پروفیسر غلام رسول شوق۔۔۔۔اِس کاروان شوق کا سالار اُٹھ گیا
(Dr Izhar Ahmed Gulzar, )
عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب
، شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، دانش ور ، محقق، ماہرِ لسانیات، ماہرِ
تعلیم، سیرت نگار، ہجرت نامہ نگار اور پنجابی زبان و ادب کے عظیم رجحان ساز
تخلیق کار پروفیسر غلام رسول شوق ، علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کا وہ آفتابِ
جہاں تاب جو 21نومبر 1938ء کو موضع کوٹ رام چند، تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور
(ہندوستان) میں چودھری عزیز الدین سوڈھی کے گھر طلوع ہوا اور پوری دُنیا کو
اپنی ضیا پاشیوں سے منور کرنے کے بعد 6فروری 2005اتوار کے روز فجر کی نماز
کے وقت بٹالہ کالونی، فیصل آباد (پاکستان) میں حرکتِ قلب بند ہو جانے کے
باعث ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ محلہ شریف پورہ فیصل آباد کی زمین نے عالمی
ادبیات کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ اتنے بڑے ادیب کا دُنیا سے
اُٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کی رحلت پر بزمِ ادب برسوں تک سوگوار
رہے گی۔
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
ان کی وفات سے پنجابی زبان و ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے
گزشتہ پانچ عشروں میں پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات
انجام دیں وہ تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھی جائیں گی۔
پروفیسر غلام رسول شوق ایک رجحان ساز تخلیق کار تھے جنھوں نے اپنے انفرادی
اسلوب کے اعجاز سے اپنی تخلیقات کو قلب و روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے
والی اثر آفرینی سے مزین کیا۔ ادب اور فنونِ لطیفہ کے فروغ کے لیے اُن کی
خدمات کو دُنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
پروفیسر غلام رسول شوق کی وفات سے شعر و ادب کا ایک باب بند ہو گیا۔ پنجابی
شاعری کا ایک عہد ختم ہو گیا ۔ سیرت و کالم نگاری کا ایک سلسلہ اپنے اختتام
کو پہنچ گیا۔
پروفیسر غلام رسول شوق دس کتابوں کے مصنف تھے جن میں ’’گھر دا
بوہا‘‘(شاعری)، ’’چھلتراں‘‘ (کہانیاں)، ’’دیس دا پاندھی‘‘(ہجرت نامہ)،
’’بریتے‘‘ (کہانیاں)، ’’مشال‘‘(شاعری)، ’’دُھواں دُھخے‘‘ (شاعری)، ’’سٹنٹد
سولز‘‘(دیس کا پاندھی کا انگریزی ترجمہ)، ’’آدابِ رسولؐ‘‘(سیرتِ رسولؐ،
سوانح حیات)، ’’حرفِ شوق‘‘(کالم نگاری) شامل ہیں۔ ان کی ان کتابوں میں سے
اکثر کو انعامات مل چکے ہیں۔ ان کی پانچ کتابیں زیرِ طبع تھیں جن میں
’’فقر‘‘، ’’حبیبی یا رسول اﷲؐ‘‘(پنجابی نعتیں)، ’’دوپہرے شاماں‘‘ (افسانے)،
’’سانجھی بُکل‘‘ (تنقیدی مضامین) شامل تھیں۔
مختلف کالجز کے ’’المعاش‘‘، ’’روشنی‘‘، ’’القمر ‘‘ میگزین کے پنجابی حصوں
کے انچارج بھی رہے ہیں۔ ’’کنٹھا‘‘ ان کا ڈرامہ پی ٹی وی پر نشر ہو چکا ہے۔
ڈرامہ’’ علامہ اقبال عدالت کے کٹہرے میں‘‘ تحریر کر کے سٹیج کر چکے ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق مختلف النوع ہمہ جہت موصوف شخصیت تھے۔ وہ اردو اور
پنجابی شاعری کالم، مضمون اور سیرت نگاری میں نابغۂ روزگار عصر کی حیثیت
رکھتے تھے۔ ان کے افسانے ، ڈرامے ، ناول جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد
(پاکستان) کے ایم اے پنجابی کے نصاب میں شامل کیے گئے ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق بی ایس سی کے بعد ایم اے پنجابی کا امتحان پاس کر کے
گورنمنٹ کالج سمن آباد ، فیصل آباد اور گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آباد
پاکستان میں پنجابی زبان و ادبیات کے طویل عرصہ تک پروفیسر رہے۔ اس سے پہلے
فزیکل ایجوکیشن کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔
6فروری 2005ء کی فجر کی نماز کے بعد وہ اپنے حجرہ میں حسبِ عادت درود و
وظیفہ اور یادِ الٰہی میں مشغول تھے کہ مصلیٰ پر ہی رُوح قفس عنصری سے
پرواز کر گئی۔
کوئی لمحہ بھی کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا
پروفیسر غلام رسول شوق انتہائی مرنجاں مرنج ، ملنسار ، پُرخلوص ، شفیق اور
مخلص انسان تھے ۔ ہمیشہ فروغ ادب میں کوشاں رہے ۔ نعتیہ مشاعروں میں پڑھ
چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اکثر پنجابی مباحثوں کے منصفِ اعلیٰ بنائے جاتے رہے۔
وہ بیس سال تک ڈسٹرکٹ باکسنگ ایسوسی ایشنزکے سیکرٹری رہے۔ پنجاب باکسنگ کا
جج ریفری، ایمپائر، صفی پبلی کیشنز کے سرپرست اعلیٰ، انجمن مغلیہ کے صدر،
پاکستان رائٹرز گلڈ، حلقہ ارباب ذوق کے ممبر اور ریڈیو پاکستان فیصل آباد
کے کمپیئر بھی رہے ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق نے ایف ایس سی میں سرٹیفکیٹ آف میرٹ حاصل کیا تھا۔
بعد ازاں بی ایس سی میں سپورٹس رول آف آنر جیتا۔باکسنگ میں ڈپلومہ ، ایچ پی
ای میں پنجاب میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انھوں نے پنجابی زبان و ادبیات
میں ایم اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور پنجاب بھر میں اول پوزیشن حاصل کی
تھی۔
پروفیسر غلام رسول شوق اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ان کے والدین
زمیندارہ کرتے تھے اور وہ اپنے علاقے کے سرپنچ مانے جاتے تھے۔ گھر میں بہت
ساری سہولتیں میسر تھیں۔ ان کی چار کنال کی حویلی تھی ۔شوق صاحب ساری ساری
رات داستانِ یوسف زلیخا، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال پڑھا کرتے تھے ۔ اس وقت
یہ شاعر نہیں بنے تھے۔ انھیں وہیں سے شاعری کا شوق پیدا ہوا تھا۔(۱)
پروفیسر غلام رسول شوق کی شادی 1968ء میں ہوئی تھی۔ ان کے تین بیٹے اور ایک
بیٹی ہے ۔ ایک بیٹا ایم ایس سی سوشیالوجی ، دوسرے دونوں ایم اے کر کے اپنا
کاروبار کر رہے ہیں ۔
پروفیسر غلام رسول شوق نے 1979ء میں محمد یوسف زاہد علیم اﷲ صفی کے ہاتھ پر
سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت کی تھی۔(۲)
انھی سے وہ اردو ، پنجابی اور فارسی شاعری میں اصلاح لیا کرتے تھے ۔ غلام
رسول شوق ادیبوں میں پنجابی شاعری کے میدان میں شریف کنجاہی ، انشائیہ میں
ارشد میر، افسانہ میں انور علی ، نعت میں حفیظ تائب، اردو نظم میں ڈاکٹر
وحیدقریشی اور فلسفہ میں واصف علی واصف کو بہت پسند کرتے تھے۔ واصف علی
واصف کی محافل میں انھیں بیٹھنے کے متعدد مواقع میسر ہوئے پہلی بار واصف
علی واصف سے ان کی ملاقات 1972ء میں ہوئی تھی۔
پروفیسر غلام رسول شوق نے تخلیق فن کے لمحوں میں اپنے خیالات، احساسات اور
جذبات کو نہایت مؤثر انداز میں پیرائیہ اظہارمیں بیان کیا ہے۔ وہ اپنے
تجربات اور مشاہدات کو اپنے فکر و فن کی اساس بناتے تھے اور اس آب و گل کی
وسعت میں وہ اپنی دور بین نگاہوں سے آنے والے دور کی ہلکی سی تصویر دیکھ
لیتے تھے۔پروفیسر غلام رسول شوق کی زندگی قناعت ، صبر ورضا، استقامت، توکل
، ایثار، انسانی ہمدردی اور خلوص و دردمندی کی اعلیٰ مثال تھی۔ وہ بڑے ہی
ملنسار ، شفیق ، پُرخلوص ، پیکر عجزو انکسار اور درویش صفت ولیٔ کامل تھے۔
وہ چار سلاسل طریقت سے بیعت یافتہ اور خلعت خلافت یافتہ تھے۔وہ ہر حال میں
راضی بہ رضا نظر آتے تھے اورنامساعد حالا ت میں بھی کبھی صرف شکایت لب پر
نہ لاتے تھے۔ وہ اپنی ذہنی تسکین اور روحانی مسرت کے لیے نفس پر توجہ دیتے
تھے اور وہ لائحہ عمل اختیار کرتے جو عملی زندگی میں قابلِ عمل ہو اور اس
کی راحت و سکون کی توقع بھی ہو۔ کالم نگاری کے میدان میں انھوں نے بہت
تعداد میں کالم لکھے جو شہر کی متعدد اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ ان کے کالم
بڑی دل چسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ ان کے کالم معاشرتی زندگی کے جملہ معاملات
اور مسائل کا بھرپور احاطہ کرتے تھے۔ ان کی دور بین نگاہ سماجی زندگی تک
پہنچ جاتی تھی جو عام آدمی کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق کی ایک پنجابی نظم ’’بدلیاں رُتاں‘‘ جس میں بدلتی
قدروں کا نوحہ بیان کیا گیا ہے۔ وہ جس مشاعرے میں بھی جاتے، لوگ فرمائش کر
کے بار بار سنتے اور واہ واہ کی صدائیں اُس وقت تک آتی رہتی جب تک شوق صاحب
اپنی مسند پر آ کر نہ بیٹھ جاتے ۔ قارئین کی نذر نظم ’’بدلیاں رُتاں‘‘ ۔
نہ اوہ رہے زمانے منج دے
نہ ہن دسن دھوتیاں کنج دے
نہ بنیاں تے کاں ہن بولے
نہ سَردل تے گھئیو کوئی ڈولھے
نہ چرخا ، نہ تکلا رہیا
نہ مکھن نہ ٹُکر بہیا
نہ چاٹی نہ رہی مدھانی
نہ ٹِنڈاں وِچ چھلکے پانی
نہ بھٹھیارن جوں ہن بھنے
نہ چھوری کوئی دھوناں گھنے
