"اماں بهت پیاس لگ رهی هے افطار میں شربت
بنا دینا-" آج پهلا روزه تھا گرمی کی شدت معمول سے کهیں زیاده تھی انسان
کیا،حیوان کیا سبھی اکتائے بیٹھے تھے شاه خاور کا غصه عروج په تھا وه اس
طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے جن کے لیئے زندگی کی آسائشوں کی بجائے
زنده رهنا اهم تھا جن کے روز و شب کا تمام تر محور دو وقت کی روٹی تھا علی
کا باپ معمولی مزدور تھا ایسے طبقے میں محض عبادت اپنے کنبے کے لیئے دو وقت
کی حلال روٹی کمانا هی هوتا هے علی بھی ایسے هی اک گھرانے سے تعلق رکھنے
والا اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا ان کا گھرانه نهایت کسمپرسی مگر سفید
پوشی میں جی رها تھا یوں تو ان کا سارا گھرانه هی بهت صابر تھا افطار میں
ابھی مزید ساڑھے تین گھنٹے رهتے تھے علی پیاس کی شدت کے باعث متواتر خشک
هوتے هونٹوں پر زبان پھیر رها تھا عالیه نے چینی کے خالی ڈبے کو حسرت بھری
نظروں سے دیکھا اور اٹھ کر چینی مٹی کے چھوٹے سے مرتبان کے پاس آکھڑی هوئی
اس مرتبان میں وه اپنی چھوٹی موٹی بچت رکھا کرتی تھی اس نے ڈھکن اٹھا کر
مرتبان کے اندر جھانکا تھوڑی سی ریگزاری کچھ سکے مرتبان کے پیندے میں پڑے
تھے اس نے وه روپے اٹھائے علی کی انگلی تھامتی چادر اوڑھتی باهر نکل گئی
دکان پر پهنچ کر اس نے آدھ کلو چینی تلوائی مگر پیسے دیتے وقت پیسے کم پڑ
گئے - " اے کیوں بھیا کل تک تو آدھ کلو کا یهی دام تھا " وه شرمنده هوتی
گویا هوئی " آج سے رمضان شروع هوا هے باجی چیزوں کے دام بڑھ گئے هیں" اس نے
سر جھکا لیا اور ایک پاؤ چینی لے کر گھر کی طرف چل دی "اماں همیشه رمضان
آنے پر چیزیں مهنگی کیوں هو جاتی هیں" علی نے معصومیت سے پوچھا مگر وه ان
نام نهاد مسلمانوں، جن کا مقصد رمضان میں صرف دھیاڑیاں لگانا هوتا هے کے
متعلق بتا کر اس کا دل خراب نه کرنا چاهتی تھی سو خاموشی سے چلتی رهی -
"همارے گھر آج افطار کی دعوت هے خوب مزے مزے کے پکوان بنیں گے تمهارے گھر
کیا پکے گا سوکھی روٹی اور چٹنی - " اسامه اپنے دو منزله پکے بنے مکان کی
چھت پر سے چچا کے کچے مکان کے صحن میں جھانکتےهوئے تمسخانه لهجے میں بولا
جهاں علی صحن کے اک طرف لگے پودینے کے پتے توڑ رها تھا تاکه ان کو کوٹ کر
سالن بنایا جا سکے - جوابأ وه سنی ان سنی کرتا اندر چلا گیا - علی نهایت
صابر اور حساس بچه تھا جو اپنے ماں باپ کی مجبوریوں کو اچھی طرح سمجھتا تھا
اسی لیئے کبھی کسی مهنگی چیز کے لیئے ضد نه کرتا تھا مگر خود بیٹھا کڑھتا
رهتا- جب عالیه کمرے میں داخل هوئی تو اسے گرمی میں پسینے میں شرابور بیٹھے
دیکھا- "کیا هوا علی-" وه اس کے پاس بیٹھتے هوئے بولی "اماں الله میاں نے
همارے ساتھ ناانصافی کیوں کی همیں کیوں دولت نهیں دی اور اسامه لوگوں کو
کیوں اتنی دے دی که وه اتراتے پھرتے هیں اور هم سے بات بھی کرنا پسند نهیں
کرتے -" آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو جھلملاتے دیکھ کر عالیه کا دل کٹ کر ره
گیااس کا بس چلتا تو وه هفت اقلیم کی دولت اپنی اولاد کے قدموں میں ڈال
دیتی مگر وه مجبور تھی تقدیر کے لکھے پر اس کا بس نه تھا-"بیٹا الله میاں
تو اپنے سب بندوں سے بهت محبت کرتے هیں وه کسی کے ساتھ ناانصافی نهیں کرتے
-" اس نے علی کو بهلانا چاها " تو پھر همارے پاس اسامه لوگوں جیسا بڑا گھر
اور اچھے اچھے کپڑے مزیدار کھانے کیوں نهیں هیں -" وه بے صبری سے اسکی بات
کاٹ کر بولا- " علی بیٹا الله میاں هماری آزمائش لیتے هیں کسی کو آسائشیں
دے کر آزماتے هیں تو کسی کوبھوکا رکھ کر آزماتے هیں یه دنیا تو صرف امتحان
گاه هے بیٹا اگر آپ تھوڑا کھا کر بھی صبر شکر ادا کرو گے تو آخرت میں الله
بهت بڑا انعام دیں گے جنت جهاں دنیا جهان کی هر نعمت پائی جاتی هے- " وه
مضبوط لهجے میں بولی - -علی کو لگا جیسے اسے کامیابی کی کنجی مل گئی هو وه
اٹھا اور وضو کرکے ظهر کی نماز ادا کرنے چلا گیا-
افطار کا سائرن هوا تو وه تینوں نفوس دسترخوان پر آبیٹھے جس پر سوکھی روٹی
چٹنی اور ساده پانی کا جگ دھرا تھا اس نے افسردگی سے علی کو دیکھا جس کا آج
پهلا روزه تھا ساتھ والے گھر سے انواع و اقسام کےکھانوں کی خوشبو اٹھ رهی
تھی کیا "کیا هو جاتا اگر وه لوگ آدھے شھر کو کھلائی جانے والی اس پر شکوه
دعوت میں اپنے غریب بھائی کو بھی بلا لیتے ایک دن میرا بیٹا بھی اچھا کھانا
کھا کر خوش هو جاتا -" حماد نے بھائی کے گھر کی طرف دیکھتے هوئے سوچا اور
پھر علی کے معصوم چهرے کو حیرت سے دیکھا جهاں کوئی ملال نه تھا بلکه روزه
رکھنے کی خوشی اور دنیا جهان کی طمانیت رقم تھی- اور جو رغبت سے کھانا
کھانے میں مصروف تھا اسکے چهرے کی خوبصورت مسکراهٹ انکو بھی سکون دلا گئی
کیونکه وه جانتے تھے رمضان کا مقصد اچھا کھانا کھا لینا یا امارت کا چرچه
کرتی دعوتیں نهیں بلکه صبر و قناعت اور اک دوسرے کا احساس کرنا هے- |