محمد مزمل صدیقی ،مظفر گڑھ
مزمل صدیقی جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد میں اُردو میں بی ایس آنرز کر رہے
ہیں ،اور میقات دوم کے طالبعلم ہیں ،نہم میں تھے تو حافظ حمزہ شہزاد کے
ہمراہ بچوں کا رسالہ ’بچوں کا گلستان ‘جاری کیا۔وہ بند ہوا تو ادبی پرچے
’تعمیر ادب ‘ سے وابستہ ہوگئے ، حال ہی میں بچوں کے ادب پر اُن کی تازہ
کتاب ’مٹی کا قرض ‘ منظرِ عام پر آئی ہے ،مزمل صدیقی گو کم عمر لکھنے والے
ہیں ،لیکن پڑھنے والوں کے لئے اُن کا نام نیا نہیں ،بچوں کے لئے انہوں نے
پیغام ڈائجسٹ ،شاہین ڈائجسٹ،تعلیم و تربیت ،کرن کرن روشنی ،انوکھی کہانیاں
،نٹ کھٹ ،پھول ،اور دیگر روزناموں میں چھپنے والے بچوں کے صفحات جن میں جنگ
،خبریں ،روزنامہ پاکستان شامل ہیں،میں لکھا ۔]
عصرِ حاضر میں قلمکاروں کو جس ضروری تقاضے نے بیدار کیا ہے ،وہ ہے ادبِ ا
طفال کی تخلیق ،گزشتہ تین سال سے اس بیداری نے ادب اطفال کی تخلیق میں نیا
اضافہ کیا ہے ،اردو میں بچوں کے ادب کا ایک وسیع سرمایہ موجود ہے ،جو کہانی
،شاعری اور دیگر اصنافِ نثر پر مشتمل ہے ،یہ کہنا ازبس ضروری ہے کہ بچوں کے
لئے دورِ جدید میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے ،معدودے چند گنتی کے قلمکاروں کے
علاوہ دیگر سے طمانیت کا احساس کم ہی جاگتا ہے ،بیشتر تحریریں بچوں کی فہم
سے بالا ہیں ،ایسے میں ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ قلمکاروں کے لئے تربیتی
ورکشاپ اور کانفرنس کا انعقاد ہو،وہ کہانی تخلیق کرنے کا ایسا ملکہ رکھتے
ہوں کہ بچہ اُسے پڑھتے ہوئے زرا بھی اکتاہٹ کا مظاہرہ نہ کرے ،تفریح بھی
حاصل کرجائے اور سبق بھی،سرکاری اداروں کی جھلک پہلے دور کہیں نظر آتی تھی
،گویا وہ بھی جیسے منظر سے ہٹ کر قصہ پارینہ ہوچکی ہے ،ایسے میں اپنی مدد
آپ کے تحت ادبِ اطفال کی آگاہی کی تحاریک جن میں کاروانِ ادبِ اطفال اور اب
اکادمی ادبیاتِ اطفال قابل ذکر ہیں ،کی موجودگی باعثِ اطمینان ہے ،ایسی ہی
ایک تربیتی و آگاہی پر مبنی کانفرنس مَیں ہمیں بھی مدعو کیا گیا ۔
افتتاحی سیشن کی صدارت معروف مترجم ،محقق جناب ابصار عبدالعلی نے کی،مہمان
خصوصی قطعہ نگار جناب ظفر علی راجا،طارق جاوید ہاشمی کانفرنس کے دو سرگرم
کارکن محمد شعیب مرزا اور معروف مزاح نگار حافظ مظفر محسن سٹیج کی زینت بنے
۔
کانفرنس کی مبداقاری احمد ہاشمی صاحب کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوئی،نعتِ
رسولِ مقبول پیش کرنے کی سعادت جناب سرور حسین نقشبندی کو ہوئی ،مولانا
طارق جاوید ہاشمی صاحب نے :۔’’ن۔والقلم وما یسطرون۔‘‘ آیتِ قرآن پر مفصل
گفتگو کی ،وائس چیئرمین اکادمی ادبیاتِ اطفال جناب حافظ مظفر محسن نے کہا
کہ مجھے امید ہے یہ کانفرنس شرکاء کے لئے مفید ثابت ہوگی اور وہ یہاں سے
بہت کچھ سیکھ کر جائیں گے ،صدر پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی محمد شعیب
مرزا نے کہا کہ بچوں کے ادب اور ادیبوں کو سرکاری سرپرستی ملنی چاہئے ،بچوں