نہ کوئی دَھیاں مَل مَل نہاوے
نہ کوئی روہ وچ لسی پاوے
نہ گاٹی نہ ہوٹے رہے
نہ پھلیاں تے جٹی بہے
نہ کھاڑے نہ گھبرو گجن
ہوئے پروہنے بیلی سجن
نہ سانجھاں دی رہی پٹاری
نہ سکھاں دی بنے نہاری
نہ مجھاں نہ رہے لویرے
گھر گھر وچوں گئے سویرے
نہ رینی تے دُدھ ہن کڑھدا
نہ بابو کوئی کھارے چڑھدا
تھڑے رہے نہ تھڑیاں والے
نہ رہے کھرے گھراں دے چالے
اڈو، اڈ رسوئیاں ، ہوئیاں
وکھرے چلھے ، وکھریاں ڈھوئیاں
اکھ دا پانی مر مُک گیا
ڈنڈی رہی نہ سانجھا پئیا
ہل پنجالی تھک ہنب ہاری
گڑدا گاگر بھرے نہ ڈاری
مُک چُک گئیاں سکھیاں سئیاں
خالی چھابے سکھنیاں بئیاں
پگ چُنی وی ہوئی پروہنی
لچ پُنے دی ہووے بوہنی
کیبل آن ڈُھکی وچ گھر دے
شرم و حیا دے لہہ گئے پردے
سجناں دی سجنائی مُک گئی
کھری نرول کمائی مُک گئی
مُک گیا جی آیاں نُوں کہنا
مُک گیا ڈھڈوں رَل مِل بہنا
کھوہ دیاں ٹنڈاں تھک ٹٹ گئیاں
کِتے نہ دِسن پینگاں پئیاں
بڈھڑی دا کوئی کھونڈ نہیں پھڑدا
رحمت دا نہیں بدل ورھدا
سُنّے پنڈ دے دارے لگن
بابے گھراں چ بھارے لگن
سکھاں دا نہیں وسدا ساون
دُھپاں تلخیاں ودھدیاں جاون
ودھدے جاون سڑی سیاپے
بندہ بندیاں جہیا نہ جاپے
واہ وا اساں ترقی کیتی
اُدھڑی اساں توں گئی نہ سیتی
چارے کھونجاں رو رو تھکیاں
مرزے مار دے نیں بکیاں
سانجھاں راہ وچ رہ گئیاں نیں
جپھیاں گہنے پے گئیاں نیں
ٹُر گئے سجن میٹ مکا کے
باہئیاں دی تھاں سیرو پا کے
کنج کلیاں کوئی بچیاں پاوے
کنج کلیاں کوئی ٹل بناوے
کِنج گٹیاں وچ دھوناں دئیے
کِنج وسیے کِنج جگ تے رہیے
بُجھ چلیا اے چلھا گھر دا
کیہ بنو گا ایس نگر دا
سُنے سکھنے پئے نیں بیلے
وسدے پئے نیں سب کمیلے
کنج اکواسی روٹی تھلاں
کنج لکوواں دل دیاں چھلاں
پتنوں لنگھیا جل نہیں مڑدا
موچھے لنگھیاں ایہ تن نہیں جڑدا
شوقؔ کیہ لوکیں پیار ہنڈاون
دو ڈنگھ جھال نہیں جھلدی داون
پروفیسر غلام رسول شوق ایک وسیع المطالعہ ادیب تھے ، تدریسِ ادب میں انھوں
نے اس قدر مہارت حاصل کی کہ ہزاروں تشنگانِ علم اس سرچشمہ علم سے سیراب
ہوئے۔ دُنیا بھر میں اُن کے شاگردان موجود ہیں جن کو اس نابغہ ٔ روزگار
معلم کی رہنمائی میں ذرے سے آفتاب بننے کے مواقع نصیب ہوئے اور ان شاہین
بچوں نے کُندن بن کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1998ء میں اپنی مدت
ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو گئے تھے۔ اس کے بعد بھی انھوں نے درس و
تدریس سے ناطہ ختم نہ کیا بلکہ چند نجی تعلیمی اداروں میں اپنی پیشہ ورانہ
مہارت کا لوہا منواتے رہے۔ وہ جس بھی نجی کالج میں پڑھانا شروع کرتے تو
راقم (اظہار احمد گلزار) کو اُس کالج میں اپنی آمد کا بتانا نہ بھولتے اور
رابطے کی تاکید کرتے اور مسلسل اپنے احباب سے رابطہ میں رہتے۔
پروفیسر غلام رسول شوق کو اُن کی بے مثال ادبی خدمات کے اعتراف میں ساندل
بار ایوارڈ ، شاہ لطیف ایوارڈ ، شاہ حسین کلچرل ایوارڈ، بابا فرید گنج شکر
ایوارڈ، بری نظامی ایوارڈ، صائم چشتی ایوارڈ، فیصل آباد بورڈ ایوارڈز کے
علاوہ بے شمار تعریفی اسناد اور کیش پرائز شامل ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق کی تصانیف
۱۔گھر دا بوہا(پنجابی شاعری)
پروفیسر غلام رسول شوق کا اولین پنجابی شعری مجموعہ ہے جو 15دسمبر1979ء کو
منصہ شہود پر آیا۔ ’’مڈھلی گل‘‘ میں شوق صاحب رقم طراز ہیں:
’’گھر دا بوہا‘‘ میرا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ جس میں پچھلے پندراں سالوں کی
منتخب غزلیں شامل ہیں۔‘‘(۴)
’’گھر دا بوہا‘‘ میں اپنی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میری شاعری میں سے کوئی ایک منظر کسی ایک سوچ پر پڑھنے والے غور کر لیں
تو میں سمجھوں گا کہ میری سوچ کارگر ثابت ہوئی۔ میری محنت بار آور
ہوئی۔‘‘(۵)
’’گھر دا بوہا‘‘ ایک علامتی نظم ہے جس کی تشبیہ انھوں نے باپ سے دی ہے۔
اپنے باپ سے ، کسی بھی باپ سے ، کسی بھی سرپرست سے، ہر اس باپ پر یہ نظم
صادق آتی ہے جو ساری حیاتی زمانے کی تند و تیز تلخیوں اور دُھوپ بھری زندگی
میں محنت اور مشقت کر کے اپنے بچوں کو پالتا ہے ۔ ان کی نگہداشت کرتا ہے۔
اُن کو پروان چڑھاتا ہے۔ ان کے دُکھ سُکھ کا خیال اپنی جان سے زیادہ کرتا
ہے۔ جیسے دروازہ ساری زندگی گھر کی حفاظت ، چوکیداری اور نگہداشت کرتا کرتا
آخر ایک دن تمام قبضے، کیل ڈھیلے اور لکڑی میں تریڑیں پڑ جانے سے اپنی طاقت
کھو بیٹھتا ہے اور پھر کسی روز اچانک دھڑام سے زمین پر آ گرتا ہے ۔۔۔۔بعین
ہی گھر کا سرپرست ، گھر کا نگہبان باپ بھی حالات کی تلخ اور سخت دوپہروں
اور سرد راتوں کا مقابلہ کرتے کرتے تھک کر زندگی سے ایک دن ہار مان جاتا
ہے۔ یہ نظم غلام رسول شوق کی شہکار نظموں میں شمار ہوتی ہے۔
پروفیسر غلام رسول شوق 1985ء میں جب اُستاد کی حیثیت سے جی سی یونیورسٹی
پہلی بار ہماری کلاس میں آئے تھے تو اُن کے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی
قمر بھی تھے جو ان کا تعارف کروانے کے لیے ہماری کلاس میں تشریف لائے تھے۔
رسمی تعارف کے بعد شوق صاحب سے اُن کا کلام سننے کی فرمائش کی گئی تو محترم
غلام رسول شوق صاحب نے یہ نظم بڑے خوب صورت انداز میں ترجمہ اور شرح کے
ساتھ سنائی تھی۔۔۔۔پھر اگرچہ ہم کالج سے فارغ التحصیل ہو کر اپنی پیشہ
ورانہ مصروفیات میں اُلجھ گئے۔پروفیسر غلام رسول شوق سے جب بھی اور جہاں
بھی ملاقات ہوتی تو میرے کئی دوست فرمائش کر کے اسی نظم کو سننا پسند کرتے
۔ موصوف کا اندازِ بیان بڑا مؤثر اور دل کش ہوتا تھا۔ بسا اوقات وہ یہی نظم
پڑھتے پڑھتے آبدیدہ ہو جاتے اور آنسو ان کی آنکھوں میں چمکنے لگتے ۔ یہ نظم
ہر اس نیک طینت فرمانبردار اولاد کے لیے ہے جو اپنے والد سے ٹوٹ کر پیار
کرتا ہے۔ ان کے مقام اور مرتبے کو پہچانتا اور سمجھتا ہے۔
راقم (اظہار احمد گلزار) نے ریڈیو پر بطور براڈ کاسٹر اپنے متعدد پروگراموں
میں یہ نظم متعدد بار پوری پوری پڑھ کر سنائی ہے۔ میں جب بھی یہ نظم سناتا
تو سامعین بذریعہ فیس بک پیچ SMSکر کے دوبارہ سننے کی فرمائش کرتے۔ کبھی
کبھار ان کا کوئی شاگرد بھی Onlineآ کر بتاتا کہ میں بھی شوق صاحب کے حلقہ
تلامذہ میں شامل ہوں ۔ نظم ’’گھر دا بوہا‘‘ نذرِ قارئین:
اِک سی میرے گھر دا بُوہا
چِٹے پٹ تے متھا سُوہا
ڈُھکدا کھُلدا چیں چیں کردا
دُھپے کھاندا سِی نہ کردا
مہینہ پھانڈے وچ پجھدا رہندا
شِکر دوپہرے رِجھدا رہندا
لوآں دُھپاں نُوں اوہ روکے
اگل واہنڈی سب توں ہو کے
چور اُچکے توں نہ ٹٹ دا
چوتھی پکی سکے رُکھ دا
قبضے کُنڈے سنے چوگاٹھے
بھخدا وانگر گبھرو کاٹھے
ہر کوئی اوتھوں نیوں کے لنگھدا
7نیویاں اکھیاں سنگ دا سنگ دا
7کجھ ورھیاں توں بعد میں تکیا
-تکیا تے پر جَر نہ سکیا
)لکڑ سُک تریڑاں پئیاں
-ہر ریشہ کر وکھرا گئیاں
5اِک اِک پیچ ہویا فِر ڈِھلا
+ہلنا جُلنا ہویا جھِلا
;جھُکھڑاں دی اوہ مار کی سیہندا
3ہر پَٹ اُس دا ہِلدا رہندا
7واج سی اُس دی کھڑ کھڑ کر دی
3فِر وی راکھی گھر دی کر دی
1اِک دِن کُنڈا ہویا نِکّا
-سنے چوگاٹھے ویڑے ڈِگّا
-چھڈ گیا سب کندھاں کولے
)مُک مکا گیا سبھ رولے
1کر گیا لُگا سارے گھر نوں
5سارے گھر دے اِک اِک در نوں
1شوقؔ سبھے ہُن کڑیاں ڈولن
9کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ بولن
اِس نظم کے بارے میں اُن کے اُستاد اور مرشد پروفیسر یوسف زاہد علیم اﷲ صفی
کتاب کے ابتدا میں ’’تعارف اور وچار‘‘ کے عنوان میں رقم طراز ہیں:
’’غلام رسول شوق کی نظم ’’گھر دا بوہا‘‘ سننے کا موقع بھی ملا اور پڑھنے کا
بھی ۔ سچی بات ہے کہ اس نظم کے عنوان اور علامتی انداز نے مجھے بہت متاثر
کیا ہے۔ یہ نظم سن کر شوق صاحب کے اندر سے مجھے ایک گہرے دُکھ دردوں کی
خوشبو آئی۔ وہ دُکھ جو لوہے کو کُندن بنا دیتے ہیں ۔جب میں اس کے قہقہوں کے
اندر جھانکا تو مجھے اُس کے دل اور زندگی پر غموں کے آرے چلتے دکھائی دیے ۔
وہ عشق کا نور جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے ۔ اس نظم میں علامت کے اندر
بہت ہی وسعت اور گہرائی ہے۔‘‘(۷)
’’گھر دا بوہا‘‘ ان کی طویل نظموں کا شعری مجموعہ ہے ۔ ہر نظم کی اپنی
تاثیر اور جاذبیت ہے۔ اگر ایک نظم پڑھنا شروع کر دیں تو پوری کیے بغیر آپ
آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ’’گھر دا بوہا‘‘ سمیت دیگر نظمیں ’’پنجابی زبان‘‘
،’’مرشد‘‘، ’’سچے اکھر‘‘، ’’سپ دی اکھ‘‘، ’’شکوہ‘‘، ’’ماٹی نال کیہ کرنا
پیار‘‘، ’’گُجھے دُکھ‘‘ ،’’پریت‘‘، ’’وچھوڑا‘‘، ’’پورنے‘‘، ’’ممتا‘‘،’’میری
جنت‘‘، گُڈی‘‘، ’’عشق اولڑا‘‘،’’ہاڑے‘‘،’’پینگ‘‘،
’’اُڈیک‘‘،’’مُکھڑا‘‘،’’پھُٹی‘‘،’’بڑھاپا‘‘،’’نوکر مُنڈا‘‘،’’اج دے سجن‘‘،
’’ڈکو ڈولے‘‘،’’حُقے دی نڑی‘‘،’’اِک جوان‘‘،’’قائد اعظم‘‘،’’سانجھی
