فضائلِ ماہِ رمضان احادیثِ نبویہ کی روشنی میں
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
ڈاکٹر مشاہدرضوی کے بلاگ سے |
|
فضائلِ ماہِ رمضان احادیثِ نبویہ کی
روشنی میں
پیش کش: ڈاکٹر مشاہد رضوی آن لائن ٹیم
ماہ رمضان اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم الشان
نعمت ہے، جسے اللہ تعالی نے امت محمدی ﷺ کو عطا فرما کر بہت بڑا کرم و
احسان کیا ہے۔ اس مبارک و مسعود مہینے میں ہر ہر لمحہ رحمتوں اور برکتوں کا
نزول ہوتا ہے۔ تین عشروں پر مشتمل یہ بابرکت مہینہ اللہ پاک کی طرف سے رحمت،
محبت، ضمان، امان اور نور لے کر آتا ہے اور ہمیں روزہ، تراویح، اعتکاف،
عباداتِ شبِ قدر اور تلاوتِ قرآن کے اہتمام کا پیغام دیتا ہے۔ اسی مقدس و
متبرک مہینے میں پروردگار کی طرف سے امت محمدی کو سب سے عظیم تحفہ قرآنِ
حکیم کی شکل میں ملا۔ اشادِ ربانی ہے:
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔
(القرآن الحکیم، پارہ: 2، سورہ: البقرہ، آیت: 185)
رمضان رمض سے مشتق ہے جس کا معنی ہے گرمی یا گرم، چوں کہ بھٹی گندے لوہے کو
صاف کرتی ہے اور صاف لوہے کو پرزہ بنا کر قیمتی کردیتی ہے اورسونے کو محبوب
کے پہننے کے لائق بنا دیتی ہے اسی طرح رمضان کا روزہ بھی گناہ گاروں کے
گناہ معاف کراتا ہے، نیک کار کے درجے بڑھاتا ہے اور ابرار کا قرب الٰہی
زیادہ کرتا ہے اس لیے اسے رمضان کہتے ہیں،
یہ مہینہ اﷲ کی رحمت، محبت، ضمان، امان اور نورلے کر آتا ہے اس لیے بھی
رمضان کہلاتا ہے۔
یہ ماہِ مبارک مذکورہ بالا پانچ نعمتیں لاتا ہے اور پانچ عبادتیں بھی:
روزہ، تراویح، اعتکاف، شبِ قدر میں عبادات اور تلاوت قرآن،
اسی مہینے میں قرآن کریم اترا اور اسی مہینے کا نام قرآن شریف میں لیا
گیا
اتنا ہی نہیں اس مہینے میں آسمانوں کے دروازے بھی کھول دیے جاتے ہیں، جن
سے اﷲ کی خاص رحمتیں زمین پر اترتی ہیں اور جنتوں کے دروازے بھی جس کی وجہ
سے جنت والے حور و غلمان کو خبر ہوجاتی ہے کہ دنیا میں رمضان آگیا اور وہ
روزہ داروں کے لیے دعاؤں میں مشغول ہوجاتے ہیں
ماہ رمضان میں دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اس مہینے میں
گناہ گاروں بلکہ کافروں کی قبروں پر بھی دوزخ کی گرمی نہیں پہنچتی۔
اور جو مسلمانوں میں مشہور ہے کہ رمضان میں عذابِ قبر نہیں ہوتا اس کا یہی
مطلب ہے اورحقیقت میں ابلیس مع اپنی ذریتوں کے قید کردیا جاتا ہے۔
اس مہینے میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ اپنے نفسِ امارہ کی شرارت سے
کرتا ہے نہ کہ شیطان کے بہکانے سے۔
الغرض اس ماہ مبارک کی بے شمار فضیلتیں اور اہمیتیں احادیث طیبہ میں وارد
ہوئی ہیں۔ انھیں میں سے چند یہاں ذکر کی جا رہی ہیں:
1۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ ﷺ قَالَ:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ
مِنْ ذَنْبِهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
جس نے رمضان میں بحالت ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام
گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘
(بخاری شریف، کتاب الایمان، باب: تطوع قیام رمضان من الایمان، 1 / 22، حدیث
نمبر: 37، و مسلم شریف، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام
رمضان، 1 / 523، حدیث نمبر: 759)
2۔
عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَاناً وَ احْتِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ
مِنْ ذَنْبِهِ. وَمَنْ قامَ رَمَضَانَ إِيْمَاناً وَإحْتِسَاباً غُفِرَلَهُ
مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. وَمَنْ قامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيْمَاناً وَ
إحْتِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جس شخص نے حالت ایمان میں اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے
پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جو رمضان میں ایمان کی حالت اورثواب
کی نیت سے قیام کرتا ہے اس کے (بھی) سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور
جو لیلۃ القدر میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے گذشتہ
گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
(بخاری شریف، کتاب: صلاۃ التراویح، باب: فضل لیلۃ القدر، 2 / 709، حدیث
نمبر: 1905، 1910، و مسلم شریف، کتاب: صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب: الترغیب
فی قیام رمضان وھو التراویح، 1 / 523، حدیث نمبر: 740)
3۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنه، عَنْ رَسُولِ اﷲِ ﷺ
أَنَّهُ ذَکَرَ شَهْرَ رَمضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَی الشُّهُورِ، وَ قَالَ:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَاباً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ
کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أمُّهُ.
