عمرہ کلچر!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
یہ تو طے ہے کہ رمضان المبارک میں دو قسم
کے لوگ اپنے عمل میں بہت آگے چلے جاتے ہیں، دونوں کا عمل ایک لحاظ سے ایک
جیسا ہی ہے، مگر روح کے حساب سے ایک دوسرے کے متضاد ۔ ایک قسم ان لوگوں کی
ہے جو نیکی کے موسمِ بہار میں خوب نیکیاں کمانا چاہتے ہیں، راتوں کی تراویح،
تہجد، تلاوت قران پاک اور صدقات و خیرات ان کی مصروفیات ہوتی ہیں، دوسری
طرف تاجر طبقہ ہے، کہ رمضان المبارک کے آتے ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں
میں بے تحاشا اضافہ کردیتے ہیں، ان کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ ہر چیز میں
اسی نسبت سے منافع کمایا جائے جس نسبت سے نیکیوں کے اجروثواب کا وعدہ کیا
گیا ہے۔ اتنا اضافہ تو ان کے بس کا روگ نہیں ہوتا، تاہم اس اضافے کے لئے وہ
اپنی پوری توانائیاں بروئے کار لانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ یہاں
ستم یہ بھی ہوتا ہے کہ یہی منافع خور اور ذخیرہ اندوز جب عوام کے جسم سے
رہاسہا خون بھی نچوڑ لیتے ہیں تو اسی منافع سے عمرہ کی ادائیگی کرتے ،خیرات
کا اہتمام کرتے اور ثوابِ دارین کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
عمرہ کرنے کے لئے چار قسم کے لوگ نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں، ایک قسم ان
لوگوں کی ہے، جو زندگی بھر اﷲ کا گھر دیکھنے کی تمنا دل میں پالتے ہیں، مگر
اتنی پونجی نہیں ہوتی کہ اس قدر اخراجات کرکے وہ اپنی آرزوؤں میں رنگ بھر
سکیں، اپنی خواہشوں کی آبیاری کرسکیں۔ مگر پائی پائی جوڑ نے کے بعد آخر
ایسا وقت آجاتا ہے جب ان کی مرادیں برآتی ہیں، اور انہیں ’بلاوا‘ آجاتا ہے،
بہت سے غریب لوگ جب عمرہ کی سعادت حاصل کرآتے ہیں تو ان کے اس عمل کو ایک
انہونی ہی قرار دیا جاتا ہے، کہ وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود اﷲ تعالیٰ
نے ان کو حاضری کا موقع دیا۔ دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو معاشی لحاظ سے
درمیانے درجے کے ہیں، بس ایک آدھ موقع پا کر حج یا عمرہ کر آتے ہیں، جو اُن
کے عمر بھر کا اثاثہ ہوتاہے۔ تیسری قسم ان سرمایہ داروں کی ہے جن کے پاس
دولت کا کوئی حساب ہی نہیں، وہ کسی بھی صبح فیصلے کرتے ہیں کہ شام کو انہوں
نے نماز حرمین شریفین میں ادا کرنی ہے، اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ کراچی کے بہت
سے تاجر ہر جمعہ سعودی عرب ہی ادا کرتے ہیں۔ بے شمار لوگ ایسے ہی جن کے
عمرے شمار کی حدود پار کرچکے ہیں۔ چوتھی قسم کے لوگ بھی ہیں، جو نعت خوانی
وغیرہ کو اپنا پیشہ بناتے ہیں اور پھر اسی کی برکت سے لوگ انہیں ہاتھوں پر
اٹھاتے، کندھوں پر بٹھاتے ہیں، اور عمرہ ویزہ خرچہ سمیت دیتے اور اسی عمل
سے وہ خود بھی ثوابِ دارین کا حصول اپنے لئے ممکن بناتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے
عمرے بھی سرمایہ داروں کی طرح بس ہاتھ کے اشارے کے فاصلے پر ہوتے ہیں، جب
چاہا دوسروں کے خرچ پر ہوآئے۔ یہاں ایک اور قسم کے عمرے بھی سامنے آتے ہیں،
وہ ہیں سرکاری خرچ پر ادا کیا جانے والے عمرے۔ صدر ہوں یا وزیراعظم، یا ان
کے ساتھ جانے والے بہت سے لوگ، یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ قوم کے تحفظات پر
اسے بتایا جاتا ہے کہ اس عمرے (یا حج) کے اخراجات صاحب نے اپنی جیب سے اد ا
کئے ہیں۔ان کی باتوں پر البتہ یقین کوئی نہیں کرتا۔
جس کے پاس پیسہ ہے وہ عمرہ کرے یا خیرات ، اس کی مرضی، مگر اس حقیقت سے
آگاہی ہونی چاہیے کہ عمرہ مکمل طور پر ذاتی نیکی ہے، اور صدقہ ، خیرات اور
دوسروں کی مدد کرنا جہاں ذات کے لئے نیکی کا ذخیرہ فراہم کرتے ہیں، وہاں اس
سے خلقِ خدا بھی راضی ہوتی ہے، بنیادی طور پر یہی اصل مدعا ہے۔ مگر اپنے
ہاں نیکی میں بھی ذاتی مفاد کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ سعودی مفتی اعظم شیخ
عبدالعزیز آل شیخ نے بھی کہا ہے کہ بار بار ادائیگی سے عمرے کی افادیت ختم
یا کم ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب سے بھی اس قسم کے فیصلوں
کی خبریں آتی رہتی ہیں کہ ایک فرد کو حج یا عمرہ کا کئی سال بعد موقع دیا
جائے۔ مگر یہاں جو لوگ خیرات کرتے ہیں، اس کی تفصیل بھی کسی المیے سے کم
نہیں، کہ ایسے موقع پر بھی بھگدڑ مچ جاتی ہے، بسا اوقات کچھ لوگ مارے بھی
جاتے ہیں۔ جب ملک میں غربت کا یہ عالم ہو، تو ایسے میں عمرہ کرتے وقت سوچنا
ضرور چاہیے۔ کیا دوسروں کے غم بانٹنے اور ان کو خوشیاں دینے کا زیادہ ثواب
ہے، یا اپنی ذات کے لئے عمرہ کرنے کا، وہ بھی اکثر ایسے کہ پیسہ دوسرو ں کا
ہی ہوتا ہے۔
|
|