کندھ‘‘،’’علامہ اقبال تے مینارِ پاکستان‘‘،’’پوِتر
رُکھ۔۔۔پاکستان‘‘،’’راکھے‘‘، ’’انقلاب‘‘، ’’دیس میرے دا حال‘‘، ’’وساکھی دا
میلہ‘‘وغیرہ ان تمام نظموں میں شوق صاحب کا قلم منہ چڑھ کر بولتا دکھائی دے
رہا ہے۔
پروفیسر یوسف زاہد علیم اﷲ صفی ، شوق صاحب کی نظموں کے حوالے سے ’’گھر دا
بوہا‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’غلام رسول شوق کی نظموں میں اپنے دیس پنجاب کی معاشرت اور تہذیب و تمدن
کی خوب صورت اور جاندا ر تصویریں عام نظر آ رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے دیس کے
ان پڑھ اور سادہ لوح لوگوں کے اندر داخل ہو کر دیکھا ہے۔ لوگوں کی معصوم
خواہشوں اور سادہ سوچوں کو بڑے پیارے اور منفرد انداز سے شعر کا رنگ دے کر
امر کر دیا ہے۔ ان کی نظمیں ’’ممتا‘‘، ’’گُڈی‘‘، ’’اُڈیک‘‘، ’’پھُٹی‘‘،
’’حُقے دی نڑی‘‘ پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ ہم کائنات کے کتنے دیدہ زیب اور
حسیں خطے کے لوگوں کے درمیان پہنچ گئے ہیں۔ جہاں آج بھی زندگی اپنے ماضی کی
خوب صورتی اور قدرتی حسن لیے پھرتی ہے۔ جہاں نئی تہذیب کا زہر ابھی نہیں
پہنچا۔ یہ پنجاب کی سرزمین کی تصویریں اور اس کے صاف دِلوں پر پیار کرنے
والے انسانوں کی چلتی پھرتی ، سانس لیتی تصویریں ہیں۔‘‘(۸)
پروفیسر غلام رسول شوق کی نظموں کے الفاظ ، صرف الفاط نہیں بلکہ ہر اُس دل
کی آواز ہے جو دکھوں، دردوں کے گھیرے میں مقید ہو۔ الفاظ مُنہ سے بولتے نظر
آ رہے ہیں۔ دُنیا جہان میں حوصلہ دینے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن کسی کے
دُکھ پر رویا نہیں جاتا۔ رونے والی آنکھ ایک ہی ہوتی ہے جس نے ان دکھوں ،
پریشانیوں سے تاحیات نبرد آزما ہونا ہوتا ہے ۔ اُن کی ایک مختصر نظم ’’آخری
سفر‘‘ میں اِسی نفسا نفسی کی نشاندہی کی گئی ہے:
کچے ڈھیر تے پت جھڑ وانگوں
خلقت دا اِک ٹھٹھ سی
ہنجواں دے پرنالے سن
پر روندی ’’اِکو‘‘ اکھ سی
زندگی ، سوچ اور فکر کے انداز بدلنے سے انسانی زندگی اور خود انسان کے بارے
میں معیار بدل جاتے ہیں اور اسی انداز سے انسانوں کے اپنے جیسے انسانوں کے
ساتھ تعلقات، روابط اور طرزِ عمل میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا
جب انسان کی عظمت ، اُس کی بڑائی اور عزت و احترام کا معیار اُس کا علم و
فضل ، اُس کا نیک سیرتی کردار، اُس کا برتاؤ اور عمل خیال کیا جاتا تھا۔
آدمی جس قدر پڑھا لکھا ، سلجھا ہوا، شائستہ اور مہذب ہوتا ، اُسی قدر وہ
قابلِ عزت سمجھا جاتا تھاکہ لوگ اُس کے علم و فضل اور عزت و احترام کی بنا
پر عقیدت اور محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔یہ روحانی اقدار کا دور تھا
مگر جب مادی قدروں کو پذیرائی ملی تو آدمی کی عزت و عظمت ، بزرگی اور بڑائی
کا معیار اُس کی دولت اور مادی آسائشات ٹھہریں۔ پروفیسر غلام رسول شوق کو
اس بات کا بڑا قلق رہتا تھا کہ انسان کی قدریں بدل گئیں ہیں، خُون کے رشتے
خونی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ شوق صاحب اس بات کا اکثر اظہار کرتے رہتے تھے کہ
لوگ مادی پیمانوں سے عزت کا تعین کرتے ہیں۔ کئی بار تو شوق صاحب بات کرتے
کرتے آبدیدہ ہو جاتے تھے کہ پیار محبت اور عقیدت و احترام کے رشتے قصۂ
پارینہ ہو کر رہ گئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آبادی کی اِس بھیڑ میں صحیح معنوں
میں انسان کی تلاش بڑا مشکل ہو گیا ہے۔ ہر کوئی اپنے مزاج اور مذاق کا مالک
ہے۔بقول اقبال:
مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے
کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ کو
زندگی کی بنیادی قدروں میں تغیر آ چکا ہے۔ جینے کا معیار اس قدر بلند کر
دیا گیا ہے کہ زندگی کہیں پاتال میں منہ دیکھتی رہ گئی ہے۔ آج کا انسان جس
طرزِ زندگی کا عادی ہو چکا ہے۔ آج سے پہلے انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔نظم
’’سپ دی اکھ‘‘ میں اسی کرب کو محسوس کیا جا سکتا ہے:
ساری عمر گزاری بھلیا سوچاں دے نال متھا لا کے
سجنا متراں نوں ازمایا سدھے گھل گھل آپوں جا کے
کوئی وی ساڈے نال نہ ٹریا ، موڈھا جوڑ کے موڈھے نال
چیتے ورگیاں جسماں اوڑک سپ دی اکھ دکھائی آ کے
۲۔مشال(پنجابی شاعری)
پروفیسر غلام رسول شوق کا یہ دوسرا پنجابی شعری مجموعہ ہے جو 20نومبر1995ء
کو ہم خیال پبلشرز فیصل آباد (پاکستان) کے زیرِ اہتمام منصہ شہود پر آیا
تھا۔ اس کا انتساب انھوں نے اپنے استاد اور مرشدی پروفیسر محمد یوسف زاہد
علیم اﷲ صفی کے نام کیا ہے۔ اس میں مجموعی طور پر 105کے قریب نظمیں، سی
حرفی ، حمد، نعت، منقبت، مدح، غزل، گیت، دوہڑے، قطعہ، چو مصرعہ موجود ہیں۔
’’مشال‘‘ کے پیش لفظ میں شوق صاحب رقم طراز ہیں:
’’مشال‘‘ میں وطن کے رہنے والے انسانوں کے دُکھوں ، سُکھوں کو شعروں میں
پرونے کی کوشش کی ہے جو مرنے تک اُن کی روح اور وجود کو اپنی گرفت میں لیے
رکھتے ہیں۔ اس کے اندر عشق کی مقناطیسیت ، ہجر و فراق کی چوٹیں ، وڈیروں کے
استحصالی نظام اور مزدوروں کی ہمت و استقلال کے جذبے اور دیس کی خوشبو کے
رنگ نمایاں ہیں۔‘‘(۱۰)
آ شوقی تینوں عشقے دا اج پہلا سبق پڑھاواں
جس بوہے دی چوکھٹ ملئیے اوسے دے ہو جائیے
اِس دنیا کا تمام نظام خدا ہی کے اختیار و قدرت میں ہے۔ وہی ایک ذات ہے جس
نے کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی ایک مخصوص انداز میں ایک خود کار نظام وضع
کر دیا اور کائنات کی تمام اشیا اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن
مصروف ہو گئیں۔ اس نظام کی نگرانی تنہا اُسی کو سزاوار ہے ۔ اُس کا علم اور
قدرت اس قدر وسیع ہے کہ دُنیا میں کسی وقت ، کہیں بھی ، کسی طرح ، کسی درخت
سے گرنے والا ایک پتا بھی اُس کے علم میں ہے۔ یہ سب کچھ اُس کی بے انتہا
قدرتوں اور قوتوں کی زبردست دلیل ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ خُدا کی ہستی
اپنا ادراک و اعتراف اپنی ذات کے حوالے سے اور اپنی صفات کے حوالے سے کراتی
ہے۔ دُنیا کا یہ زبردست نظم و ضبط اُس کی ذات پر گواہ ہے۔ پروفیسر غلام
رسول شوق ایک ولی اﷲ اور درویش صفت انسان تھے۔انھوں نے اپنی لکھی حمدوں میں
اﷲ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت اور توحید کو جس خوب صورت پیرائے میں بیان
کیا ہے۔ پڑھ کر اُن کی شخصیت کا ایک ایک پہلو ہمارے سامنے آ جاتا ہے ۔ اُن
کی حمدوں میں بڑی شان اور آن بان ہے۔ اُن کی قادر الکلامی اور بدیہہ گوئی
نے اپنے پرائے سب سے لوہا منوایا ہے۔ بلاشبہ اُن کی اپنی شخصیت پُرجوش تھی
چنانچہ جوش اور ولولہ کی کیفیت ان کی شاعری میں نظر آتی ہے۔جس میں ایک شعلہ
نوا خطیب کا آہنگ ملتا ہے۔
اسلام سے محبت ان کی رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی اور سرکارِ دوعالم صلی اﷲ
علیہ واٰلہ وسلم کا عشق اُن کی روح پر چھایا ہوا تھا۔ چنانچہ انھوں نے حمد،
نعت کے میدان میں نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ پروفیسر غلام رسول شوق فرمایا
کرتے تھے کہ ڈھونڈنے والوں کو خُدا ان کے دل میں ہی ملتا ہے ۔ انسان تو
سراپا گنہ گاری ہے۔ ذات خُدا وندی سراپا رحمت و عفووکرم ہے۔ وہی بنجر
زمینوں کو ذرخیزی عطا کرتا ہے اور وہی دلوں کے تاریک پردوں میں نور کی
روشنی پھیلاتا ہے۔
رب سوہنے دی کراں تعریف پل پل جیہدی ذات دیاں کدے نہیں چھاواں ڈھلیاں
اوہدی ذات جہاناں دا بن دائرہ عرش فرش دیاں کندھاں نیں آن ولیاں
صفتاں اپنیاں نُوں کُن آکھیا جاں وکھرے وکھرے اوہ روپاں وچ آن کھلیاں
شوق اوہدا نہیں کوئی شریک جگ تے اوہدے باجھوں مصیبتاں کدوں ٹلیاں
٭
پہلاں کراں تعریف خُدا دی میں جیہڑا سکیاں نُوں کردا ہری جاوے
چھُری عشق دی تے دھرتی کانیاں دی بندہ لکھی جاوے اتے گھڑی جاوے
کالا بدل پہاڑاں توں چڑھے ایسا رحمت نال اوہدی تھاں تھاں ورھی جاوے
اوہدی ذات ہے بڑی رحیم رازق ، بندہ نعمتاں دا شکر کری جاوے
٭
اﷲ تعالیٰ نے ستار و غفاری اپنی صفات بتائی ہیں۔ انسان خطاؤں کا پُتلا ہے ۔
کوتاہیاں سرزد ہو جانا اُس کی فطرت کی کمزوری ہے۔ دُنیا کے معاملات میں
اُلجھ کر ہم سے بہت سی کوتاہیاں اور لغزشیں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ بہت کم لوگ
ایسے ہوتے ہیں جن سے گناہ کا صدور نہ ہو اور جو اپنی کوشش و ریاضت سے
معصیتوں اور کوتاہیوں سے مامون رہ سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں خُدا کی ذات
سراپا مغفرت ہی مغفرت ہے۔ انسان اس کائنات میں خُدا کا خلیفہ و نائب ہے۔
مقصد اس کائنات کی تخلیق اور انسان کی پیدائش کا یہ تھا کہ اس دُنیا میں