کا ووٹ نہیں ہوتا ،اس لئے شایدوہ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتے،انہوں
نے کہا کہ اس کانفرنس کا خواب اِک خوابِ دیرینہ تھا ،یہ کانفرنس اس خواب کی
تعبیر ہے ،انہوں نے کہا کہ بچوں کا ادب نئی نسل کی کردار سازی میں اہم
کردار ادا کرتا ہے ۔
نشست کے مہمانِ خصوصی جناب ظفر علی راجہ نے کہا کہ اس کانفرنس کا حصہ بننا
میرے لئے باعثِ افتخار ہے ،انہوں نے کارٹونوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
کہا کہ دِکھائے جانے والے کارٹون ہماری اسلامی اقدار کے منافی ہیں ،بچوں کو
میڈیا کی بجائے کتب بینی کی طرف کھینچنے کے لئے بچوں کے ادب میں’ تخلیق‘ کی
اہمیت بڑھ گئی ہے ۔
انہوں نے اطفالِ ادب پر اپنا فی البدیہہ شعر کہا
شجر ماں ،باپ ہیں ،سایہ ہیں بچے
بڑا انمول سرمایہ ہیں بچے
معروف ادیب و ڈرامہ نگار جناب امجد اسلام امجد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
ہمیں ادب کے زریعے بچوں کے اذہان کی تشکیل کرنی ہے ،تاکہ وہ سوچنا شروع
کریں ،جب تک وہ سوچنا شروع نہیں کریں گے ،ان کے تصورات واضح نہیں ہو سکیں
گے ۔‘‘
پیرانہ سالی میں معروف دانش ور جناب ابصار عبدالعلی صاحب نے طویل گفتگو
فرمائی انہوں نے کہا کہ کارٹون بچوں کی تربیت کے ابلاغ کا اثر انگیز زریعہ
ہیں ،ہم بچوں کو مذہبی اور اخلاقی تصورات اس صورت دکھا کر اُن کے اذہان
متاثر کر سکتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ بچوں کے ادب پر نمایاں خدمات کے حوالے
ادیبوں کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا جائے ۔‘‘
ننھی مقررہ مہرال قمر نے اپنی تقریر میں بچوں کے ادب کی خوب نمائندگی کی ۔
’
دوسرے سیشن کی صدارت معروف ادیب و شاعر جنابِ ڈاکٹر فرحت عباس صاحب نے کی
،تلاوت کی سعادت میرے دوست جناب قاری محمد عبداﷲ کے حصے میں آئی۔جناب خالد
محمود عطا صاحب نے ریڈیو کے لئے ڈرامے لکھنے والوں کے لئے کہا کہ بچے ہمارے
معاشرے کا اہم جزو ہیں ،انہیں اپنا عنوان بنائیں ،انہیں سنوارنے پر وقت
صَرف کریں گے تو معاشرہ خود بخود سنور جائے گا ۔
اس نشست میں سیر حاصل خطاب نامور ٹی وی پروڈیوسر جناب حفیظ طاہر صاحب کا
تھا ،جنہوں نے آج سے بیس برس پیشتر اے حمید سے مشہورِ زمانہ ’عینک والا جن
‘ لکھوا کربچوں اور بڑوں کے اذہان میں ایسا بٹھا دیا کہ اُس کے مناظر و
مکالمے آج تک زبان ِزد عام ہیں ،یہاں تک کہ بیس برس گزرنے کے باجود اُس
ڈرامے کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ انہوں نے اپنے مقالے میں بچوں کے
لئے ڈراما لکھنے کے حوالے سے کہا کہ بچوں کی نفسیات و مزاج سے مطابقت کھاتا
ڈرامہ جلد پہچان بنا لیتا ہے ،بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں ۔انہوں نے
بچوں کو ایک ایسے سافٹ وئیر سے تشبیہ دی جس کی درست پروگرامنگ کی ضرورت ہے۔
معروف ڈراما نگار امجد اسلام امجد صاحب نے ٹی وی ڈراما لکھنے کے اصول پر
گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ اچھی کہانی لکھنے والے کے لئے اچھا ڈراما لکھنا
مشکل نہیں ،حاضرین کو نہ ہی بے وقوف سمجھیں نہ بنائیں ،آئندہ عملی ورکشاپ