رَوَاهُ النِّسَائِيُّ.
وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ :
إِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی فَرَضَ صِيَامَ رَمَضَانَ عَلَيْکُمْ، وَ
سَنَنْتُ لَکُمْ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيْمَاناً
وَاحْتِسَاباً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أمُّهُ. رَوَاهُ
النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور
نبی اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کا ذکر فرمایا تو سب مہینوں پر اسے فضیلت دی۔
بعد ازاں آپ ﷺ نے فرمایا:
جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرتا
ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی
ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
بے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور میں نے تمھارے لیے اس
کے قیام (نماز تراویح) کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص ایمان اور حصول
ثواب کی نیت کے ساتھ ماہ رمضان کے دنوں میں روزہ رکھتا اور راتوں میں قیام
کرتا ہے وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس
کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘
(سنن نسائی، کتاب: الصیام، باب: ذکر اختلاف یحیی بن ابی کثیر والنضر بن
شیبان فیہ، 4 / 158، حدیث نمبر: 2208۔2210، و سنن ابن ماجۃ، کتاب: اقامۃ
الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب: ماجاء فی قیام شھر رمضان، 1 / 421، حدیث نمبر:
1328)
4۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ يُرَغِّبُ
فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةٍ،
فَيَقُولُ:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ
مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ، وَالْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ،
ثُمَّ کَانَ الْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ وَ صَدْرًا
مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَی ذَلِکَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تراویح پڑھنے
کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے۔ چناں چہ فرماتے کہ جس
نے رمضان المبارک میں حصول ثواب کی نیت سے اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام
کیا تو اس کے سابقہ (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک نمازِ تراویح کی یہی صورت برقرار رہی اور
خلافت ابوبکر رضی اﷲ عنہ میں اور پھر خلافت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے شروع
تک یہی صورت برقرار رہی۔‘‘
(بخاري شریف، کتاب: صلاۃ التروایح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 707، حدیث
نمبر: 1905، و مسلم شریف، کتاب: صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في
قیام رمضان و ھو التراویح، 1 / 523، حدیث نمبر: 759)
5۔
عَنْ مَالِکٍ رَحِمَهُ اﷲُ أَنَّهُ سَمِعَ مَنْ يَثِقُ بِهِ مِنْ أَهْلِ
الْعِلْمِ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اﷲِ ﷺ أُرِيَ أَعْمَارَ النَّاسِ
قَبْلَهُ أَوْ مَا شَاءَ اﷲُ مِنْ ذَلِکَ فَکَأَنَّهُ تَقَاصَرَ أَعْمَارَ
أُمَّتِهِ أَنْ يَبْلُغُوا مِنَ الْعَمَلِ مِثْلَ الَّذِي بَلَغَ
غَيْرُهُمْ فِي طُولِ الْعُمْرِ فَأَعْطَاهُ اﷲُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ خَيْرٌ
مِنْ أَلْفِ شهْرٍ.
رَوَاهُ مَالِکٌ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ثقہ (یعنی قابل
اعتماد) اہل علم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو سابقہ امتوں کی
عمریں دکھائی گئیں یا اس بارے میں جو اﷲ نے چاہا دکھایا تو آپ ﷺ نے اپنی
امت کی کم عمروں کا خیال کرتے ہوئے سوچا کہ کیا میری امت اس قدر اعمال کر
سکے گی جس قدر دوسری امتوں کے لوگوں نے طوالتِ عمر کے باعث کئے۔ تو اﷲ
تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شبِ قدر عطا فرما دی جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔‘‘
(مؤطا امام مالک، کتاب: الاعتکاف، باب: ما جاء في لیلۃ القدر، 1 / 321،
حدیث نمبر: 698، و شعب الایمان للبیھقی، 3 / 323، حدیث نمبر: 3667)
6۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُوْلَ
اﷲِ! أَخْبِرْنَا عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ:
هِيَ فِِي رَمَضَانَ الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَإِنَّهَا
وِتْرٌ فِي إِحْدَی وَ عِشْرِيْنَ أَوْثَ. لَاثٍ وَ عِشْرِيْنَ أَوْخَمْسٍ
وَ عِشْرِيْنَ أَوْسَبْعٍ وَ عِشْرِيْنَ أَوْ تِسْعٍ وَ عِشْرِيْنَ أَوْ
فِي آخِرِ لَيْلَةٍ فَمَنْ قَامَهَا إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ
مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے انھوں نے عرض کی: یا رسول اﷲ!
ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتائیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
یہ (رات) ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں،
ستائیسویں، انتیسویں یا رمضان کی آخری رات ہوتی ہے۔ جو بندہ اس میں ایمان و
ثواب کے ارادہ سے قیام کرے اس کے اگلے پچھلے (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے
ہیں۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل، 5 / 318، 321، 324، حدیث نمبر: 22765، 22793، 22815، و
المعجم الاوسط للطبرانی، 2 / 71، حدیث نمبر: 1284)
7۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَعِدَ المِنْبَرَ
فَقَالَ: آمِيْنَ. آمِيْنَ. آمِيْنَ. قِيلَ يَا رَسُولَ اﷲِ، إِنَّکَ
حِيْنَ صَعِدْتَ الْمِنْبَرَ قُلْتَ: آمِيْنَ. آمِيْنَ. آمِيْنَ؟ قَالَ:
إِنَّ جِبْرِيْلَ عليه السلام أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ أَدْرَکَ شَهْرَ
رَمَضَانَ وَ لَمْ يُغْفَرْ لَهُ، فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اﷲُ.
قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَ مَنْ أَدْرَکَ أَبَوَيْهِ أَوْ
أَحَدَهُمَا فَلَمْ يَبَرَّهُمَا فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ
اﷲُ. قُلْ آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَ مَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ
يُصَلِّ عَلَيْکَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اﷲُ. قُلْ:
آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَ ابْنُ حِبَّانَ وَ اللَّفْظُ لَهُ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف
فرما ہوئے تو تین بار آمین، آمین، آمین فرمایا۔ عرض کی گئی: یا رسول اﷲ! آپ
منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ نے آمین، آمین، آمین فرمایا (اس کی کیا وجہ
ہے؟)۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
جبرائیل علیہ السلام میرے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: جس شخص نے ماہِ
رمضان پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی تو وہ آگ میں گیا، اسے اﷲ تعالیٰ اپنی
رحمت سے دور کر دے۔ (اے حبیبِ خدا!) آپ آمین کہیں۔ اس پر میں نے آمین کہا۔
اور جس شخص نے ماں باپ دونوں کو پایا یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان
کے ساتھ نیکی نہ کی اور مر گیا تو وہ آگ میں گیا۔ اﷲ تعالیٰ اسے اپنی رحمت
سے دور کر دے: (اے حبیبِ خدا!) آپ آمین کہیں۔ تو میں نے آمین کہا۔ اور وہ
شخص جس کے پاس آپ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہ پڑھا اور اسی
حالت میں مر گیا تو وہ بھی آگ میں گیا۔ اﷲ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر
دے (اے حبیب خدا!) آپ آمین کہیں تو میں نے آمین کہا۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ، 3 / 192، حدیث نمبر: 1888، و صحیح ابن حبان، 3 / 188)
8۔
عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها زَوجِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ
رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ثُمَّ لَمْ
يَأْتِ فِرَاشَهُ حَتَّی يَنْسَلِخَ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَ أَحْمَدُ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے انھوں نے فرمایا:
جب ماہِ رمضان شروع ہو جاتا تو حضور نبی اکرم ﷺ اپنا کمر بند کس لیتے پھر
آپ ﷺ اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گذر جاتا۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ، 3 / 342، حدیث نمبر: 2216، و مسند احمد بن حنبل، 6 / 66،
حدیث نمبر: 24422، و شعب الایمان للبیھقی، 3 / 310، حدیث نمبر: 3624)
9۔
عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ إِذَا دَخَلَ
رَمَضَانَ تَغَيَّرَ لَونُهُ وَ کَثُرَتْ صَلَاتُهُ وَابْتَهَلَّ فِي
الدُّعَاءِ وَ أَشْفَقَ مِنْهُ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ جب ماہِ رمضان
