عام آدمی کون۔۔۔؟
(Talib Ali Awan, Sialkot)
اِدھر اسلام آباد میں پہلی مرتبہ بلدیاتی
الیکشن کے لئے مقرر کردہ وقت ختم ہوا تو اُدھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے
پریس کانفرنس شروع کر دی ، بلکل ایسے ہی جیسے دیہاتوں میں شادی بیاہ کا
کھانا ختم ہوتے ہی گھر والے کاپی پینسل لے کر ’’نیوندرا‘‘لینے کیلئے بیٹھ
جاتے ہیں ۔اپنی پریس کانفرنس میں جناب وزیر خزانہ نے عوام پر چالیس ارب کے
نئے ٹیکس کا دھماکہ کر دیا ،ساتھ عالمی منڈی میں گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں،
اوگرا کی تیل کی قیمتوں کو کم کرنے کی سفارش اور عوام کی امیدوں کے برعکس
تیل کی موجودہ قیمتیں برقرار رکھنے کی ’’خوشخبری‘‘بھی سنا دی ۔ اس پر ایک
لطیفہ یاد آرہا ہے’’ایک عورت بس میں بیٹھ کر کہیں جا رہی تھی اس عورت کے
ساتھ ایک بچہ بھی تھا ،عورت کے برابر والی سیٹ پر ایک صاحب بیٹھے ہوئے
تھے۔بچہ ضد کر رہا تھاجبکہ عورت بچے کا دل بہلانے کے لئے باربار کہہ رہی
تھی ’بیٹا !یہ چاکلیٹ کھا لو نہیں تو میں یہ انکل کو دے دوں گی ،یہ چاکلیٹ
کھا لو نہیں تو میں یہ چاکلیٹ انکل کو دے دوں گی ‘وہ صاحب بڑے غور سے
صورتحال پر نظر رکھے ہوئے تھے، عورت کے باربار کے تکرار سے تنگ آگئے تھے
بالآخر بول پڑے ’باجی!جو کرنا ہے جلدی کریں ،میں پہلے ہی تین سٹاپ آگے آچکا
ہوں ۔‘‘
ہمیں بھی تیل کی قیمتوں کو کم کرنے کے حوالہ سے ہر ماہ اسی قسم کی ’’چاکلیٹ‘‘دی
جاتی ہے ۔
موصوف نے مزید فرمایا کہ پہلی سہہ ماہی کے دوران محصولات کی وصولی چالیس
ارب روپے کم ہوئی ہے اس لئے نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت پیش آئی ،حالانکہ یہ
شرط آئی ایم ایف کی طرف سے نئے قرض لینے پر عائد کی گئی تھی ۔جن اشیاء پر
مزید ٹیکس لگایا گیا ہے ان میں پولٹری،دودھ،دہی،مکھن،آم ،امرود،بادام،
مالٹا ، شیمپو،ٹوتھ پیسٹ،پنکھے ،ٹی وی وغیرہ سمیت تقریباً تین سو سے زائد
اشیاء شامل ہیں ۔ اسحاق ڈار صاحب نے سابقہ حکومتوں کی روایت کو دہراتے ہوئے
یہ بھی فرما دیا کہ اس نئے ٹیکس؍ ڈیوٹی سے ’’عام آدمی ‘‘پر کو اثر نہیں پڑے
گا مگروزیر موصوف’’عام آدمی ‘‘کی اصطلاح نہ سمجھا سکے ۔ ماضی میں بھی بجٹ
یا منی بجٹ کے پیش کرنے کے دوران ’’عام آدمی‘‘کا ذکر سنا تھا لیکن اس ’’عام
آدمی‘‘ کا معنی و مفہوم جاننے کی کوشش نہ کی تھی ۔اب کی بار میں نے بڑی
کوشش کی کہ ’’عام آدمی ‘‘ کی تعریف ؍معنی ومفہوم جان سکوں ، لیکن اس’’ عام
آدمی ‘‘ کی اصطلاح معلوم کرنے سے قاصر رہا جو اِن مذکورہ اشیاء کا استعمال
نہ کرتا ہو یا ان کے مہنگا ہونے سے ان پر کوئی اثر نہ پڑتا ہو ۔ پہلے میں
نے سوچا کہ ’’عام آدمی ‘‘شائد کسی نوری مخلوق کا نام ہو گا کیونکہ نوری
مخلوق کو ان بنیادی اشیاء کی ضرورت نہیں ہوتی ،پھر ذہن میں آیا کہ اس مخلوق
پرتوٹیکس لاگو نہیں ہوتا ۔پھر میرا ذہن ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں موجود
’’عام آدمی پارٹی‘‘کی طرف گیا مگر یہ سوچ کر واپس آگیا کہ ہمارے ٹیکس سے ان
کا کیا تعلق ۔۔۔میرے خیال کے مطابق ’’عام آدمی‘‘ سے مراد وزیر ،مشیر،
پارلیمینٹرین اور اعلیٰ حکومتی عہدیدران ہی ہیں جن پر اس ٹیکس کا کوئی اثر
نہیں پڑتا ،تبھی تو وہ ایسے منی بجٹ پر بولتے نہیں ہیں ۔ان کو کیا ان کو تو
آج بھی چائے پارلیمنٹ کیفٹیریا میں روپوں کی بجائے پیسوں میں ملتی ہے ۔ |
|