کا انعقاد بھی یقینی ہونا چاہئے تاکہ ایسی کانفرنس کی اہمیت سیکھنے والے کے
لئے افادیت کی حامل ہو۔
انہوں نے اکادمی کے اس اقدام کو سراہا کہ انتظامیہ نے چھوٹے شہروں کے
ادیبوں کو بڑے شہر میں بلا کر نمائندگی دی اور اس شکوے کا بائیکاٹ کیا کہ
بڑے شہر میں رہنے والوں کو ہی ایسی کانفرنس میں نمائندگی ملتی ہے۔
صدرِ نشست ڈاکٹر فرحت عباس صاحب نے کہا کہ بچوں میں پاکستانیت ،حب الوطنی
اور اَدب و احترام کے جذبات پیدا کریں ،الیکٹرونک میڈیا پر بچوں کے لئے کچھ
لکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
اختتام پر ڈاکٹر فرحت عباس صاحب نے فی البدیہہ شعر کہا:۔
پھلا پھولا رہے یا رب، چمن میری اُمیدوں کا
جگر کا خون دے کریہ بوٹے مَیں نے پالے ہیں
اس نشست کا منتج کھانے کے توقف پرہوا،اس توقف میں پروڈیوسر عینک والا جن
جناب حفیظ طاہر صاحب سے اورجناب ِ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب سے بھی شرفِ تکلم
حاصل ہوا ،
میری تازہ کتاب کی بابت بات چلی تو بولے :۔
’’ارے یار ،ویسے نام اور رکھ لیتے ،یہ ’مٹی کا قرض‘ تو حمایت علی شاعر صاحب
کا شعری مجموعہ ہے ۔‘‘
ٓمعروف ناول نگار آپا بشریٰ رحمن بھی تشریف فرما تھیں ،مَیں نے اُن سے آٹو
گراف لیا،انھوں نے میری آٹو بک پر لکھا :۔
’’مزمل صدیقی کے لئے بہترین دعائیں !اِس نے ایک خوبصورت کتاب’ مٹی کا قرض
‘کے نام سے لکھی ہے․․․میری دعا ہے باری تعالیٰ اِس کے قلم میں قوت عطا
فرمائے ،افکار میں جدت عطا فرمائے ،کردار میں اخوت عطا فرمائے اور یہ اپنی
مٹی کی خوشبو ،مٹی ہنراور مٹی سے کیا ہوا وعدہ ہمیشہ نبھاتے رہیں،سلامت رہو
اور ہمیشہ ملک و ملت کا نام روشن کرو․․․آمین ثم آمین ۔‘‘
اس توقف میں، میرے مکالمے معروف ادیب و شاعر پروفیسر ناصر بشیر صاحب سے
،لدھیانہ بھارت سے آئے معروف ادیب ڈاکٹر کیول دھیر صاحب سے ،معروف سرائیکی
مصنفہ ڈاکٹر مسرت کلانچوی صاحبہ سے اور پروفیسر ضیاء الحسن ضیاء صاحب سے
بھی رہے ۔
تیسری نشست کا موضوع ’اصنافِ اَدب پر مہارت ‘ تھا ۔آغاز کالم نگار جناب
حافظ محمد زاہدکا تلاوتِ کلام ِ الہی سے ہوا،صدارت سابق رُکن صوبائی اسمبلی
اورمعروف ناول نگار آپا بشریٰ رحمن صاحبہ نے کی ،محترم ابصار عبدالعلی نے
بچوں کے ادب میں نظموں کے ارتقاء کا جائزہ لیا ،اُن کا کہنا تھا کہ نظم میں
ایسا ابلاغ ہوتا ہے جو پڑھنے والے کے ذہن پر نثر کی نسبت جلد اثر انداز
ہوتا ہے ،انہوں نے بچوں کے لئے نظمیں لکھنے کی صنف پر مزید کام کرنے کو کہا
،انہوں نے مزید کہا کہ آج سے کچھ عرصہ قبل جب یہ سوشل میڈیا اتنا نہیں
پھیلا تھا ،نظموں کے زیرِ اثر بچوں کو سُلایا جاتا تھا۔
ہماری سرائیکی دھرتی کی ہونہار بیٹی ڈاکٹر مسرت کلانچوی نے بچوں کے لئے
کہانی لکھنے کے اَصول پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے لئے کہانی لکھنے
کے لئے یہ ضروری ہے کہ تخلیق کار اپنے ماضی ،اپنے بچپن میں کھو جائے ،خود
کو بچہ محسوس کرے ،کہانی لکھنے کے بعد اُسے بھول جائے اور پھر وقت پر
بحیثیت ناقد اُٹھائے ۔
