یہ کُرسیوں کے کیڑے۔۔۔۔
(Talib Ali Awan, Sialkot)
’’پاکستانی انتخابات ہوں یا
دھرنے،مارچ ہوں یامیڈیا‘‘ان سے عام رائے کے مطابق بظاہر تو شائدعوام کو کچھ
حاصل نہ ہوا ہو مگر ایک بات تو بہت حد تک واضح اور کھل کر سامنے آئی ہے وہ
یہ ہے کہ باشعور لوگ کافی حد تک لفظ ’’جمہوریت‘‘ کا معنی و مفہوم بخوبی
سمجھ گئے ہیں۔ویسے تو ’’جمہوریت ‘‘سے مراد ’’جمہور یعنی عوام کی حکومت ‘‘کے
ہوتے ہیں :
(Government of the People, By the People, For the People)
ہمارے ہاں چونکہ ہر ایک کی اپنی’’ اصطلاح‘‘ہوتی اس لئے یہاں اس کے اصطلاحی
معنی کچھ اور ہی لیے جاتے ہیں وہ معنی ’’کُرسی ‘‘کے ہیں خاص طور پر حکومتی
حلقوں میں(معذرت کے ساتھ)۔۔۔۔۔کچھ مٹھی بھرساتھیوں کو شائد میری بات کی
سمجھ نہ لگی ہویا میری بات سے متفق نہ ہوں‘ چلوکوئی بات نہیں،آہستہ آہستہ
سمجھ آجائے گی ۔۔۔۔۔۔مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔مثال کے طور پر
ذیل میں ہمارے ملک کے چند اہم رہنماؤں کے فرمودات کا ذکر رہا ہوں ہے جن سے
نام نہادلفظ’’ جمہوریت ‘‘کو سمجھنے میں آسانی ہوگی:
1:۔ہم کسی صورت بھی ’’جمہوریت ‘‘ پر آنچ نہیں آنے دیں گے(تو جمہوریت سے
مراد ’’کُرسی‘‘پر آنچ نہیں آنے دیں گے) ۔
2:۔ہم ’’جمہوریت ‘‘(کُرسی )کی خاطر حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
3:۔’’ہم’’ جمہوریت ‘‘(کُرسی )پر کسی صورت Compromiseنہیں کریں گے۔
:4 ۔’’جمہوریت‘‘(کرسی)کے خلاف سازش ہو رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں جمہوریت بھی’’اصلی‘‘نہیں ملی ،اس میں بھی
اشیائے خوردونوش کی طرح کی طرح ’’ملاوٹ‘‘ہوتی رہی،تبھی تو وطن ِعزیز کو
قائد اعظم کے بعد صحیح معنوں میں کوئی لیڈرہی نہیں ملا جو مُلکِ
خدادادِپاکستان کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لاکھڑا کرتااور اگر ایک ،دو
ملا بھی تھا تو اُن کو موقع ہی نہیں ملا۔دراصل ہمارے ملک کے
وڈیرے،جاگیرداراور بڑے بڑے ’’مگرمچھ‘‘ اس ملک میں’’حقیقی جمہوریت‘‘سرے سے
چاہتے ہی نہیں ہیں ،وہ تو صرف اور صرف اپنی اجارہ داری اور بادشاہت چاہتے
ہیں ۔ایسی ’’بادشاہت ‘‘جس میں وہ جو مرضی کریں کوئی سر نہ اُٹھائے،پیسوں سے
جس کا چاہا ’’منہ‘ ‘ بند کر دیا ،سےّاہ کریں سفید کوئی پوچھے نہ اور اگر
کوئی بولنے کی ہمت کرے بھی تو اس کی جب چاہیں بولتی بند کروا دیں۔ان کو
عوام سے کوئی سرو کار نہیں ،ان کا مقصدِواحدجائزوناجائز طریقہ سے ہر صورت
صرف اور صرف ’’کُرسی‘‘کا حصول ہے اس کے لیے چاہے کوئی ’’مُک مکا ‘‘کرنا پڑے
یاکوئی ’’باری سسٹم ‘‘ ۔ ’’کُرسی ‘‘ملنی چاہیے ،چاہے وہ ’’میثاقِ جمہوریت
‘‘ سے ملے یا ’’مذاقِ جمہوریت ‘‘سے،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہمیشہ عوام سے
قربانی مانگیں گے ،اپنا ایک ’’دھیلہ‘‘قربان کرنے کو تیار نہیں،ان کی
جائیدادیں اور اکاؤنٹس باہر ہیں ان کو پاکستان سے کیا ،یہ تو ’’کرسی کا
کھیل ‘‘کھیلنے تک یہاں ہیں،کھیل ختم۔۔۔اور وہ پھُرسے اُڑجائیں گے کیونکہ یہ
لوگ تو ’’ کُرسیوں کے کیڑے‘‘ہیں۔کیا کریں !سچ تو ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے ۔
بقولِ شاعر:
ہم بچاتے رہے دیمک سے اپنا گھر
اور کُرسیوں کے چند کیڑے سارا ملک کھا گئے |
|