خدا کے احکام کا نفاذ ہو ۔ انسان کائنات کی تمام تر قوتوں پر معصرف ہو۔
کائنات کی تسخیر کے بعد وہ اطاعت و عبادات کے اعلیٰ ترین مدارج پر فائز ہو
کر خُدا کی خلافت اور نیابت کا حق ادا کرے لیکن اس دنیا میں آنے کے بعد وہ
اپنے اصل مقصد سے عموماً غافل ہو جاتا ہے۔ دُنیا کی مادی الذائذ اور
دلفربیاں اُسے اصل مقصد سے بھٹکا کر لمحاتی فوائد کی طرف راغب کر دیتی ہے۔
ایسی صورت میں خُدا کی رحمت ، شفقت دوبارہ اسے اپنی پناہ میں لے لیتی ہے۔
انسان بالطبع نیک ہے۔ اپنی برائی پر اصرار نہ کرنے والا اور فوری طور پر
خُدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر اظہار ندامت کرنے والا ایک بار پھر خدا کی
رحمتوں ،شفقتوں اور نوازشوں کا سزاوار ہو جاتا ہے۔ پروفیسر غلام رسول شوق
نے اپنے شعری مجموعہ ’’مشال‘‘ میں ایسی کئی نظموں میں انسان کے باغیانہ
رویہ اور اس کا راستے سے بھٹکنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کی نظموں کے الفاظ
انسان کے ضمیر اور قلب و روح کو جنجھوڑرہے ہیں کہ اے انسان! دُنیا کی ہر
چیز بے حقیقت، عارضی اور جھوٹی ہے ، وہی سچ ، حق اور ہمیشہ رہنے والی ذات
ہے۔
کائنات کا ذرہ ذرہ اُس کے وجود کی گواہی دے رہا ہے۔ اس لیے سب برائیاں چھوڑ
کر اُس کی طرف رجوع ہو جا۔ شوق صاحب ’’مشال‘‘ کی ایک نظم ’’سچے اکھر‘‘ میں
واقعی انمول نگینے تراش رہے ہیں۔
سُن اوہ بندیا! رب دیا بندیا! گل تینوں سمجھاواں
دین دی روح دا مقصد کیہ اے ایہ تیرے کنیں پاواں
لوکاں نُوں پتیاون خاطر پیا توں متھے ٹیکیں
کھڑ کے وچ دربار الٰہی اپنا آپ نہ ویکھیں
گند نال بھریا اندر تیرا خالی نہیں کوئی تھاں
تیرے شر توں خالی نہیں اج کوئی وی گھر دی لاں
سچی لگن بناں نہیں ہونا حل تیرا کوئی جھیہڑا
ہر دے دکھ وچ سانجھی ہونا مومناں کم اے تیرا
ایہ تیری ایہ بلڈنگ اُچی ایہ تیرا پہناوا
ایہ تیرا ایہ جھُگا چولا کالا پِیلا ساوا
رہ جانا اِس دُنیا اُتے خالی ہتھ توں جانا
خورے تیرے حِصے وچ نہیں دو گز بھوں وی آنا
یہ نظم غلام رسول شوق کی فکر و مجاہدے کی منہ بولتی تصویر ہے۔ ایک ایک شعر
میں انھوں نے دُنیا کی بے ثباتی کو دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔پروفیسر
غلام رسول شوق نے دُنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی کو جس احسن انداز میں
بیان کیا ہے وہ صد آفرین و لائق تحسین ہے۔ ان کی سوچوں کا محور ہے کہ
ناپائیداری اور فنا، اس کائنات کی ہر شے کا مقدر ہے۔ اگر بہ نظرحقیقت
دیکھیں تو اس کائنات کا حُسن ، اس کی فنا پذیری اور ناپائیداری ہی میں ہے۔
دُنیا میں کیسے کیسے خوب صورت لوگ آئے ۔ تاریخ نے بہت سے ایسے چاند چہروں
کو اپنے صفحات میں محفوظ کر کے زندہ و جاوید کر دیا مگر کیا وہ مرنے کے بعد
دوبارہ کسی کے سامنے آئے ؟ یقیناًاس کا جواب نفی ہے۔غالب نے تو پھولوں کی
خوب صورتی انھی ماہ رو چہروں کی وجہ سے قرار دی ہے ، فرماتے ہیں:
سب کہاں ، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ تخلیقِ خداوندی کے شہکار ، خوبصورت چہروں کا یوں
پردۂ خاک میں چھُپ جانا بہت غیر معمولی امر ہے ۔ اقبالؒ فرماتے ہیں:
ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کیا حاصل
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی
لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ حسن وجمال اپنی تمام تر حشر
سامانیوں کے باوصف ایک دن خاک کا رزق ہو جانا ہے۔ موت کے فلسفے کو ہمارے
ہاں کلاسیکی اور جدید شعرا نے اپنی شاعری میں کھُل کر بیان کیا ہے۔
نور محمد نور کپور تھلوی اسی مضمون کو یوں بیان کرتے ہیں:
دُنیا کس کی یار ہوئی ہے
دُنیا کا دم بھر دیکھا ہے
٭
حقیقت ہے یہ اور سب کو خبر ہے
کہ دُنیا کی ہر شے فریبِ نظر ہے
رسول کریم صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم سے محبت و عقیدت ایمان کا جزو ہے۔ محمد۔
صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم حضورِ پُرنور صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کا اسمِ ذات
ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے حضور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم تمام
مخلوق سے افضل تمام رسولوں کے تاجدار اور سردار ہیں۔ اسی طرح آپ کا نام
مقدس بھی تمام نبیوں کے بلکہ تمام مخلوق کے ناموں کا سردار ہے۔۔۔۔محمد صلی
اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کا نام بہت بلند ہے۔ پانچوں وقت اذانوں میں نام محمد
صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی منادی ہوتی ہے۔ یہ مبارک نام ایک تحریک ہے۔
عالمِ اسلام کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلے جائیے ۔ہر جگہ ہر مقام پر یہ
مبارک نام ایک قدر مشترک نظر آئے گا۔ دُنیا بھر میں کسی بھی ملک کسی بھی
خطۂ ارض میں بسنے والے مسلمان خواہ وہ یورپ کے سفید فام ہوں ، افریقہ کے
سیاہ فام ، برصغیر ہندو پاک کے گندم گوں یا چین و جاپان کے زرد چہرہ مسلم ،
سب کے سب اسی ایک نام سے وابستہ ہیں۔ قوم ، رنگ و نسل کے گونا گوں اختلافات
کے باوجود یہ سب اگر کسی بات پر متفق و متحد ہیں تو وہ نام محمد صلی اﷲ
علیہ واٰلہ وسلم ہے۔محمد صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم ایک حرفِ شوق ہے۔ اس کو
زبان سے ادا کیجیے تو لب پیوستہ ہوئے جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے شیرینی
کام و دہن میں رچی جا رہی ہے ۔۔۔۔وہ ذاتِ اقدس جس پر رب کریم بھی درودوں کے
گجرے بھیجے ، اُس کے فرشتے بھی درودوں کے تحفے بھیجیں وہ ذات کتنی عظیم ،
ارفعیٰ اور اعلیٰ ہو گی ۔ سبحان اﷲ۔۔۔۔!
پروفیسر غلام رسول شوق ۔۔۔۔بلاشبہ اسم بامسمٰی تھے۔ ساری زندگی غلامِ
۔۔۔۔رسول بن کر گزاری۔ عاجزی و انکساری اور سراپا خلوص و وفا کا یہ پیکر جب
بھی ملتا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ادنیٰ غلام کی طرح ۔۔۔۔غلامیٔ
رسول کی مہک ان کے پورے وجود سے فضا میں رچ بس جاتی۔بلاشبہ کسی بھی صاحبِ
ایمان کے لیے اس سے بڑا اعزاز اور کوئی نہیں کہ اُسے غلامانِ رسول صلی اﷲ
علیہ واٰلہ وسلم اور ثنا خوان محمد صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم میں شامل کر لیا
جائے۔۔۔۔خوش بخت ہیں وہ لوگ جن کے دلوں کے آنگن میں غلامیٔ رسول صلی اﷲ
علیہ واٰلہ وسلم اور عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کے پھول کھلے ہیں
اور ان کی خوشبو ان کے رگ و پے میں بس گئی ہے وہ بڑے نصیبوں والے لوگ ہیں۔
اس سے بڑی دولت پوری کائنات میں نہیں۔ بقول شاعر:
سرکارِ دو عالم کی محبت ہے جو دل میں
اس زینے سے ہر دل میں اُتر جائیں گے ہم لوگ
میرے اُستادِ گرامی! محترم غلام رسول شوق انھی بیدار بخت لوگوں میں سے
تھے۔سچ پوچھیے تو ہجر رسول صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم میں عمر بھر روتی ہوئی
محروم وصال آنکھوں ، چشمِ عقیدت سے بہتے ہوئے آنسوؤں ، تڑپتے ہوئے دلوں میں
مچلتے ہوئے جذبوں کی قسم ، عقیدت ان ہاتھوں کو چومنا چاہتی ہے۔ جو محبوبِ
انس و جاں صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی مدحت کے ہار پروتے ہیں۔ محبت اس
پیشانی پہ بوسہ دینا چاہتی ہے۔ عشق مصطفٰیؐ جس کی سوچ کا محور ہو۔۔۔۔نگاہ
اس رخِ روشن کا طواف چاہتی ہے۔۔۔۔لیکن راقم (اظہار احمد گلزار) کو یہ تمام
مواقع نصیب ہوئے۔ میں نے اُس غلامِ ۔۔۔۔رسول کا بارہا طواف کیا۔۔۔۔بارہا
اُس ہجرِ رسول میں تڑپتی آنکھوں کی زیارت کی۔۔۔۔ اور مدحت توصیف رسولؐ میں
مصروف ہاتھوں کو بوسہ دیا۔۔۔۔یہ میرے لیے کسی انعام اور اعجاز سے کم نہ
تھیں۔ زندگی کے آخری سالوں میں اُن کی طبیعت میں حلیمی، بُردباری ، عجزو
انکساری ، سراپا خلوص اور پیار مزید بڑھ گیا تھا۔ جب بھی ملتے تو کھُلے
بازوؤں اور گرم جوشی سے معانقہ کرتے ایسے محسوس ہوتا کہ روحانیت کا ایک
لطیف جھونکا قلب و روح میں سرایت کر گیا ہے ۔ دل نہال ہو جاتا اور روح کو
سکون میسر ہو جاتا۔۔۔۔
’’مشال‘‘ میں نعت کے ان اشعار میں غلام ۔۔۔۔رسول کا عقیدت بھرا انداز
ملاحظہ ہو۔
درُوداں سلاماں خدا جس تے گھلّے
مکاں لامکاں اوہدے پیراں دے تھلّے
اوہ ہے جیہڑا سارے جہاناں دا مولا
سبھے راز اوہدے نیں کملی دے پلّے
اوہ رحمت دا ساون وسیندا اے تھاں تھاں
اوہدے کرماں نے میرے دُکھڑے نیں ٹھلّے
اوہ صورت نبی پاک دی اﷲ اﷲ
کہ اﷲ وی جس نوں کہوے بلّے بلّے
ملے جے زبان مینوں جبریلؑ دی تے
میں دَساں محمد دے کیہ نیں تجلّے
محمدؐ دا ناں عاشقاں دی عبادت
فدا اوس توں سارے دانے تے جھلّے
نبی غوث ابدال تفصیل اس دی
اوہدے نور دا دیوا تھاں تھاں تے جلّے
٭
میم محمد مُڑ مُڑ چُماں چُم اکھیاں نال لاں
