پاناما لیکس پارلیمانی کمیٹی میں اختلاف

پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے ٹرم اف ریفرنس (TORs )کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی جس کو پارلیمنٹ کی طرف سے دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا کہ دو ہفتوں کے اندر اندر اپوزیشن اور حکومت کے ارکان ٹی او آرزبناکر سپر یم کورٹ کے حوالے کر دینگے لیکن دو ہفتے کا وقت گزرنے کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے چھٹے اجلاس میں بھی اختلاف برقرار رہا، اپوزیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی ٹی او آرز کو حکومت ماننے کیلئے تیار نہیں جبکہ حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ٹی او آرزپر اپوزیشن راضی نہیں ۔حکومت چاہتی ہے کہ ٹی او آرز سے وزیراعظم کانام نکلے تاکہ ان سے تحقیقات نہ ہو جبکہ اپوزیشن کا اصرار ہے کہ ایسے ٹی او آرز ہو جس میں سب کا احتساب ممکن بنا دیا جائے جس کا تعلق جس پارٹی سے بھی ہو ان سے جوڈیشل کمیشن بلاخوف تحقیقات کرے۔تحقیقات وزیراعظم سے ہی شروع ہونا چاہیے تاکہ دوسروں کا اعتراض نہ ہو اور وزیراعظم ملک کا سربراہ ہے۔ٹی او آرز کیلئے اب تک ہونے والے تمام میٹنگ بے نتیجہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔حکومت ہر صورت میں وزیراعظم کو بچانا چاہتی ہے کہ وہ تحقیقات کی ذد میں نہ آئے دوسرا حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ ایسے ٹی او آرز مرتب ہوجس میں جوڈیشل کمیشن کی تحقیقاتی ٹیم بے بس ہو اور ان کے پاس اختیارات نہ ہو۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سنیئر وکیل اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ہم نے یعنی اپوزیشن نے حکومت کے 75فی صد ٹی او آرز تسلیم کرلیے ہیں۔اب حکومت ہمارے 25 فی صد ٹی اوآرز تسلیم کرے جس کیلئے جمعے کا وقت دیا گیاہے ۔ حکومت اور اپوزیشن کی سوچ اور خیالات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ کمیٹی بغیر کسی نتیجے پر ختم ہوجائے اور معاملات جوں کے توں رہے۔دوسری رائے یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ حکومتی ارکان صرف ٹائم حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ بیس تاریخ تک وقت حاصل کرے اس کے بعد سپریم کورٹ کی تین مہینے کی چھٹی شروع ہوجائے گی اور اس طرح معاملہ دب جائے اور اپوزیشن سمیت لوگ پانامالیکس کو بھول جائیں گے ۔

اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ وزیر اعظم اوران کے خاندان نے بیرونی ممالک دولت پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے بجھوائی اور ان کھر بوں روپے کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں کہ وزیراعظم کے خاندان کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے اور انہوں نے بیرونی ممالک کے بنکوں میں یہ رقم کیسے منتقل کی اور اس پر کتنا ٹیکس دیا۔وزیراعظم کا قوم سے خطاب ہو یا پارلیمنٹ ہاؤس میں تقریر دو نوں خطاب میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ تحقیقات مجھ سے شروع کی جائے لیکن اب جبکہ تحقیقات نہیں صرف ٹی او آرز بنائے جارہے ہیں اس کو حکومت اور وزیراعظم کی ٹیم ماننے کیلئے تیار نہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے اور حکومتی ٹیم کی پوری کوشش ہے کہ اس کالی دال کو قوم کی نظروں سے بچایا جائے۔اگر وزیراعظم پانامالیکس میں بے گناہ ہوتے یا ان کی بیرونی ممالک دولت قانونی طریقے سے بھجوا دی گئی ہوتی اور یہ دولت کرپشن اور لوٹ مار سے حاصل نہ کی ہوتی تو حکومت کبھی بھی اپوزیشن کے مطالبات سے نہیں گھبراتی بلکہ اپوزیشن کے مطالبات اور تحقیقات پر من و عن عمل کرتی لیکن چونکہ معاملہ مختلف ہیں حکومت کو معلوم ہے کہ اگر ایک دفعہ یہ صندوق کھل دی گئی تو اس میں بہت کچھ سامنے آئے گا لہٰذا جس طرح ہوسکے پاناما لیکس کے تحقیقات سے وزیراعظم کو بچایا جائے ، حالات جس طرف بھی جائے وہ بعد میں دیکھی جائے گی۔اب صرف وقت پاس کیا جائے۔

حکومت کی یہ بھی سوچ ہے کہ ہم نے تین سال گزار دیے اور اب چوتھا بجٹ بھی پیش کردیا ہے جس پر عوام اور اپوزیشن کی طرف سے کافی اعتراضات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ اس بجٹ میں عوام کیلئے کچھ نہیں ، عوام پر ٹیکسوں کابوجھ مزید بڑھا دیا گیا ہے ۔ عوام کی نظروں میں حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ ان حالات میں اگر انتخابات ہوتے ہیں تو حکومت کو سوٹ کرتی ہے یعنی حکومت نے اپنے چار سال بھی پورے کر دیے اور عوام کو یہ جواز بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو کام کرنے نہیں دیاگیا۔ ہماری تر قیاتی پالیسی اور پروجیکٹ آنے والے تھے جس میں ملک سے غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی اور بجلی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرناتھا لیکن اپوزیشن کی جانب سے ہمیں موقع نہیں دیا گیا اس لئے ہم یہ کام نہ کر سکے۔ ملک میں غربت ، بے روزگاری اور مہنگائی کا طوفان تو اپنی جگہ لیکن بجلی لوڈشیڈنگ میں تین سال گزرنے کے باوجود کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ آج چاروں طرف احتجاج ہی ہو رہاہے، رمضان میں بھی حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومت کی موجودہ پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے لگ یہ رہا ہے کہ 2018میں بھی بجلی لوڈشیڈ نگ خاتمہ نہیں ہوگی ،حالات ایسے ہوں گے جس طرح اب ہیں ۔ ہم بات کررہے تھے ٹی او آرز پر ڈیڈلاک کی تو یہ ڈیڈلاک حکومت کو فائدہ دے رہی ہے ۔ حکومت چاہتی ہے کہ حالات خراب ہوجائے اور ہمیں غازی ہونے کا اعزاز حاصل ہوجائے لیکن اب عوام جان چکی ہے کہ حکومت کے دعوے صرف دعوے ہیں، حکومت ہرسطح پر ناکام ہوچکی ہے ۔ ملک کے حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔حکومت کی سوچ ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج یا حکومت کے چلے جانے میں وزیراعظم میاں نواز شریف کا بلا ہے اور اس طرح پاناما لیکس تحقیقات نہ ہوجائے ۔ ملک میں مخلص قیادت اور صحیح لوگوں کو منتخب کرنا ہوتو عوام کو بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئندہ ایسی پارٹیوں اور شخصیات کو ووٹ نہیں دینا ہے جو کرپٹ ہو جن کو عوام کی نہیں بلکہ اپنی جیب کی فکر ہو۔تب ملک میں مخلوص قیادت سامنے آسکتی ہے۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226250 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More