پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کا انتخابی منشور!

اسمبلی انتخابات کے حوالے سے کسی بھی جماعت کے منشور کواہم سمجھا جاتا ہے۔منشور میں ایسے تمام اہم امور شامل کئے جاتے ہیں جن کے بارے میں جماعت ایک منصوبہ بندی رکھتے ہوئے عوام سے یہ وعدہ کرتی ہے کہ حکومت قائم ہونے پر جماعت ان ان شعبوں میں یہ یہ اقدامات کئے جائیں گے۔آزاد کشمیر کی حکمران پیپلز پارٹی اوراپوزیشن جماعت مسلم لیگ(ن) کی طرف سے انتخابی منشور کے لئے ہفتوں پہلے کمیٹیوں کا اعلان تو کیا گیا لیکن اب تک آزاد کشمیر کی ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور سامنے نہیں آ سکے۔آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی '' کوکھ'' سے جنم لینے والی ''پی ٹی آئی'' نے سب سے پہلے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیاہے۔
اسمبلی انتخابات کے حوالے سے کسی بھی جماعت کے منشور کواہم سمجھا جاتا ہے۔منشور میں ایسے تمام اہم امور شامل کئے جاتے ہیں جن کے بارے میں جماعت ایک منصوبہ بندی رکھتے ہوئے عوام سے یہ وعدہ کرتی ہے کہ حکومت قائم ہونے پر جماعت ان ان شعبوں میں یہ یہ اقدامات کئے جائیں گے۔آزاد کشمیر کی حکمران پیپلز پارٹی اوراپوزیشن جماعت مسلم لیگ(ن) کی طرف سے انتخابی منشور کے لئے ہفتوں پہلے کمیٹیوں کا اعلان تو کیا گیا لیکن اب تک آزاد کشمیر کی ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور سامنے نہیں آ سکے۔آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی '' کوکھ'' سے جنم لینے والی ''پی ٹی آئی'' نے سب سے پہلے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیاہے۔کئی دن قبل پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے اسلام آباد میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں '' پی ٹی آئی'' آزاد کشمیر کے منشور کا اعلان کیا اور انتخابی منشور کی کاپیاں تقسیم کیں۔یہ سچ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں منشور کے لوازمات اوراصولوں کی پیروی نہیں کی جاتی لیکن تحریک انصاف آزاد کشمیر کا انتخابی منشور2016ء ،تحریک آزادی کشمیر،کشمیر کاز اور مقامی امور و مسائل سے متعلق غیر سنجیدگی اور سیاسی غیر ذمہ داری کی ایک بڑی مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

'' پی ٹی آئی '' کا رنگین انتخابی منشور ڈیزائینگ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے اور ہر صفحے کے آخر میں بائیں طرف آزاد حکومت کے جھنڈے کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے کہ ''آزاد کشمیر کے فیصلے آزاد کشمیر میں''۔تحریک انصاف آزاد کشمیر اپنے انتخابی منشور میں ''تحریک آزادی کشمیر''کے عنوان میں بتاتی ہے کہ ''تحریک انصاف ریاست جموں و کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تصور کرتے ہوئے اس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتی ہے اور پرامن جدوجہد آزادی کی حمایت کرتی ہے''۔تحریک آزادی کے ان جملوں کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس میں ایک خاتون کو پولیس پر پتھرائو کرتے دکھایا گیا ہے۔آزاد کشمیر کی سیاست کا حکومت پاکستان سے بنیادی مطالبہ تو آزادحکومت ریاست جموں و کشمیر کے کردار اور حیثیت کی بحالی ہی ہونا چاہئے ۔پاکستان کی کشمیر پالیسی آزاد کشمیر سے ہو کر ہی گزر سکتی ہے،یوں آزاد کشمیر میں اچھی صورتحال ہی پاکستان کی کشمیر پالیسی میں بہتری کا اشارہ ہو سکتی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے آزادی،مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد اور قربیانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔بھارت کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد سیاسی بھی ہے اور عسکری بھی۔آزادی کی جدوجہد ان دونوں شعبوں میں ،کم یا زیادہ،لیکن جاری ہے۔جبکہ''پی ٹی آئی '' اپنے منشور میں صرف پرامن جدوجہد کی حمایت کی بات کرتی ہے،کتنی المناک اور شرمناک بات ہے کہ ایک سیاسی جماعت آزاد کشمیر میں حکومت قائم کرنے کی صورت جو پروگرام دے رہی ہے ،اس میں مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام کی صرف پرامن جدوجہد کی حمایت کی جائے گی،عسکری جدوجہد کی نہیں،المناک اور شرمناک اس لئے بھی کہ آزاد کشمیر حکومت کا قیام ہی مسلح جدوجہد کی بدولت وجود میں آیا ہے۔یوں پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر اپنے انتخابی منشورمیں محض پرامن جدوجہد کی حمایت کا ارادہ رکھتی ہے،واہ کیا خوب انصاف ہے کشمیریوں سے، تحریک انصاف کا!