ایہو وِرد وظیفہ میرا ایس تو جاں قربان
دُنیا کی یہ زندگی عارضی اور چند روزہ ہے۔۔۔۔فنا کا عالمگیر اصول کائنات کی
ہر چیز پر لاگو ہے۔ انسانی زندگی واقعی بہت مختصر ہے۔ شاعروں نے اس عرصہ
زندگی کو کلی کیمسکان اور چنگاری کی چمک کہا ہے۔ اہلِ نظر اور اصحابِ تصوف
اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اس لیے یہاں جس قدر وقت ہمیں میسر ہو جائے اسے
غنیمت سمجھنا چاہیے۔ بقول شاعر:
دید وا دید جو ہو جائے ، غنیمت سمجھو
جوں شرر ، ورنہ اہلِ نظر ، جاتے ہیں
غلام رسول شوق ۔۔۔۔ایک عملی صوفی تھے۔ چار سلاسل سے خلعت اور بیعت یافتہ
تھے۔ اس لیے دُنیا کی حقیقت ان پر آگاہ تھی۔ اس زندگی کی ناپائیداری اور
فنا پذیری سے وہ واقف تھے۔ ان کے ساتھ نشست کرتے ہوئے جو مضمون خاص اہمیت
کا حامل ہوتا تھا وہ فلسفہ موت ہی ہوتا تھا۔ اپنی ایک پنجابی نظم ’’جد اگلے
گھر توں جانا ایں‘‘ میں بیٹی کو سمجھانے کے انداز میں وہ عام آدمی سے مخاطب
ہیں۔ ہمارے صوفی شاعروں نے اپنی شاعری میں سمجھانے کا انداز اپناتے ہوئے
عورتوں کو مخاطب کیا ہے۔ پنجابی کے صوفی شاعر شاہ حسین نے ایک چرخے کے گرد
عورت کو بٹھا کر پوری زندگی کا فلسفہ بیان کر دیا ہے۔شاہ حسینؒ اور بلھے
شاہؒ نے تو اپنی کافیوں میں چرخے کے ذریعے معرفت کے رموز سمجھادیے ہیں۔
’’اگلے گھر‘‘ سے مراد بیٹی کا سسرال گھر ہوتا ہے جہاں جا کر اُسے خود تمام
معاملات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے ۔ اس لیے اس گھر یعنی اپنے پیکے
(والدین) کے گھر میں رہ کر کوئی اچھے کسب سیکھ لے تاکہ کل سُسرال میں وہ
تیرے کام آ سکیں۔۔۔۔مراد یہ ہے کہ دُنیا سے رُخصت ہونے کے بعد آخرت کے لیے
ایسی تیاری کر لی جائے جس سے ندامت نہ ہو ۔ شوق صاحب نے اس نظم میں صوفیانہ
رنگ اپناتے ہوئے نظم کو لافانی بنادیا ہے۔
ایہ ٹوٹا چھٹ پکا دِھیئے
لے گُڑ دی چاس بنا دِھیئے
سبھ ایتھے سکھ سِکھا دِھیئے
ایہ کم تیرے سبھ آنا ایں
جد اگلے گھر تُوں جانا ایں
سبھ گوں بھناوے جوں کُڑئیے
نہ وانگ ایانیاں بھوں کُڑئیے
وکھ ہو سی ماس توں نونۂ کُڑئیے
توں اوڑک پچھوتانا ایں
جد اگلے گھر تُوں جانا ایں
اِک روز ہنیری جھُل ویسی
ایہ جوبن کملیئے رُل ویسی
مُڑ ہسنا کھیڈنا بھُل ویسی
کھُس جانا تانا بانا ایں
جد اگلے گھر توں جانا ایں
گل ماں دی بنھ لے پلّے نی
جد سوہریاں پانے چھلّے نی
ایہ پندھ توں کرنا کلّے نی
تینوں کسے نہ توڑ پچانا ایں
جد اگلے گھر توں جانا ایں
چھڈ انکھ انا دی بُو کڑئیے
ایہ ہے بیگانی جُوہ کڑئیے
سبھ کر لے چاک رفُو کڑئیے
توں اپنا ٹانکیا پانا ایں
جد اگلے گھر تُوں جانا ایں
اُن کی دیگر نظمیں بھی اپنے صوتی انگ اور منفرد اسلوب کی وجہ سے اعلیٰ درجہ
کمال تک پہنچی ہوئی ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی اور اس زندگی کے گونا گوں
تجربات و مشاہدات کو کچھ اس طرح اپنی شاعری میں سمویا ہے کہ ان کے کلام میں
ہر طبقے اور ہر مشرب کے انسان کے دل چسپی کا سامان ملتا ہے۔ ان کا کلام ہر
دور کے انسان کے جذبات و احساسات ، خیالات و واردات اور نفسیاتِ انسانی سے
پوری طرح ہم آہنگ ہے ۔ اس خصوصیت نے ان کی شاعری میں رنگینی ، رعنائی اور
آفاقیت پیدا کی ہے۔ غلام رسول شوق زندگی کے شاعر ہیں اور زندگی کا لہو ان
کے کلام میں خونِ رگ و جاں کی طرح دوڑتا نظرآتا ہے۔
زندگی کا کوئی نغمہ ایسا نہیں جو زندگی کے تاروں میں بیدار یا خوابیدہ ہو
اور غلام رسول شوق کے ہاں اس کی صدائے باز گشت نہ ملے۔نظم ’’اِک نصیحت ‘‘
میں واقعی ایک نصیحت پنہاں ہیــ:
اپنے اپنے گھر دیاں گلاں اپنے اندراں وچ دفنا لؤ
دل دیاں کوجھیاں پیچیاں گنڈھاں کسے سیانے توں کھلوالؤ
اپنے ڈھڈ توں کُرتا چُک کے مُورکھ لوک وکھاندے نیں
اپنے چولیاں دے سبھ مورے رل مل کے رفو کروا لؤ
٭
کِنج دے لوک سجن بن بیٹھے کِنج دیاں خُشیاں ہاہواں نیں
کوئی کسے دا حال نہیں پُچھدا کِرچی کِرچی باہواں نیں
٭
سانجھے سن پرچھاویں سارے
-وسدے سن جاں ڈھبر ڈھارے
-من اِکواسی روٹی وانگوں
/سڑ گیا رہ گئے چارے سارے
#۳۔چھلتراں(افسانے)
یہ مجموعہ پروفیسر غلام رسول شوق کے پنجابی افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جو
1986ء میں صفی پبلی کیشنز کے زیرِ اہتمام چھپ کر منظرِ عام پر آیا۔ان
افسانوں میں انھوں نے یہی فضا اور زندگی کی تلخیوں کو بڑی خوبصورتی سے بیان
کیا ہے۔ اُن کا فن کسی بھی مقام پر جمود کا شکار نہیں، برابر ارتقا پذیر
ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ غلام رسول شوق کے موضوعات کا دائرہ بھی
وسیع ہوتا ہے۔
وہ کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں اور کش مکش کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔
’’چھلتراں‘‘ میں غلام رسول شوق صاحب اپنے افسانوں میں معاشرتی ناہمواریوں
اور کج رویوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی زبان سادہ ، دل کش
دیہی ماحول کی عکاس بھی ہے اور ترجمان بھی۔ ان کی فنی عظمت ان کے خلوص کی
مظہر ہے ۔ ان افسانوں میں ان کا مشاہدہ بہت گہرا اور تجربہ بڑا وسیع نظر
آتا ہے۔(۲۲)
۴۔بریتے(پنجابی افسانے)
پروفیسر غلام رسول شوق کی کہانیوں /افسانوں کا دوسرامجموعہ ہے جو پہلی بار
جنوری 1992ء کو صفی پبلی کیشنز فیصل آباد کے تحت چھپ کر منظرِ عام پر آیا۔
اس میں کل چود ہ کہانیاں ہیں۔ دیباچے ڈاکٹر ریاض مجید اور ڈاکٹر رشید احمد
گوریجہ (مرحوم)نے لکھے ہیں۔ ’’بریتے‘‘ کے پیش لفظ میں پروفیسر غلام رسول
شوق رقم طراز ہیں:
’’بریتے‘‘ ۔۔۔۔میریاں کہانیاں دا دوجا پراگا اے۔۔۔۔ایہناں کہانیاں وچ ’’دیس
دے پاندھیاں‘‘ دے ’’گھر دے بُوہیاں‘‘ دے اندر باہر تھدا لگیاں
’’چھلتراں‘‘نال چھدّے ہوئے اجیہے سریر نیں جیہڑے ’’بریتے ‘‘ دے ذریاں
وانگوں چُپ ۔۔۔۔سبھ کُجھ سہی جا رہے نیں۔‘‘(۲۳)
معروف نقاد اور محقق ڈاکٹر ریاض مجید، پروفیسر غلام رسول شوق کے فکر و فن
اور اسلوب پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’غلام رسول شوق صاحب کی پنجابی زبان و ادب کے ساتھ وابستگی اور دل چسپی
کوئی نئی نہیں ۔پچھلے پچیس سالوں سے وہ پنجابی نثر اور نظم میں اپنی تخلیقی
کارکردگی کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اُن کی یہ کارکردگی ادب کی ایک صنف
تک محدود نہیں۔ ’’چھلتراں‘‘ (افسانے)کے ساتھ ’’دیس دا پاندھی‘‘ اُن کی وہ
معروف کتب ہیں جس میں خود نوشت ، رپورتاژاور تاریخی واقعات نگاری کے پس
منظر ہیں۔ انھوں نے ایسا دلآویز اسلوب پیدا کر دیا ہے جس کی مثال پنجابی
ادب میں کم ہی ملتی ہے۔‘‘(۲۴)
پروفیسر غلام رسول شوق کی کہانیوں میں جو صفت سب سے زیادہ قابلِ تعریف ہے ۔
وہ اُن کا منفرد اسلوب ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی خاص عطا ہوتی ہے کہ وہ کہانی
نویس کو اپنے جذبے خیال اور فکر کے لیے صحیح ، جامع، مناسب اور خوب صورت
الفاظ سمجھا دے۔ شوق صاحب کو یہ تخلیقی نعمت جس کثرت سے عطا ہوئی تھی۔ اس
کا اظہار ’’بریتے‘‘ کے ورق ورق سے ہو رہا ہے۔ وہ الفاظ کے خوب صورت استعمال
کے ساتھ فضا بندی کرتے ہیں کہ ماحول نکھر کر سامنے آ جاتا ہے ۔ نہ صرف یہ
کہ اظہار کے تقاضے پورے ہوتے ہیں بلکہ الفاظ کا مناسب استعمال پنجابی زبان
کے ساتھ ساتھ پنجابی تہذیب ، کلچر اور تہذیب و تمدن کو اپنے ساتھ ساتھ
لکھتی چلی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ریاض مجید کے کہنے کے مطابق:
’’مجھے اس بات کو ماننے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ میں اپنی روزمرہ
پنجابی زبان کے کئی بھولے ہوئے ان مناظر کو یادوں میں تازہ رکھنے کے لیے
شوق صاحب کی تحریریں پڑھتا ہوں جو شہر کی مشینی زندگی میں رہتے ہوئے پھیکی
پڑتی جا رہی ہیں۔‘‘(۲۵)
مناسب اور بامعنی الفاظ کے ذریعے ماحول بندی اور فضا کی پینٹنگ شوق صاحب کے
فن کی نمایاں خوبیاں ہیں۔ چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
’’مینوں چنگی طراں یاد اے پئی جد میں تیراں چوداں ورھیاں دی ساں تے میری
ماں مینوں تڑکے ای جگا دیندی سی۔ بیہوشی دی نیندر وی کدے نہیں سی پوری کرن
دِتی ۔ داء دپّا لا کے بھانویں رتی کِدھرے کِکلی پا لئی ہووے۔ کدھرے لُک
چھپ کے آل مال کھیڈ لیا ہووے نہیں تے سارا دن ڈھگیاں وانگوں جُپے رہی دا
سی۔‘‘(۲۶)
’’تے فیر۔۔۔۔سویل توں شِکر دوپہرا۔۔۔۔شِکر دوپہرے توں لوڈھے ویلا ۔۔۔۔لوڈھے
ویلے توں خوپیا۔۔۔۔خوپیئے توں تاریاں دی لو اتے تاریاں دی لو توں جھوٹھی
سویل ہندی رہی۔ پر پرھیا نوں ایہدے لئی نہ کوئی کیمیا لبھا تے نہ ای کیمیا
گر۔۔۔۔‘‘(۲۷)
’’ویہڑا اُلانگھن مگروں منجی دی سرہاندی بہندیاں ہویاں اتے اپنی پگ لاہ کے
پاوے تے مٹی جھاہڑ کے مکاؤندیاں ہویاں آکھن لگا۔ سناؤ فیر ہور کیہ حال اے۔