ڈائریکٹر مجلس ترقی ادب جناب ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے بچوں کے ادب کے
تراجم پر سیر حاصل گفتگو کی ،انہوں نے کہا کہ مترجم کو اپنی ذات کی قربانی
دینی چاہئے ،ترجمان کو زبان پر مہارتِ تامہ ہونی چاہئے ،ایک وہ جو پڑھ رہا
ہے ،دوسری وہ جس پروہ تراجم کا خواہ ہے ۔
ناول کیسے لکھا جائے کے موضوع پر ناول نگار آپا بشریٰ رحمن نے کہا کہ قلم
خدا کی امانت ہے ،بچوں کا ناول لکھنے کے لئے’ روزمرہ‘ بچوں کا ہونا چاہئے
،بچوں کے لئے ناول لکھنے کے لئے مسلسل مشاہدے و مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے
،ناول ایک زمانے کی کہانی ہوتی ہے ،اندازِ تحریر نقل نہیں کرنا چاہئے ،کسی
دوسرے قلمکار کا روپ دھار کر اُس کے ضمیر میں کبھی بات نہیں کرنی چاہئے
،ایسے انسان لکھ تو لیتا ہے ،لیکن کبھی اپنی پہچان نہیں کروا پاتا ۔‘‘
انہوں نے ناول لکھنے کے اصول پر بات شروع کرنے سے پہلے کہا کہ بچوں کے لئے
صرف ڈرامے ہی نہیں فلمیں بھی بننی چاہئے ، مطالعہ گہرا ہونا چاہئے
مشاہدہ،کردار نگاری ،زمان و مکاں کا احساس ،مکالمے ،تجسس،زبان و بیان،اسلوب
ناول کا اہم ستون ہیں،اپنے معاشرے کی اخلاقیات ،سماجیات
،روایات،روحانیت،کردار سازی ،گھریلونظام،تزکیہ نفس اور تربیت سازی کے خلاف
نہیں لکھنا چاہئے ۔
معروف ادیب وناقد جناب ڈاکٹر ضیاء الحسن ضیاء نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم
لوگ خود اپنے بچوں کو ’بچوں کی کہانیاں‘ پڑھنے نہیں دیتے ،جب بھی کوئی ایسا
منظر نظر آتا ہے ،ہم اس سے کہانی کی کتاب چھین لیتے ہیں ،اور اسے فزکس کی
کتاب پڑھو ،کیمسٹری کی کتاب پڑھو،اور کمپیوٹر سیکھنے اور جدید ٹیکنالوجی کی
طرف توجہ کرنے کا کہتے ہیں ، مادیت پرستانہ سوچ رکھ کرہم نے شروع ہی میں
بچوں کو اُن کے بچپن سے دور کر دیا ہے۔
تیسری نشست کے آغاز سے قبل ہم زرا آواراہ مزاج واقع ہوئے یہ کھانے کا توقف
تھا ، یہاں مختلف طبقہ ء ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے اشخاص سے ربط ضبط
بڑھانے کا موقع ملا ،
ادبی مکالمے بازی بھی جاری رہی ،ہر کس و ناکس تصویر سازی سے برسرِ پیکار
دکھائی دیا،یہ اخوت ،محبت ،پیار ،اخلاص سبھی سے صاف جھانکتی ہوئی نظر آتی
تھی ۔
تیسری نشست کی صدارت جنابِ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے کی ،بھارت سے آئے
مہمان ادیب ڈاکٹر کیول دھیر صاحب نے سٹیج پر اس شاندار کانفرنس کے انعقاد
پر انتظامیہ کو مبارکباد دی ،انہوں نے ہندوستان سے چھپنے والے بچوں کے
جریدے ’کھلونا‘ کی یادیں تازہ کی اور ہندوستانیوں کی طرف سے پاکستانیوں کو
آداب کہا ۔
بانی اخوت ٹرسٹ جناب ڈاکٹر امجد ثاقب نے ’کامیابی ؟مگر کیسے ۔‘کے موضوع پر
مفصل خطاب کیا ۔ چیدہ اور موثر واقعات سنائے ۔ کامیابی کے لئے خواب دیکھنا
پڑتا ہے ،خواب کے بغیر کوئی چیز نہیں ہوتی ،خواب ایک وژن کا نام ہے ،جو
ہمارے پاس نہیں ہوتا لیکن ہم اس تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم
ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں ،ہم ایک ایسی دُنیا بنانا چاہتے ہیں جس میں ہر