''آئینی و انتظامی اصلاحات'' کے عنوان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اداروں میں آزاد کشمیر کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا،الیکشن شفافیت کے لئے نظام وضع اور الیکشن کمیشن کو مالی وسائل مہیا کرے گی۔اچھی حکمرانی،کرپشن خاتمے اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے احتساب بیورو کو مزید طاقتور بنایا جائے گا۔قومی وسائل کا ضیاء روکنے کے لئے وزراء کی تعداد محدود اور مشیر دو سے زیادہ نہیں۔گریڈ14سے اوپر تعیناتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے۔18ویں آئینی ترمیم میں اختیار کردہ ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار آزاد کشمیر میں بھی اپنایا جائے گا۔شہریوں کے لئے اطلاعات تک رسائی کا قانون اسمبلی سے منظور،شہریوں کی شخصی آزادی اور آزادی اظہار کے لئے انسانی حقوق کمیشن کا ادارہ قائم کیا جائے گا،ہر چار سال بعد بلدیاتی الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جائے گا۔'' پی ٹی آئی''نے اپنے اس جملے کی وضاحت نہیں کی کہ'' وفاقی اداروں میں آزاد کشمیر کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا''،کا مطلب اور اس کی حدود و قیود کیا ہیں؟ظاہری طور پر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کو یقینی بنانے کا دعوی کیا گیا ہے۔اگر پاکستان میں '' پی ٹی آئی'' کی حکومت بھی ہو تب بھی آزاد کشمیر کی پی ٹی آئی کایہ خواب پورا نہیں ہو سکتا ۔پاکستان میں کوئی بھی حکومت ہو،آزاد کشمیر سے برتائو کے طریقوں میں کوئی فرق نہیں آتا۔معلوم نہیں کہ خود بے خبر ہیں یا عوام کو بیوقوف تصور کیا جا رہا ہے کہ کہتے ہیں کہ ''یقینی بنایا جائے گا''،جناب یہ آپ کے اختیار میں ہے ہی کہاں کہ آپ ایسا کریں گے۔ آزاد کشمیر کا تو عبوری آئین بھی وفاقی حکومت کا بناکر دیا ہوا ہے اور اب آزاد کشمیر میں آئینی ترامیم کی باتیں تو کی جاتی ہیں لیکن آزاد کشمیر حکومت کے بنیادی حیثیت و کردار کی بحالی کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آتا۔آئینی ترامیم کا کشکول تو ایک عرصے سے پھیلایا ہو ا ہے لیکن اب تک نامراد ہی ہے۔منشور میںکتنی غیر متوازن اور غیر حقیقی باتیں کی گئی ہیں اور اس سے ''پی ٹی آئی'' آزاد کشمیر کے سیاسی سوچ و '' اپروچ'' کی نا پختگی اور منفیت بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔منشور میں انٹرا کشمیر ٹریڈ کو تو موضوع بناتے ہوئے مقامی شیاء کی تجارت اور تجارتی سہولیات میں اضافے کی بات تو کی ہے لیکن منقسم کشمیری خاندانوں کو '' آنے جانے'' کی سہولیات میں اضافے سے متعلق ایک جملہ بھی استعمال نہیں کیا گیا اور اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ''پی ٹی آئی '' آزاد کشمیر منقسم کشمیری خاندانوں کی اس سہولت کے خلاف ذہن رکھتی ہے۔