جیاء جنت تاں ٹھیک اے ناں۔‘‘(۲۸)
کہانی کار کہانی لکھتے ہوئے دو طرح اپنے فن کو استعمال کرتا ہے۔ ایک تو
دُنیا جس طرح کی ہے اس کی تصویر اسی طرح پیش کرتا ہے۔ ہم اُسے حقیقت پسند
افسانہ نگار کہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ جو وہ استعمال کرتا ہے کہ ہر فنکار کے
ذہن میں ایک دُنیا ہوتی ہے۔ وہ اپنے چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھتا ہے تو
اُسے اپنی ذہنی دُنیا کہیں نظر نہیں آتی۔ جہاں سکون ہو ، امن و امان ہو، وہ
اس دُنیا کو اپنے افسانوں کہانیوں اور شعروں کے روپ میں پیش کر دیتا ہے اور
دُنیا کو بتاتا ہے کہ دُنیا اِس طرح کی ہونی چاہیے۔
غلام رسول شوق کوئی نئے کہانی کار نہیں۔ اس سے قبل ان کی کہانیوں کی ایک
کتاب ’’چھلتراں‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ ان کو اپنے فن اور خیالات پر اتنا
مان ہے کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں اُسے بڑے شوق سے پڑھنے والوں کے سامنے رکھ
دیتے ہیں۔ انھوں نے پنجابی ادب پڑھنے والوں کے لیے چھوٹی کہانیوں کا جو
دسترخوان بچھایا ہے ۔ اُسی کا نام ہے ’’بریتے‘‘ ۔۔۔۔یہ غلام رسول شوق کی
کہانیوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ حقیقی بات ہے کہ شوق صاحب نے چھوٹی کہانی کے
فن کو بہت اچھی طرح سمجھ لیا ہے اور خوب صورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ وہ
پلاٹ سازی کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ کہانی کے ابتدا سے اختتام تک کے مراحل
وہ فنی مہارت اور چابکدستی کے ساتھ طے کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کہانی کی
پرواز کس طرح ہوتی ہے۔ ان کے فن کا کمال پلاٹ کے خاص مرحلے زوال(Anti
Climax)میں نظر آتا ہے۔
وہ قاری کو گنجھلوں میں اُلجھا کر اچانک کہانی ختم کر دیتے ہیں۔ اس طرح اُن
کی کہانیوں کا انجام ڈرامائی انداز میں اچانک ہوتا ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ پروفیسر غلام رسول شوق نے دُنیا کو آنکھیں کھول کر دیکھا
ہے۔ اُن کی کہانیوں کی بڑی صفت انسانی نفسیات کا ادراک ہے۔ وہ مختلف طبقات
کے انسانوں کی مخصوص نفسیات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
ممتاز نقاد اور دانشور ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ ’’بریتے‘‘ میں پروفیسر غلام
رسول شوق کی کہانیوں پر اظہارِ خیال کرتے ہیں:
’’غلام رسول شوق نے ادب کی اس چوتھی صنف کی طرف نظر دوڑائی ہے ۔ وہ نظمیں
لکھتے رہے۔ غزلیں لکھتے رہے، انشائیے لکھتے رہے ، تنقید لکھتے رہے لیکن ان
کی تسلی نہ ہو سکی تو غالب کے کہنے کے مطابق ’’کچھ اور چاہیے وسعت میرے
بیاں کے لیے‘‘ اس طرح شوق صاحب نے افسانہ نگاری کر کے ادب کی چوتھی صنف کا
راستہ ناپ لیا ہے اور اپنا جادو جگا لیا ہے۔‘‘(۲۹)
"Fiction" (Translation of Braitay) Stunted Soules۔۵
A journey from Braitay to Stunted Soules
’’بریتے‘‘ افسانوی مجموعے کو ممتاز شاعر ،استاد،نقاد اور مترجم پروفیسر
ڈاکٹر خالد عباس بابر نے پنجابی سے انگریزی ترجمہ کر کے اس کو بین الاقوامی
سطح پر روشناس کرانے کا فریضہ سرانجام دیاہے۔کتاب کے شروع میں کہانی مجموعہ
کے بارے میں اپنے انگریزی مضمون میں پروفیسر غلام رسول شوق کی کہانی نویسی
پر رقم طراز ہیں:
"The stunted soules (Braitay) is Prof. Ghulam Rasool Shauq's fresh and
prized collection of short stories from the perspective of
charactrization and episodes this collection." (۳۰)
۶۔دیس دا پاندھی(ہجرت نامہ،رپورتاژ)
’’دیس دا پاندھی‘‘ پروفیسر غلام رسول شوق کا لکھا ہوا ہجرت نامہ ہے جو پہلی
بار نومبر1988ء میں صفی پبلی کیشنز کے زیرِ اہتمام چھپ کر منظرِ عام پر
آیا۔ اگر غور سے اس ہجرت نامہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ رپورتاژ ہے
(ہڈبیتی) ہے۔ جس میں دُنیا کی سب سے بڑی ہجرت 1947ء کا پورا احوال نامہ
آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ حقیقت ، افسانے سے زیادہ درد انگیز ہوتی ہے۔
یادوں کا یہ کھلار حقیقت میں ہر اُس پاندھی (مسافر) کی کہانی ہے، جس نے
جاگتی آنکھوں سے پاک وطن کی طرف ہجرت کی ۔ بقول منیر نیازی:
تُو بھی ہے ہجرت کدہ شہرمدینہ کی طرح
ہم نے بھی تو دہرائی ہے اِک رسم آبا کی طرح
پاکستان ہماری کئی نسلوں کی دینی اور قومی اُمنگوں کی تصویر ہے۔
پروفیسر غلام رسول شوق اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پاکستان بنتے ہوئے
دیکھا اور تحریک پاکستان میں حصہ لیا ۔وہ قیام پاکستان کے وقت بارہ برس کے
ابھرتے ہوئے نوجوان تھے ۔ ان کی تربیت اس نسل کے ہاتھوں ہوئی ہے جسے ہم
اسلاف کی یادگار کہتے ہیں۔
’’دیس دا پاندھی‘‘ پڑھ کر اس پاک وطن سے محبت اور بڑھ جاتی ہے اور برصغیر
اور مخصوص سیاسی اور تہذیبی ماحول پاکستان کے بارے یقین اور پختہ ہوجاتا
ہے۔ شوق صاحب کے اسلوب میں خلوص کی روشنی اور درد کی تپش نے تحریر کے اثر
اور کیف کو مزید بڑھا دیا ہے۔ آج کے ادب میں یہ کیف بہت کم ہے۔ زندگی کے
میکانکی رویوں نے تحریروں کو بھی مشینی انداز بنا دیا ہے۔ پنجابی نثر کو
مقبول بنانے کے لیے اسلوب کی دل چسپی اور کیف کی جو ضرورت ہوتی ہے۔ اُس کا
خوب صورت نمونہ اس کتاب میں موجود ہے۔ پختہ یقین ہے کہ نہ صرف پرانی نسل جس
نے ہجرت کا تجربہ کیا بلکہ نئی نسل میں بھی یہ کتاب ’’دیس دا پاندھی‘‘محبت
سے پڑھی جاتی ہے کیوں کہ یہ ہجرت آج کی نسل کا مقدر بھی ہے۔ آج بھی ہجرت
جسمانی نہیں ذہنی اور روحانی ہے۔ ہجرت کا یہ عمل اُس وقت پورا ہو گا جب اس
ملک میں اس کیغرض و غایت اور اس کے نظریہ کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی۔
’’دیس دا پاندھی‘‘ہماری قلمی تاریخ کا وہ باب ہے جس کی دل چسپی کبھی ختم
نہیں ہوگی۔
’’دیس دا پاندھی‘‘ کے صفحہ 115پر غلام رسول شوق ہجرت نامہ کا احوال یوں
بیان کرتے ہیں۔جب یہ کارواں اپنی منزل پاکستان میں پہنچتا ہے:
’’اوہ سماں‘‘ وی عجیب سی ۔۔۔۔’’اوس ویلے ‘‘ دے احساسات نوں بیانناں وس وچ
نہیں ۔ دل ای وس وچ نہیں سی۔ دل دی ٹِک ٹِک کُجھ نہ پچھو۔ کیہ آہندی سی؟
جدوں اسیں سارے پاک دیس دی پوِتر زمین تے کھلوتے ماں نال چمبڑے ہوئے
۔۔۔۔کدے اپنے دل تے کدے اپنے ساتھیاں ول تے کدے اپنی اوس زمین ول۔۔۔۔ماں
دھرتی ول تک رہے ساں جیہدے وچ کوئی آتش فشاں پہاڑ نہیں سی ۔ جتھے کوئی
ہنیری نہیں سی جھلدی نظر آؤندی۔‘‘(۳۱)
وطن ہی وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی زندگی گزارتا ہے جس کی سہانی فضاؤں میں
وہ پلتا ، بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے ۔ اس کے گلی کوچوں ، سبزہ زاروں ، دل
فریب فضاؤں رات دن سے اسے ایک قسم کا انس اور جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔
پردیس جا کر خواہ کتنا ہی خوش حال کیوں نہ ہو ، وطن میں گزرے دنوں کی یاد
اُسے ستاتی ہے۔ وہ بے قرار ہو اُٹھتا ہے۔
دشمن کو بھی نہ اﷲ چھڑائے وطن سے
جانے وہی بلبل جو بچھڑ جائے چمن سے
آزادی کوئی آسانی سے نہیں مل گئی ۔ اس کے لیے بیٹیوں کے سہاگ اُجڑ گئے ،
بچے یتیم ہو گئے ۔نقلِ مکانی کے دوران لاکھوں جانوں کا نذرانہ دیا گیا۔ کم
سن بچوں کو دورانِ ہجرت راستے میں پھینکا گیا۔ نوجوان لڑکیوں کی عصمت دری
کی گئی۔ ہجرت کے اس کرب ناک حالات کو احمد راہی نے ایک شعر میں نہایت احسن
انداز میں سمو دیا ہے۔
نہ کوئی سہریاں والا آیا ، نہ ویراں ڈولی ٹوری
جس دے ہتھ جیہدی بانہہ آئی لے گیا زور و زوری
۷۔حرفِ شوق(کالم نگاری)
’’حرفِ شوق‘‘ پروفیسر غلام رسول شوق کے کالموں کا مجموعہ ہے جس کی ترتیب
انھوں نے اپنی زندگی میں ہی دے دی تھی لیکن اس کتاب کو دیکھنا اُن کے نصیب
میں نہ ہوا کیوں کہ کالموں کایہ مجموعہ اُن کی وفات کے بعد ادبی حلقوں میں
منظرِ عام پر آیا ۔یہ کتاب جنوری 2005ء کی پرنٹ لائن سے منصہ شہود پر آئی ۔
اس میں کل 56کالم شامل ہیں۔
اخبارات میں کالم کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ پروفیسر غلام رسول
شوق کے کالم فیصل آباد کے مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں جو ’’حرفِ
شوق‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے ہیں۔پروفیسر غلام رسول شوق
جو پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ عصرِحاضر میں
جب روایات یکسر شکستہ ہو گئیں۔ قدریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں۔ بزرگوں کی
مجلسیں اور محبتیں قصۂ پارینہ ٹھہریں۔۔۔۔قیامِ پاکستان کے حقیقی مقاصد پسِ
پشت ڈال دیے گئے۔ خاندانی شرافت اور نجاست کے جنازے سرِ بازار نکال دیے گئے
