لمحہ کن

آپی .... آپی !
ثناء کی آوازیں گھر بھر میں گونج رہی تھیں ، ایک ایک کمرے میں تلاش کرتی بالآخر وہ کچن میں داخل ہوئ .
اف ! تو یہاں ہیں آپ ! جلدی سے بتائیں ، کیسی لگ رہی ہوں ؟
وہ بےتابی سے بولی .
آمنہ نے نے بنظرغائر اس کے چہرے کا جائزہ لیا اور پھر تبدیلی نوٹ کرتے ہی اس کا چہرہ اتر گیا اور سوز کے آثار نمایاں ہونے لگے .
اس افتاد پر تو ثناء ہکّا بکّا رہ گئ .
کیا ہوا آپی ، آپ اتنی پریشان کیوں ہو گئیں آخر ، کچھ تو بتائیں ؟
ثناء ! ایمانداری سے ایک بات بتاؤ کہ اگر کامران تم سے ناراض ہوجائے توتمہارا ردعمل کیا ہوگا ، کیا تم اس سے بھی بے پروائ اور لاتعلقی برت لوگی ؟
ہرگز نہیں ! اللہ نہ کرے آپی ، میں کامران کی ناراضگی ایک پل کے لئیے بھی برداشت نہیں کر سکتی ، میں تو جیتے جی مر جاؤں گی .
ثناء فوراً تڑپ کر بولی .
تو پھر قادر مطلق اور ستّر ماؤں سے بھی بڑھ کر شفیق ذات کی ناراضگی مول لینے کی جسارت کیسے گوارا کرلی تم نے ؟
کیا مطلب آپی ؟ پہیلیاں مت بجھوائیں پلیز !
اپنی بھنوؤں کی نوک پلک سنوار کر تم اتنی خوش ہورہی ہو ، گویا ربّ العزت کے حکم کو پامال کرنے اور اس کی دھجیاں بکھیرنے کی قیمت پر من سمجھوتی کا سامان کیا ہے تم نے !
اتنے گھاٹے کا سودا کیسے کر لیا تم نے ؟
راکع بننے کی بجائے راکش کی اطاعت قبول کرلی ! ! !
آپی وہ ....
اسے ثناء کی آواز کسی کنویں سے آتی معلوم ہوئ .
دراصل بات یہ ہے کہ مجازی خدا کی اطاعت تو ہر چیز پر مقدم ہے ناں ! تو میں نے کامران ہی کی فرمائش پر یہ سب کیا ہے !
اچھا تو پہلے ایک بات بتاؤ کہ امی اور ابو کی بات کے مقابلے میں میری بات اور خوشی کی تمہاری نظر میں کیا وقعت ہے بھلا ؟
آپی وہ بڑے ہیں آپ سے ، ان کا آپ سے کیا مقابلہ !
تو گڑیا! بالکل اسی طرح سوچو کہ شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری صرف ان کاموں میں ہے جو خالق کے کسی حکم سے ٹکراتے نہ ہوں ، بصورت دیگر ہر بات صفر کی حیثیت اختیار کر لے گی.
اسی لئیے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائ فرمادی ہے :
لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ
"خالق کی نافرمانی کے کسی بھی کام میں مخلوق کی اطاعت کرنا جائز نہیں"
ایک اور حدیث مبارکہ علی صاحبھا الصلوات والتسلیمات میں بھنویں بنانے اور بنوانے والی کے لئیے لعنت کی وعید سنائ گئ ہے .
بالفاظ دیگر اس کام کے عوض ہم سب اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ، فرشتوں اور دیگر تمام مخلوقات کی لعنت ، ملامت اور پھٹکار کو کھلے دل سے قبول کرلیتے ہیں ، نیز یہ گناہ سونے جاگنے ، اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے غرضیکہ ہر ہر حالت میں ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے اور لمحہ بھر کے لئیے بھی ہم سے جدا نہیں ہوتا.اللہ کی رحمت سے دور رہ کر ہمارے بگڑے کام بھلا کیسے سنور سکتے ہیں ، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر اسی حالت میں ہمیں اس دنیائے فانی سے ذہاب کرنا پڑا تو ہمارا حشر مالک کے نافرمانوں کے ساتھ ہوگا گویا ہمارا مقدر خیط اسود کا سا ہوگا ، خاکش بدہن !
اپنی بات مکمل کرکے آمنہ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مارے خفیت کے ثناء کا چہرہ سرخ پڑ چکا تھا جو اس کے اندر کی تبدیلی کا غماز تھا ، گویا لمحہ کن آچکا تھا تو فیکون میں دیر بھلا کب ممکن ہوتی .
وہ دھیرے سے گویا ہوئ :
"آپی آپ نے تو واقعی میری آنکھیں کھول دی ہیں ، میں اللہ رب العزت کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ اب تاحیات اس گناہ عظیم کے قریب بھی نہ پھٹکوں گی "
"جزاک اللہ ! میری بہن اللہ تمہیں استقامت عطا فرمائے "!
آمنہ نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا .
از قلم : بنت میر
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 24 Articles with 20451 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.