کباڑ لائبریری!

اخبار کے اندرونی صفحہ پر شائع ہونے والی دو کالمی تصویر نے چونکا دیا، ٹوٹی پھوٹی الماریوں میں نہایت بوسیدہ اور بے ترتیب کتابیں پڑی ہیں، اگر ساتھ ہی خبر میں اس تصویر کی وضاحت موجود نہ ہوتی تو بھی یہ کسی کباڑ خانے کا منظر ہے۔ تاہم خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوٹ سلطان کی پبلک لائبریری ہے، جو تقریباً دو عشرے قبل ضلع کونسل کی حکومت نے قائم کی تھی، بعد ازاں اس کا کوئی وارث نہ رہا، تو اس لائبریری کو کباڑ جانتے ہوئے کسی بااختیار افسر کے حکم پر لیہ کے تحصیل آفس پہنچا دیا گیا، اور وہاں اس سے کباڑ کی رونق بڑھا دی گئی۔ اب یہ لائبریری تو موجود ہے، مگر الماریاں ٹوٹی ہوئی اور کتابیں سالہاسال کی گرد میں اٹی، خستہ اور پھٹی پرانی ہیں۔ اس کباڑ خانے میں یقینا بہت ہی کم اہلکاروں کا جانا ہوتا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ یہاں سے بہت سی کتابیں چوری ہو چکی ہیں، بہت سی نایاب کتابیں دیمک کا رزق بن چکی ہیں، اور نہ جانے کتنی اہم کتابیں اب بھی بوسیدہ ہو کر مٹی میں مٹی ہونے جارہی ہیں؟ پبلک لائبریری ایسے ہی نہیں بنتی، اکیس برس قبل کوئی ایسا افسر ضلع کونسل میں تعینات ہوا ہوگا، جس نے لائبریری کا تصور پیش کیا ہوگا، یا ممکن ہے کہ صوبہ کی سطح پر چھوٹے شہروں میں پبلک لائبریریاں بنانے کا حکم ملا ہو۔ عمل تو ہوگیا، مگر اس خزانے کو بچانے کی کوئی کوشش نہ ہوئی۔ ایسا صرف لائبریریوں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا ، بلکہ جس افسر کا جو مزاج ہو، اس کے مطابق وہ اپنے زیر کنٹرول علاقے میں جو منصوبہ بندی چاہتے ہیں کردیتے ہیں، اب اس کے بعد آنے والے افسر کی مرضی کہ اس منصوبے کو جاری رکھے یا کباڑ خانے میں پھینک دے۔ عام شہروں میں ایسے بے شمار مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، کوئی عمارت کھنڈر بنی ہوتی ہے، کوئی پارک ویرانہ بن چکا ہوتا ہے، کوئی انتظار گاہ ٹوٹ پھوٹ چکی ہوتی ہے۔ کسی نے تصور پیش کیا، اور اپنے تخیل میں رنگ بھر دیا، آنے والے نے اس پر پانی پھیر دیا، کیونکہ اس کا مزاج پہلے سے مختلف تھا۔ یہی کچھ اس لائبریری کے ساتھ ہوا۔

اس لائبریری سے کتابیں چوری ہونا ایک فطری عمل ہے، ’’چور‘‘ اس لائبریری کی حالت کو دیکھتے ہوں گے، پھر وہ سوچتے ہونگے کہ اگر ہم یہاں سے کتاب اٹھاتے ہیں تو یہ چوری ہے، زیادتی ہے، اور اگر نہیں اٹھاتے تو یہ کتابیں ضائع ہو جائیں گی، دیمک کھا جائے گی، اور بوسیدہ ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھیں گی۔ چوروں نے جو فیصلہ کیا، اس کے بارے میں تو عدالت ہی درست فیصلہ کرسکتی ہے، کہ وہ کتابوں کو دیمک کا رزق بننے کے لئے چھوڑ دیتے، یا پھر انہوں نے جواقدام کیا وہ صحیح تھا؟ مگر عدالت تک بات کہاں جائے گی، اگر کسی ایسے کتاب چور نے کتاب چرا کر جرم کیا تو ان لوگوں کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جائے گا، جن کے ذمے اس لائبریری کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری تھی، انہوں نے اس کو کیوں لاوارث چھوڑ دیا، کیوں اس کی حفاظت نہیں کی؟دراصل کتاب دوستی یا کتاب شناسی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ بہت بڑی بڑی لائبریریوں کے سربراہ بھی ایسے ہیں جو کتاب سے دوستی یا محبت کی تہمت سے آزاد ہیں، انہیں لکھنے کی بات تو بہت دور ، کتاب پڑھنے کی توفیق بھی نہیں ہوتی، بس برسہابرس وہ ملازمت کے چکر میں لائبریریوں کے انچارج بنے بیٹھے ہیں، یوں جانئے کہ وہ محض انتظامی افسران کہلا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت ہی کم ایسے لائبریرین موجود ہیں، جو خود بھی پڑھنے لکھنے والے لوگ ہیں(یا تھے)، ورنہ تو بس ملازمت کے تقاضے نبھائے جارہے ہیں۔

یہ تو بڑی اور باقاعدہ لائبریریوں کا معاملہ ہے، مگر یہ چھوٹے قصبوں یا ٹاؤنز میں یا پھر مختلف زونز میں پبلک لائبریریوں کی حالت کوٹ سلطان والی لائبریری سے قطعاً مختلف نہیں۔ حکومت ایسی سکیمیں تیار کرتی ہے اور عمل کروانے کے لئے افراد اور افسران کی دلچسپی صفر ہوتی ہے۔ لائبریری سے دلچسپی لینے والے افراد کی تعدا د اپنے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، تو پھر کیسے ان کو سنبھالا جاسکتا ہے، کون ان کی حفاظت کرے گا۔ یہاں تو بڑی لائبریریوں سے چھوٹے بڑے بیوروکریٹ کتابیں لے جاتے ہیں اور لے جاتے ہوئے بھی ان کا واپس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا، یہ رویہ بھی کتاب دشمنی ہی کہلائے گا ، کہ جو چیز آپ کو پسند ہے وہ اٹھا لیں، حالانکہ وہ پبلک پراپرٹی ہوتی ہے، اس پر سب کا حق ہوتا ہے۔ کوٹ سلطان کی اس چھوٹی سی لائبریری کا نوحہ کیا پڑھنا کہ یہ عمل تو بااختیار لوگوں کی ترجیح میں ہی شا مل نہیں۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472741 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.