۔ دیانت داری کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ اُن کی جگہ بددیانتی ، منافقت
،ریاکاری، جھوٹ، مکروفریب، حیلہ سازی، خوشامد، حسد اور جعل سازی جیسی منفی
اور مذموم برائیوں اور مکروہ عیوب نے لے لی۔ ایسے عہدِ زوال میں پروفیسر
غلام رسول شوق جیسی وضع داری ، مہذب ، پاکیزہ ، نظریاتی اور راست باز نسل
کا جینا دشوار ہو گیا تو انھوں نے کڑھتے ہوئے اور ٹوٹے ہوئے جذبات کے ساتھ
قلم اُٹھا لیا اور اپنا درد، اپنادُکھ، اپنا کرب ، اپنا غم کالموں کی شکل
میں قارئین کی نذر کیا۔۔۔۔
پروفیسر ریاض احمد قادری ، غلام رسول شوق کی کالم نگاری پر رقم طراز ہیں:
’’غلام رسول شوق کے کالم محض کالم ہی نہیں بلکہ ٹوٹتی بکھرتی قدروں کے نوحے
ہیں۔ سماجی ، معاشرتی اور تہذیبی زوال کے مرثیے ہیں۔ ماحول کی بکھری ہوئی
فضائی ، سماجی ، روحانی اور معاشی آلودگی کے کرب نامے ہیں۔ انھوں نے یہ
کالم روشنائی سے نہیں بلکہ اپنے خونِ جگر سے لکھے ہیں۔ ان کالموں میں دردِ
جگر، سوزِ دروں اور روحانی کرب بدرجۂ اُتم نظر آتا ہے۔ ان کالموں میں
دردمندی ہے، گداز ہے ، کرب ہے، دُکھ ہے اور ان لائنوں میں جو نوحہ گری ہمیں
نظر آتی ہے وہ تاثیر و تاثر کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔‘‘(۳۲)
پروفیسر غلام رسول شوق نے اپنے کالموں میں زندگی کے ہر موضوع پر قلم
اُٹھایا ہے۔ ان کے کالموں کے موضوعات میں سماجی مسائل ، ادبی و لسانی
موضوعات ، مذہبی و تاریخی موضوعات ، سیاسی و نیم سیاسی عنوانات سے ، معاشی
مسائل ، اخلاقی اور تہذیبی موضوعات شامل ہیں۔ ’’حرفِ شوق‘‘ ہمہ رنگ موضوعات
سے سجا ہوا ایک ایسا نگارخانہ ہے جس میں ہمیں ہر شعبہ زندگی سے پردہ اُٹھتا
نظر آتا ہے۔۔۔۔اِن کالموں میں کبھی وہ اُستاد کا مقام بیان کرتے ہوئے ایک
مصلح اور ماہر اخلاقیات نظر آتے ہیں۔ کبھی مغلیہ درباروں کو یاد کرتے ہوئے
تاریخ دان لگتے ہیں۔ کبھی سمال انڈسٹریز اور بینکوں کے مسائل کا جائزہ لیتے
ہوئے معاشیات دان نظر آتے ہیں۔ کہیں حضرت سیدہ آمنہؓ کے مزارِ مبارک کے
انہدام پر آنسو بہاتے ہیں۔ ماہر فقہ و دین نظر آتے ہیں۔ کہیں دہشت گردی پر
لکھتے ہوئے ماہر قانون نظر آتے ہیں۔ کہیں حکمران اور عوام پر لکھتے ہوئے
ماہر سیاسیات کا روپ دھار لیتے ہیں، کبھی کالج اور یونیورسٹی کے مسائل بیان
کرتے ہوئے سماجی کارکن نظر آتے ہیں ، کبھی ملا عمر ، بش اور اُسامہ پر
لکھتے ہوئے ماہر بین الاقوامی امور اور امورِ خارجہ نظر آتے ہیں ۔کہیں
انوار لٹاتی ہوئی شام لے کر ماہرِ ادبیات اردو نظر آتے ہیں۔ غرضیکہ ان کے
ساڑھے 6سال کے عرصہ میں شائع ہونے والے ان 58کالموں میں ہر شعبۂ زندگی
جھلکتا نظر آتا ہے۔ یہ اُن کا کمال ہے کہ موضوع پر مکمل گرفت ہے۔ کالم میں
دل چسپی اور انشا کا عنصر مسلسل برقرار رکھتے ہیں۔ جو کالم کی بنیادی ضرورت
ہے۔ اندازِ بیان سہل، سادہ ، سلیس ، آسان فہم، رواں دواں اور مؤثر ہے۔
انھوں نے اپنے کالموں میں حسبِ ضرورت اور حسبِ موقع مذہبی ، دینی، سیاسی ،
تاریخی ، معاشی ، بین الاقوامی اور سماجی حوالہ جات بھی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر شبیر احمد قادری ، پروفیسر غلام رسول شوق کی کالم نگاری کے بارے میں
لکھتے ہیں:
’’حرفِ سوچ‘‘ میں شامل کالم اشیا و مظاہر کو مخصوص انداز سے دیکھنے ،
جانچنے اور نتائج مرتب کرنے کی خواہش لیے ہوئے ہیں۔ پروفیسر غلام رسول شوق
نے یہ کالم شوق سے نہیں لکھے بلکہ ان کا محرک وہ کرب ہے جو گرد و پیش کی
ناہمواریوں اور بدعنوانیوں کو دیکھ کر حساس دل کو کچوکے لگاتا ہے۔‘‘(۳۳)
’’شوق اور کالم نگاری‘‘ کے عنوان کے تحت غلام رسول شوق صاحب رقم طراز ہیں:
’’۔۔۔۔شوقیہ نہیں بلکہ یہ سمجھتے ہوئے یہ جانتے ہوئے لکھنا شروع کیا کہ میں
بھی اس مملکتِ خُداداد پاکستان کا ذمہ داری شہری ہوں ۔ میں نے بھی ڈاکٹر
علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کی تعبیر کو پورا کرنے کے لیے اس سرزمین پر قدم
رکھا تھا۔۔۔۔ وگرنہ ضروریاتِ زندگی اور سامانِ تعیش تو شاید اپنے پیدائشی
گاؤں میں وافر مقدار میں موجود تھا۔۔۔۔‘‘(۳۴)
پروفیسر غلام رسول شوق بات سے بات نکالنے کا ہنر جانتے ہیں جو کالم نگار کے
لیے بہت ضروری ہوتا ہے ۔ حکایات اور لطائف سے ابتدا کر کے انھیں متعلقہ
موضوع پر اس انداز سے منطبق کرتے ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے
۔چند کالموں سے منتخب حصے ملاحظہ ہوں۔
’’دیس ہے تو سب کچھ ہے۔ دیس ہے تو وہ بھی ہیں اور قربانیان دے کر لی ہوئی
آزادی بھی اور آزادی ۔۔۔۔آبادی ہی ہوتی ہے۔‘‘(۳۵)(چچ تو بولے، چھاننی بھی
بولے)
’’غلامی کے طوق سے نجات ملی ۔آزادی کا نعرہ گونجا تو دیکھتے ہی دیکھتے سکون
کی یہ عمارت جو انگریزوں کے دور میں قائم تھی۔ ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس
ہو گئی۔ عوام کے پاؤں خشک زمین پر بھی کیچڑ پر آنے والے پاؤں کی طرح پھسلنے
لگے، غریبعوام اس پھسلن بلکہ دلدل کا مستقل حصہ بن گئے اور یہ ملک آہستہ
آہستہ پولیس سٹیٹ بن گیا۔‘‘(۳۶) (ناکہ بندیاں)
’’حرفِ شوق‘‘ میں مصنف نے جن مسائل کے تار ہلانے کی کوشش کی ہے وہ میرے اور
آپ ہی کے مسائل ہیں۔ ان کی رنگا رنگی محلوں اور کالونیوں سے نکل کر دور تک
دیکھتی اور اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے کالموں کے
بعض مندرجات سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ باتیں چونکہ اخلاص پر مبنی
ہیں اس لیے دل پر اکثر کرتی ہیں۔۔۔۔شوق صاحب الفاظ کے پیچوں میں اُلجھے
بغیر دل کی بات کہہ دی ہے۔
کالم بالعموم ظاہر بینی کے مظہر ہوتے ہیں۔ ان میں موضوعاتی سطح پر کوئی
الجھاؤ نہیں ہوتا۔ کالم نگار اپنے ادراک و فہم کی روشنی میں معاشرے کے
مریضانہ طرزِ عمل اور کجیوں کو دور کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔
پروفیسر غلام رسول شوق نے بند آنکھوں سے نہیں بلکہ کھُلی آنکھوں سے چند
خواب دیکھے ہیں اور اِن خوابوں کی تعبیر جاننا چاہتے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ
کہ خواب جیسے بھی ہوں بے تعبیر رہا کرتے ۔ یہ کالم ایک شاعر اور ایک افسانہ
نگار نے لکھے ہیں جو ایک اُستاد اور باکسر بھی رہ چکا ہے ۔ اس سے بھی بڑھ
کر یہ کہ وہ ایک شہر ی ہے ۔۔۔۔ ایک ذمہ دار شہری۔۔۔۔ ایک محب وطن
پاکستانی۔۔۔۔چنانچہ ’’حرفِ شوق‘‘ میں آپ کو مصنف کے یہ سارے روپ دکھائی
دیتے ہیں گویا ہر گل را رنگ و بوئے دیگر است والا معاملہ ہے۔
۸۔آدابِ رسول صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم(سیرت نگاری)
آدابِ رسول صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم پروفیسرغلام رسول شوق صاحب کا ایک خوب
صورت اور انمول تحفہ ہے ۔ خوب صورت اور دیدہ زیب ٹائیٹل اور عمدہ صفحات پر
شائع سیرت النبی صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم سے مزین یہ گلدستہ دِلوں کو معطر
اور روح کو پاکیزگی عطا کرتا چلا جاتا ہے ۔ 304صفحات پر محیط اِ س درودی
سفر میں شوق صاحب نے حمد، نعتیں اور سرورِ کونین و مکان کی حیاتِ طیبہ کے
مختلف گوشوں کو بڑی عقیدت و الفت سے قلم بند کیا ہے۔ یہ کتاب 14مئی 2003ء
بمطابق 12ربیع الاول 1424ھ کو منصہ شہود پر آئی۔ اس کا انتساب انھوں نے
سیدۃ النساء العالمین ، مادر کُل مادراں، طیبہ ، طاہرہ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ
واٰلہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کے نام کیا ہے۔
دیباچہ ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کا لکھا ہوا ہے۔
حضور سرورِ کونین و مکاں صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت و نعت لکھنا ہر
مسلمان کے لیے دُنیا کا سب سے بڑا سہارا اور آخرت میں بخشش کا سب سے اُونچا
وسیلہ ہے۔ جس کی خاطر جہانوں کو زندگی کا حُسن بخشا گیا۔ اُس کی چوکھٹ پر
عشق و عقیدت کے گلاب نچھاور کرنا ہمیشہ سے ہی ہر کلمہ گو کی آرزو رہی ہے۔
اپنے آقا و مولا کی سیرت بیان کرنا صرف فن اور فکر کی معراج کو چھونے کا
باعث ہی نہیں بنتا۔ اس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل بھی ہوتی ہے۔
ہمارے آقا و مولا کی صورت بھی بے مثال ہے اور سیرت بھی لاجواب ہے۔
رب سچے کا خود اس محبوب کو ’’یٰسین‘‘ ’’طہٰ‘‘ اور کبھی ’’یاایھا المزمل‘‘
اور کبھی ’’یایھا المدثر‘‘ کے القابات سے پکارنا۔ آپ صلی اﷲ علیہ واٰلہ
وسلم کے سر پر ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کا تاج سجانا۔ آپ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم
کی عظمت کا جھنڈافاران کی چوٹی اور سدرۃ المنتہیٰ کی بلندی پر لہرانا۔ صرف