شخص کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہو ،ہر شخص کی کامیابی کے حصول کا جو نقطہ ء
آغاز ہے وہ خواب ہے ،جو لوگ خواب نہیں دیکھتے وہ تعبیر تک نہیں پہنچ پاتے
،خواب وہ نہیں ہوتے جو سوتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں ،اصل خواب وہ ہوتے ہیں جو
انسان کو اضطراب میں مبتلا کئے رکھتے ہیں ۔
پروفیسر حمیدہ شاہین نے ’بچوں کے ادب‘ کے معاشرے پر اثرات کا جائزہ لیتے
ہوئے کہا کہ بچہ جو پڑھتا ہے اُسی کے سحر میں مبتلا ہوکر آرزو کرتا ہے
،کہانی مختلف بچوں پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے ،کسی کو ہیرو پسند
آتا ہے ،کسی کو وِلن،کہانی کار ایک کردارطاقتور کے حوالے سے ڈالتا ہے ،ایک
بچہ اس کہانی کو پڑھ کر اُس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا بچہ خوف
زدہ ہوجاتا ہے ،بچہ کہانی کے اثرات نتائج سے نہیں اُس کے بیانئے سے لیتا ہے
،ماں کا بچے کو فلموں ،کارٹوں کے سپرد کرکے سوجانے سے اٹھنے تک یہ سوچ لینا
چاہئے کہ اس ثانئے میں بچے کی دُنیا تبدیل ہوسکتی ہے ،اس سلسلے میں پہلا
ہاتھ قلمکار کا ہوتا ہے ،جس نے لفظ جوڑ کر کہانی بنائی ،ماحول تشکیل دیا
،جس میں داخل ہوتا بچہ کامیاب ہوکر نکلتا ہے اور کوئی اس زندان میں قید
ہوکر زندگی بھر کے لئے وہیں رہ جاتا ہے ،جب بھی بچوں کے لئے قلم اٹھائیں تو
کوشش کریں کہ پنجرے نہ بنائیں ، بلکہ خوبصورتی سے گھراایسا گھر ہو جس میں
کھڑکیاں بھی ہوں اور دروازے بھی ۔
کھول آنکھ ،زمیں دیکھ ،فلک دیکھ،فضا دیکھ کے موضوع پر پروفیسر ہمایوں احسان
نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لکھنے والے کچھ لکھتے ہوئے تحمل سے کام لیا کریں
،یہ نہیں ہوسکتا کہ سائنس کی ترقی کو روک دیا جائے ، ہم اپنی تحریروں میں
اس لئے ناکام ہیں کہ ہمارے الفاظ اور ہیں اور ہمارا ردِعمل اَور ،انہوں نے
مزید کہا کہ کسی بھی ثقافت کانمائندہ ہو، وہ تب کامیاب ہوتا ہے ،جب وہ محنت
کرتا ہے ،اور اسی محنت کادرس ہمیں بچوں کو دینا ہے ۔
کانفرنس میں بچوں کے ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو ’اکادمی ادبیات ِ
اطفال ‘کی جانب سے اسناد دی گئیں،بچوں کے عہد ساز ادیب جناب نذیر انبالوی
نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس میں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ
پچیس سال بعد اُستادِ محترم اور صدرِ نشست ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کی جماعت
میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا ،یونی ورسٹی میں ۹۲۔۱۹۹۰ میں اِن سے پڑھا،اُن کے
ہزاروں شاگردوں میں سے ایک شاگرد یہ ناچیز ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سات آٹھ گھنٹوں سے جاری اس کانفرنس کا حاصل کچھ
سفارشات ہیں ،یہ مطالبات نہیں ،ایک تو یہ کہ( ایم ۔اے اردو )کے نصاب میں
بچوں کا کلاسیکل ادب اور عصرِ حاضر میں لکھے جانے والے ادب میں سے حصے شامل
کئے جائیں ،دوم یہ کہ بچوں کے ادب میں نمایاں خدمات پر تمغہ حسن نمایاں