شروع ہوتا تو آپ ﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ ﷺ نمازوں کی (مزید)
کثرت کر دیتے اور اﷲ تعالیٰ سے عاجزی و گڑگڑا کر دعا کرتے اس ماہ میں نہایت
محتاط رہتے۔‘‘
(شعب الایمان للبیہقی، 3 / 310، حدیث نمبر: 3625، والجامع الصغیر للسیوطی،
1 / 143، حدیث نمبر: 212)
10۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:
إِنَّ فِي رَمَضَانَ يُنَادِي مُنَادٍ بَعْدَ ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ
أَوْ ثُلُثِ اللَّيْلِ الْآخِرِ: أَلَا سَائِلٌ يَسْأَلُ فَيُعْطَيُ، أَلَا
مُسْتَغْفِرٌ يَسْتَغْفِرُ فَيُغْفَرُ لَهُ، أَلَا تَائِبٌ يَتُوبُ
فَيَتُوبُ اﷲُ عَلَيْهِ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے حضور نبی ﷺ سے روایت بیان کی کہ آپ
ﷺ نے فرمایا: بے شک رمضان المبارک میں رات کے پہلے تیسرے پہر کے بعد یا
آخری تیسرے پہر کے بعد ایک ندا کرنے والا ندا کرتا ہے:
ہے کوئی سوال کرنے والا کہ وہ سوال کرے تو اسے عطا کیا جائے؟
کیا ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ وہ مغفرت طلب کرے تو اسے بخش دیا جائے؟
کیا ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ وہ توبہ کرے تو اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول
کرے؟‘‘
(شعب الایمان للبیھقی، 3 / 311، حدیث نمبر: 3628)
11۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ ﷺ قَالَ
يَوْمًا وَ حَضَرَ رَمَضَانُ:
أَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَکَةٍ يَغْشَاکُمُ اﷲُ فِيْهِ فَيُنْزِلُ
الرَّحْمَةَ، وَ يَحُطُّ الْخَطَايَا، وَ يَسْتَجِيْبُ فِيْهِ الدُّعَاءَ،
يَنْظُرُ اﷲُ تَعَالَی إِلَی تَنَافُسِکُمْ فِيْهِ، وَ يُبَاهِي بِکُمْ
مَلَائِکَتَهُ فَأَرُوا اﷲَ مِنْ أَنْفُسِکُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ
مَنْ حُرِمَ فِيْهِ رَحْمَةَ اﷲِ عزوجل.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَ رَوَاتُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْمُنْذَرِيُّ
وَالْهَيْثَمِيُّ.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک دن
فرمایا جب کہ رمضان المبارک شروع ہو چکا تھا:
تمھارے پاس برکتوں والا مہینہ آگیا ہے اس میں اﷲ تعالیٰ تمھیں اپنی رحمت سے
ڈھانپ لیتا ہے۔ رحمت نازل فرماتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے اور دعائیں قبول
فرماتا ہے۔ اس مہینے میں اﷲ تعالیٰ تمھارے دلوں پر نظر فرماتا ہے اور
تمھاری وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے۔ لہٰذا تم اپنے قلب و
باطن سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیکی حاضر کرو کیوں کہ بد بخت ہے وہ شخص
جو اس ماہ میں بھی اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہا۔‘‘
(اخرجہ المنذري في الترغیب و الترھیب، 2 / 60، الرقم: 1490، و قال: رواہ
الطبراني و رواتہ ثقات، و الہیثمي في مجمع الزوائد، 3 / 142، وقال: رواہ
الطبراني في الکبیر۔)
12۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ :
ذَاکِرُ اﷲِ فِي رَمَضَانَ مَغْفُورٌ لَهُ، وَسَائِلُ اﷲِ فِيْهِ لَا
يَخِيْبُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ماہِ رمضان میں اﷲ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں ﷲ
تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا۔‘‘
(المعجم الاوسط للطبرانی، 6 / 195، حدیث نمبر: 6170، وشعب الایمان للبیھقی،
3 / 311، حدیث نمبر: 3627)
اخیر میں بارگاہ پروردگار میں دست بہ دعا ہوں کہ مولاے پاک اپنے محبوب پاک
صاحب لولاک ﷺ کے طفیل ہم سب کو اس ماہِ مبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اس میں خوب خوب عبادت و ریاضت کی توفیق بخشے۔ اور خصوصاً ہم
خادمانِ امت کو زیادہ سے زیادہ خدمات دینیہ و علمیہ کی توفیق خیر مرحمت
فرمائے۔ (آمین۔ بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ و افضل التسلیم) |
|