آپ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کے وجودِ اطہر کی خاطر دو عالم کی محفل کو
جگمگانا۔آپ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی زلفوں کو ’’واللیل‘‘ اور آپ صلی اﷲ
علیہ واٰلہ وسلم کے چہرے کی نورانی جھلک کو والضحیٰ کا مصداق بنایا۔ ہمارے
سیرت نگاروں نے سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی سراپا نگاری
کوخوبصورت اور الگ الگ عقیدت سے اپنے شعروں میں بیان کیا ہے۔پروفیسر غلام
رسول شوق نے سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت نگاری کے لیے
جو راستہ تلاش کیا ہے وہ یقیناً دُنیا و آخرت میں فلاح اور بخشش کا ذریعہ
ہے۔
’’آدابِ رسول‘‘ کے پیش لفظ میں محترم شوق صاحب نہایت عاجزانہ اور غلامانہ
التجا کرتے نظر آ رہے ہیں۔
’’اور اُس ہادیٔ برحق محسنِ انسانیت ، سپہ سالار ارض و سما کے ذکر کی چار
سو بکھری ہوئی خوشبو کو اﷲ تعالیٰ کے فضل کو شامل حال کر کے ان چند صفحات
پر بکھیر دوں کہ ان صفحات سے اٹھنے والی خوشبو کے کسی ایک جھونکے سے اس بے
عمل سیاہ من کی حالت سپید صبح کی طرح ہو جائے اور آخرت میں ان لوگوں کے غول
میں سے نہ اٹھایا جاؤں جو گمراہ ہو گئے اور رب محمد صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم
کے عتاب سے نہ بچ پائے اور میری یہ دُعا آپ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کے
وسیلہ جمیلہ سے قبول ہو جائے۔‘‘(۳۷)
ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ، شوق صاحب کی سیرت نگاری کے حوالے سے رقم طراز
ہیں:
’’پروفیسر غلام رسول شوق صاحب نے متعدد ادبی کارناموں کے بعد حال ہی میں
سیرت کے حوالے سے قلم اُٹھایا ہے جو عقیدت و احترام اور عشق و محبت میں
ڈوبا ہوا ہے۔ حقائق کو جذبات کی آنچ نصیب ہو جائے تو تو اثر پذیری دو آتشہ
ہو جاتی ہے۔ ’’آدابِ رسول‘‘ کو پڑھتے ہوئے مجھے ایسا ہی محسوس ہوا ہے ۔
واقعات، سیرت کو تاریخی تناظر میں جذبے مچل رہے ہیں اور جملوں پر محبت کی
دلآویزی کا سایہ ہے مگر واقعات کے درو بست پر زد نہیں پڑی۔ شوق صاحب نے
اپنی نگارش محبت کو قدرے تحقیقی دستاویز بنانے کی کوشش کی ہے اور واقعات کو
بھی درست صحت کے ساتھ قاری کے سامنے رکھا ہے۔‘‘(۳۸)
اس کتاب کے ٹائیٹل پر پروفیسر غلام رسول شوق صاحب نے اپنے نام کے ساتھ چشتی
نظامی کا اضافہ کیا ہے کیوں کہ وہ کئی سلاسل سے خلعت یافتہ تھے۔ آپ ایک سچے
عاشق رسول اور ولی اﷲ تھے۔ سیرت طیبہ پر مبنی ان کا تحفہ ’’آدابِ رسول ؐ‘‘
یقیناً عشق و عقیدت میں رنگا ہوا معطر گلدستہ ہے اور انھیں کامل یقین ہے کہ
سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں یہ تحفہ شرف قبولیت
حاصل کرے گا۔ وہ واقعی غلامِ۔۔۔۔رسول تھے اور غلامیٔ رسولؐ کا عکس ان کی
گفتگو اور تحریروں میں جھلکتا ہے۔
پروفیسر غلام رسول شوق چشتی نظامی لکھتے ہیں:
’’راقم کو پختہ یقین ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم اس عاصی کو اِس کی
تمام تر کوتاہیوں ، غلطیوں ، آلودگیوں اور چھوٹے بڑے گناہوں کے باوجود اپنی
کملی کی چھاؤں تلے تھوڑی بہت جگہ عطا فرمائیں گے ۔ راقم کا ایمان ہے کہ وہ
خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائے گا اور اس کی جھولی کے چھدے ہوئے دھاگے آپ صلی
اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کے کرم کے صدقے دوبار گندھ ہو جائیں گے۔‘‘(۳۹)
غلام رسول شوق صاحب فرماتے ہیں:
سراپا شوق بن کر آؤں اِک دن تیرے کوچے میں
یہی دل میں ہے بس ارمان حبیبی یا رسول اﷲؐ
پروفیسر غلام رسول شوق کے ساتھ میرا جو تعلق خلوص ، مروت ، احترام اور
عقیدت کی اساس پر استوار تھا ۔ وہ مسلسل تین عشروں پر محیط رہا۔ میں جب بھی
ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتا ہوں تو قریۂ جاں میں ان کی حسیں
یادیں اس طرح پھیلی ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے۔ اُسی کی آواز کی
بازگشت کانوں میں رس گھولتی ہے۔ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے۔ انسان کا ہاتھ
نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اُس کے پاؤں رکاب میں ہیں۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ
ہماری مسافت کب کٹے گی اور کس لمحے ہم زندگی کا سفر طے کر کے اپنی منزل کی
طرف رختِ سفر باندھ لیں گے ۔۔۔۔زندگی کا یہ سفر بھی عجیب سفر ہے، جس کی
اصلیت کی تفہیم ہمارے بس سے باہر ہے۔ احباب کی دائمی مفارقت کے بعد انسان
کی زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں کٹ جاتا ہے لیکن رفتگان کی یاد کے صدموں
سے پس ماندگان کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے ۔ ہجوم یاس میں جب میرا
سینہ و دل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور میں یاس و ہراس اور گھبراہٹ کے عالم
میں غمِ جہاں کا حساب کرنے لگتا ہوں تو پروفیسر غلام رسول شوق مجھے بے حد
یاد آنے لگتے ہیں۔۔۔۔وہ شخص جا چکا ہے لیکن اس کے احباب کے دل کی انجمن آج
بھی اُس کی یادوں کی عطر بیزی سے مہک رہی ہے۔
پروفیسر غلام رسول شوق کی خدمت میں حکیم محمد رمضان اطہر کا نذرانۂ عقیدت
’’انوارِفشاں شوق‘‘ ۔
اِک حُسنِ تکلم ہے محبت کی زباں شوق
نفرت کے نشیمن کے لیے برقِ تپاں شوق
اِک صاحبِ ادراک ہے بیباک جری مرد
اِک آہِ شرر بار ہے اِک سوزِ نہاں شوق
شہکار ادب کا ہے ہمہ جہت ہمہ رنگ
تحریر کے اسلوب میں انوار فشاں شوق
افکار کے بت خانے میں اِک فکر مسلماں
اِک نعرۂ تکبیر سرِ بزمِ بتاں شوق
ہم دوش ثریا تِری تحریر کا انداز
اِظہار کا پیرایہ ہے پیری میں جواں شوق
تیرا یہ ہنر پارہ تِرے فکر کا اِعجاز
الفاظ کی رگ رگ میں ترا فیض رواں شوق
طے کرتا ہوا آیا کٹھن راستہ بے خوف
رہوارِ قلم تیرا سرِ عصرِ رواں شوق
خورشید ہنر تیرا ہے لاریب ضیا بار
دیکھا ہے تجھے ہم نے سرِ کاہکشاں شوق
اطہرؔ ہے رہِ شوق میں اِک ذرۂ ناچیز
بے مایہ ہے رمضان کہاں اور کہاں شوق
حوالہ جات
۱۔ اداریہ، پروفیسر غلام رسول شوق کا سانحہ ارتحال، فیصل آباد: روزنامہ
شیلٹر، ۷ فروری ۲۰۰۵ء
۲۔ ایضاً
۳۔ غلام رسول شوق ، پروفیسر، حرفِ شوق، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء،
ص ۲۲۱
۴۔ غلام رسول شوق، گھر دا بوہا، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز، ۱۵ دسمبر۱۹۷۹ء،
ص۱۱
۵۔ ایضاً
۶۔ ایضاً، ص ۳۵
۷۔ یوسف زاہد علیم اﷲ صفی، پروفیسر، گھر دا بوہا،فیصل آباد: صفی پبلی
کیشنز، ۱۵ دسمبر۱۹۷۹ء، ص ۱۵
۸۔ ایضاً، ص ۱۶
۹۔ غلام رسول شوق، گھر دا بوہا، ص ۲۳
۱۰۔ غلام رسول شوق، پروفیسر، مشال، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز، ۱۹۹۵ء، ص ۱۵
۱۱ْ۔ ایضاً، ص ۱۶
۱۲۔ ایضاً، ص۱۷
۱۳۔ ایضاً، ص ۱۸
۱۴۔ ایضاً، ص ۱۶۱
۱۵۔ نور محمد نور کپور تھلوی، زنبیلِ سخن، شیخوپورہ: پنجابی کلچرل سنٹر،
۱۹۸۳ء، ص۲۰
۱۶۔ غلام رسول شوق، پروفیسر، مشال، ص ۱۹
۱۷۔ ایضاً، ص۲۳
۱۸۔ ایضاً، ص ۴۵
۱۹۔ ایضاً، ص ۱۲۳
۲۰۔ ایضاً، ص ۱۲۸
۲۱۔ ایضاً، ص ۱۳۹
۲۲۔ غلام رسول شوق، پروفیسر ، چھلتراں، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز، ۱۹۸۶ء،
ص ۱۱
۲۳۔ غلا م رسول شوق، بریتے، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز، ۱۹۹۲ء ، ص۸
۲۴۔ ایضاً، ص ۱۰
۲۵۔ ریاض مجید، ڈاکٹر، بریتے، فیصل آبادـ: صفی پبلی کیشنز، ۱۹۹۲ء، ص ۱۲
۲۶۔ غلام رسول شوق، بریتے، ص ۲۶
۲۷۔ ایضاً، ص ۱۱۹
۲۸۔ ایضاً، ص ۹۷
۲۹۔ رشید احمد گوریجہ، ڈاکٹر، بریتے، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء، ص
۱۵
۳۰۔ (Stunted Souls (Braitay)ترجمہ بریتے، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز،
۲۰۰۰ء،
۳۱۔ غلام رسول شوق، پروفیسر، دیس دا پاندھی، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز،
۱۹۸۸ء، ص ۶۰
۳۲۔ ریاض احمد قادری، حرفِ شوق، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء، ص ۲۸
۳۳۔ شبیر احمد قادری، ڈاکٹر، حرفِ شوق، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء،
ص ۱۹
۳۴۔ غلام رسول شوق، پروفیسر، دیس دا پاندھی، ص ۲۵
۳۵۔ ایضاً، ص ۱۰۹
۳۶۔ ایضاً، ص۱۹۶
۳۷۔ ایضاً، ص ۶۳
۳۸۔ غلام رسول شوق، چشتی نظامی، پروفیسر، آدابِ رسول، فیصل آباد: صفی پبلی
کیشنز، ۲۰۰۳ء، ص۱۷
۳۹۔ محمد اسحاق قریشی، ڈاکٹر، آدابِ رسول، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز،
۲۰۰۳ء، ص ۱۵
۴۰۔ غلام رسول شوق چشتی نظامی، پروفیسر، آدابِ رسول، ص ۳۰
۴۱۔ محمد رمضان اطہر، حکیم، حرفِ شوق، فیصل آباد: صفی پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء، ص
۱۳
٭جن سے روشن ہو دل کی دُنیا، وہ آدمی ماہتاب ہوتے ہیں٭
|
|