'ادارہ جاتی اور معاشی اصلاحات' کے عنوان میں ''پی ٹی آئی'' کا کہنا ہے کہ سیاحت میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی،سیاحتی مقامات کی ملکی و بین الاقوامی سطح پہ تشہیرکے لئے منصوبہ بندی،نوجوان کشمیری تارکین وطن کے لئے گروپ ٹور ازم اور ہالیڈے پیکجز متعارف کرائے جائیں گے،غیر ملکی سیاحوں کے لئے NOCنظام آسان بنایا جائے گا،سیاحوں کی رہنمائی کے لئے معلوماتی ڈیسک قائم اور ہر ضلع میں ٹول فی نمبرز جاری اور تفریحی مقامات اور شاہرات پر پبلک ٹائلٹس تعمیر کئے جائیں گے۔'ادارہ جاتی اور معاشی اصلاحات' کے نام سے ہی ایک دوسرے صفحے میں کہا ہے کہ پیشہ وارانہ ماہرین کی سرکاری اداروں میں شمولیت کی حوصلہ افزائی،تمام وزارتوں،محکموں کی کارکردگی جانچنے کے لئے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں مانیٹرنگ،جائزے کا شعبہ قائم کیا جائے گا۔مضبوط معیشت اور خوشحالی کے لئے آزاد کشمیر میں پن بجلی اور سیاحت پر خصوصی توجہ،آزاد کشمیر بنک کا شیڈول بنک میں بدلا جائے گا،چھوٹی صنعتوں کے قیام کے لئے جلد قرضوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔'ادارہ جاتی اور معاشی اصلاحات' کے عنوان کے تیسرے صفحے میں بیان کرتے ہیں کہ ''پانچ سال کے اندر چار سو میگا واٹ بجلی پیدا کر کے لوڈ شیڈنگ سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے،آزاد کشمیر میں بجلی کی ضروریات کا بیس فیصد حصہ سولر سے پورا کیا جائے گا،اقتدار سنبھالنے کے پہلے چھ ماہ میں بجلی کے آئندہ نظام ،ترسیل ،پیدا وار اور نجکاری کی مربوط پالیسی کا اعلان کیا جائے گا''،مظفر آباد یونیورسٹی میں پائیڈرو پاور اور میرپور یونیورسٹی میں شمسی توانائی کا شعبہ قائم کیا جائے گا(ساتھ بجلی کے کھمبے کی ایک تصویر بھی آویزاں ہے)۔سوئی گیس کے نشان والے صفحے پہ '' پی ٹی آئی '' کا انتخابی منشور کہتا ہے کہ '' کشمیر میں گیس کمپنی کا قیام عمل میں لایا جائے گا تا کہ صنعتوں اور گھریلو اور تجارتی صارفین کو سستی توانائی فراہم کی جاسکے''،ملکی ،عالمی تعاون سے آزاد کشمیر میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش اور ترقی کو ترجیحی بنیادوں پر ممکن بنایا جائے گا ۔'صحت کا نظام' کے عنوان میں نئے ہسپتال،ہیلتھ سینٹر،پیرا میڈیکل کی تعلیم ،مفت طبی سہولیات ،ادویات کے امور شامل ہیں۔''تعلیم سب کے لیئے'' کے عنوان میںبارہویں تک اردو ،انگریزی لازمی،پرائمری تک صرف خواتین اساتذہ،تعلیمی وظائف،شعبہ تعلیم سیاسی اثر سے آزاد کرنے کی باتیں کی گئی ہیں۔تحریک انصاف آزاد کشمیر کا انتخابی منشور کے عنوان کے نیچے لکھا گیا ہے کہ خواتین کے لئے بیس لاکھ روپے تک بلا سود قرضے،ازدواجی اور سماجی زندگی میں ظالمانہ سلوک اور وراثت سے محرومی کے امکانات کا خاتمہ۔منشور کے ایک اور صفحے پہ تحریر ہے کہ پولیس کو پاکستان میں رائج صوبائی پولیس ایکٹ2002ء کی طرز پر ایک آزاد ادارہ بنایا جائے گا،پولیس کی جدید تربیت مفت قانونی معاونت،'' ون فائیو'' اور جدید تھانے۔محکمہ جنگلات کا جدید کمپیوٹرائزڈ نظام سنٹرل ڈیٹا بیس سے منسلک،دریائوں ،نہروں کنارے نرسریاں قائم اور شجر کاری کی ہنگامی مہم سے پانچ سال میں پچاس کروڑ پودے لگائے جائیں گے،جنگلات کٹائی کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات،آتشبازی سامان تیاری اور استعمال پر پابندی ہو گی۔

'ادارہ جاتی اور معاشی اصلاحات'' کے عنوان سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آزاد کشمیر میں ''گیارہ قلی ،بارہ میٹ'' کا سرکاری انداز ختم کرتے ہوئے سرکاری محکموں ،اداروں میں بہتری کی بات کی گئی ہو گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہے اور یہاں بھی آزاد کشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے بجائے عام شہریوں کو ''سیاسی جھانسہ'' دینے کا ایک انداز نظر آتا ہے۔اس عنوان میں درج کئی امور پر پہلے سے ہی عملدرآمد ہو رہا ہے۔بجلی اور گیس کے منشوری اعلانات پر تبصرہ قارئین پر چھوڑنا بہتر رہے گا۔باقی شعبوں میں غیر سنجیدگی اور نمائشی انداز میں منشور کے نکات بیان کرتے ہوئے تعلیم اور صحت سے متعلق بھی اسی طرح کے روئیے کا اظہار کیا گیا ہے۔نہ تو موجودہ صحت اور تعلیم کی سہولیات کو معیاری بنانے کی اشد ضرورت کا احساس کیا گیا ہے اور نا ہی آزاد کشمیر حکومت کو بااختیار اور ذمہ دار حکومت بنانے کی کوئی سوچ یا کوشش نظر آتی ہے۔غیر سنجیدگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ '' پی ٹی آئی '' کو ''ایم سی'' کی رفاقت میسر آنے کے باوجود حکومت میں آنے کا بالکل بھی یقین نہیں ہے۔ اس طرح عیاں ہے کہ '' پی ٹی آئی'' کی حکومت آنے پر بھی آزاد کشمیر میں قبیلائی وعلاقائی بغض و عناد اور آزاد خطے و اس کے عوام کو خراب کرنے کے سلسلے کو مزید تقویت حاصل ہو سکتی ہے،ایسا تاثر اس منشور کا جائزہ لینے سے ہی سامنے آتا ہے۔
 
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 615583 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More