کارگردگی دیا جائے ،سوم یہ کہ اکادمی ادبیاتِ اطفال کی طرف سے بچوں کے
ادیبوں کے لئے ایوارڈز کا اجراء ،چہارم یہ کہ بچوں کے رسائل کے اشتہار کے
لئے سرکاری و نجی اداروں سے اشتہارات حصول کی کوشش کرنا ،پنجم یہ کہ بچوں
کے رسائل کے مدیران اوردیگر عملے کے لئے تکنیکی ورکشاپس کا انعقاد،ششم یہ
کہ بچوں کے ادیبوں کو انشورنس و سرکاری مراعات کا حصول ،ہفتم یہ کہ بچوں کے
ادب کے حوالے سے کتب میلوں کا اہتمام ،ہشتم یہ کہ مستحق اور بیمار ادیبوں
کے لئے ماہانہ وظیفے کا اجراء ،نہم یہ کہ ہر لائبریری میں بچوں کے ادب کا
شعبہ قائم کیا جائے جو بچوں کے رسائل بھی خریدنے کا پابند ہو ،دہم یہ کہ
بچوں کے ادب پر کم قیمت والے کاغذ کی فراہمی ،گیارہواں یہ کہ بچوں کے
ادیبوں ،رسائل کی ڈائریکٹری کی اشاعت ،بارہواں یہ کہ ہر سال بچوں کے ادیبوں
کی قومی یا عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے ۔
جناب نذیر انبالوی ابھی یہ سفارشات حاضرینِ محفل کے سامنے رکھ کر چھوٹنے نہ
پائے تھے کہ بانی اخوت ٹرسٹ جناب ڈاکٹر امجد ثاقب نشست سے اٹھے اور جناب
نذیر انبالوی کی سفارشات کے جواب میں بچوں کے ادیبوں کے لئے یہ سہولت پیدا
کرتے ہوئے کہا کہ اگر اکادمی ذمہ داری لے تو اخوت ٹرسٹ بچوں کے ادیبوں کو
ایک لاکھ روپے تک قرض ِ حسنہ دینے کو تیار ہے ۔
اس اعلان کا حاضرین نے خیر مقدم کیا اور اِس اقدام کو سراہا۔کچھ ہی دیر میں
ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب خطبہ صدارت کے لئے سٹیج پر تشریف لائے، انہوں نے
کہا کہ اب کوئی خطبہ صدارت نہیں ہے ،پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،آپ صبح سے
بیٹھے ہیں ،بس صرف مسرت کا اظہار کرنا ہے کہ بہت ہی اچھی کانفرنس
ہوئی،نہایت اخلاص اور دیانت داری سے یہ فرض ادا ہوا ،یہ لاہور ہے، آئے دن
ملکی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر کانفرنسز کا انعقاد ہوتا رہتا ہے ،یہ
تو اہم ضروری شق تھی کہ بچوں کے ادب پر سیمی نار کیا جائے جسے ہم نے نظر
انداز کیا ہوا تھا ۔‘‘
انہوں نے وائس چیئرمین اکادمی ادبیاتِ اطفال جناب حافط مظفر محسن اور صدر
پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی جناب محمد شعیب مرزا کے اس مستحسن اقدام کو
سراہا اور کہا کہ بڑے شہروں جیسا کہ لاہور ،کراچی اور اسلام آباد میں بھی
ایسی کانفرنسز کے انعقاد ہونے چاہئیے،حقیقت یہ ہے کہ یہی بچے ہمارے مستقبل
کے وارث ہیں ،جنہیں ہم نے سب سے زیادہ نظر انداز کیا ہوا ہے ،اس کانفرنس کا
انعقاد بڑا مبارک ہے ،انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری
رہے گا ،ان شاء اﷲ ۔
آخر میں تمام مقررین کو اعزازی شیلڈز سے نوازا گیا ،گو یہ سلسلہ ہر نشست کے
اختتام پر بھی رہا ،معروف ٹی وی کارٹونسٹ عمران سہیل بوبی کا بچوں کے ادب
کی موجودہ صورتِ حال پر بنایا گیا پورٹریٹ شرکاء کی نظر کھینچتا رہا ،اس
طرح ایک عہد ساز علمی ،ادبی ،معلوماتی،اور اکیڈمی کا درجہ رکھتی ایک روزہ
کانفرنس کا اختتام ہوا۔اور بدھو بہت کچھ سیکھ کر گھر کو لَوٹا۔ |