ۔
مجھے یاد ہے کہ 1947ء میں لاہور شہر میں جرائم کنٹرول کرنے کے لیے صرف ایک
ایس ایچ او تھا لیکن آج صرف لاہور میں آٹھ دس ڈی آئی جی ایس ایس پی اور پتہ
نہ کتنے اور پولیس افسر موجود ہیں لیکن جرائم کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی
چلے جارہے ہیں ۔ریلوے میں پہلے ایک ڈی آئی جی ہوا کرتا تھا اب وہاں بھی دو
ڈی آئی جی اور کتنے ہی ایس ایس پی آچکے ہیں چوریاں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ
گئی ہیں اور افسران کی بھاری تنخواہوں اور مراعات کا یہ بوجھ ریلوے کو
دیوالیہ پن تک پہنچا چکا ہے ۔ تعداد بڑھانے سے کارکردگی میں اضافہ نہیں
ہوتا بلکہ یہ اقدام کام میں مزید تاخیر کا باعث بنتا ہے ۔ان حالات میں کیا
واقعی سرکاری ملازمین تنخواہیں بڑھنی چاہیں ۔یہ فیصلہ حکومت کو نہیں سرکاری
محکموں کی ستائی ہوئی اس عوام کوکرنا ہے جو روزانہ سرکاری دفتروں میں ذلیل
و خوار ہوکر ذہنی مریض بن چکے ہیں ۔ |