بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ازمولانا مفتی محمد شعیب اﷲ خان ،مہتمم جامعہ مسیح العلوم ،بنگلور
اسلام میں جہاں اعتقادات و عبادات ،معاشرت واخلاق اور حکومت وسیاست وغیرہ
کے مکمل و مستحکم نظام موجود ہیں ،وہیں اس میں ’’اقتصادی نظام‘‘بھی ایک
مکمل و مضبوط شکل میں موجود ہے ۔اور اس کا ہونا ضروری بھی تھا ،کیونکہ
اسلام کا دعوی ہے کہ وہ ایک مکمل دین ہے ،اگر اس میں یہ نظام نہ ہوتا تو وہ
مکمل ہونے کے بجائے ناقص ہوتا ،اور ظاہر ہے کہ جب وہ مکمل ہے تو اس میں اس
نظام کا بھی ایک مکمل خاکہ و نقشہ ہونا ضروری ہے ۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ
اسلام محض چند رسومات کا نام ہے جن میں نماز و روزہ وغیرہ عبادات شامل ہیں
،اور جو شخص اس قدر کر لیتا ہے وہ پورا و پکا مسلمان ہے ، خواہ وہ حلال
وحرام کی تمیز کرے یا نہ کرے ،اور بیع وتجارت میں صحیح وفاسد ،اچھے برے میں
فرق کرے یا نہ کرے ، ان لوگوں نے اسلام کی ایک ناقص تصویر پر اکتفاء کر لیا
ہے ۔
الغرض اسلام میں نظام اقتصاد بھی مکمل طور پر موجود ہے جس کو سمجھنے کی
ضرورت ہے ، اور اسی کے ساتھ یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ دنیا میں رائج جدید
معاشی نظام و نظریات کے مقابلہ میں اسلام کے لائے ہوئے نظام میں بے شمار
خوبیاں ہے ۔یہاں میں چند اہم امور کی جانب توجہ مبذول کراتاہوں :
(۱) سب سے پہلی و بڑی خوبی اس نظام کی یہ ہے کہ یہ نظام ’’ نظام ربانی‘‘ ہے
جو اﷲ جل وعلی کی جانب سے نازل کردہ ہے ،جس کی بنیاد وحی الہی پر ہے ، یا
اسی کی روشنی میں کیا گئے اجتہاد پر ہے ، یہ کسی افلاطون یا ارسطو کا بنایا
ہوا یا کسی ادارے و تحریک کا پیدا کردہ نہیں ہے ، اس کے بر خلاف دوسرے نظام
کسی ایک یا چند انسانوں کے بنائے ہوئے نظام ہیں ،خواہ وہ سرمایہ داری نظام
ہو یا اشتراکی نظام ہو یا کوئی اور ، اس لئے اسلامی نظام معیشت مستند و
ناقبل تغیر ہے تو یہ دوسرے نظام نہ مستند ،نہ ناقابل تغیر ہیں۔
(۲) اس کا رشتہ ایمان و توکل ،عمل و تقوی سے نہایت گہرا اور عمیق ہے ،اور
اگر اس خوبی و خصوصیت کو اس سے الگ کردیا جائے تو پھر اس کو اسلامی
اقتصادیات یا اسلامی معاشیات کہنا ہی غلط ہو جائے گا ۔اسلام یہ کہتا ہے کہ
معاش کے حصول کے لئے جہان تگ و دو اور محنت و مجاہدہ چاہئے وہیں ایمان و
عمل؛ بھی چاہئے کیونکہ یہ چیزیں بھی معاش کے لئے جالب ہیں ۔ اسی لئے قرآن
کریم میں معاش کو ایمان و تقوی سے جوڑا گیا ہے ۔ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ:
﴿ وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا
عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا
فَاَخَذْنٰھُمْ بِمَاکَانُوْایَکْسِبُوْنَ ﴾ [الاعراف:۹۶]
(اور اگر قریہ والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر زمین و
آسمان سے برکتوں کے دہانے کھول دیتے،لیکن انھوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کو
ان کے کئے پر ان کی پکڑکر لی )
اس آیت میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ایمان و تقوی اسلامی اقتصادیات کے
اہم اسباب میں سے ہے ،اور یہ برکتوں و راحتوں کے حصول کا ذریعہ بہترین ہیں
لہذا جو یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں راحت وآرام کے ساتھ رہے اس کو چاہئے کہ وہ
ایمان و تقوی کی زندگی کو لازم پکڑے ۔
ایک جگہ ارشاد ربانی ہے:
﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا، وَّیَرْزُقْہُ مِنْ
حَیْثُ لَا یَحْتَسِب، وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہ،
اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ، قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ
قَدْرًا﴾ [الطلاق:۳-۲]
(اور جو شخص اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ اس کے لئے کوئی راستہ نکالتا ہے ،اور اس کو
ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں جاتا ،اور جو اﷲ پر توکل
کرتا ہے اﷲ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے ، بے شک اﷲ اپنے معاملہ کو پہنطانے
والا ہے ، تحقیق کہ اﷲ تعالی نے ہر چیز کا ایک اندازا مقرر کیا ہے)
اس میں اﷲ سے ڈرنے اور اﷲ پر توکل اختیار کرنے پر رزق کی ذمہ داری اﷲ نے
اپنے اوپر لی ہے ،اور بتیا ہے کہ اسیے لوگوں کو اﷲ تعالی بے گمان طور پر
رزق عطا کرتا ہے ۔
ایک موقعہ پر فرمایا گیا ہے :
﴿ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا، یُّرْسِلِ
السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ
وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًا﴾
[نوح:]
(اپنے رب سے استغفار کرو ،بلاشبہ وہ بہت بخشنے والا ہے ،وہ تم پر بہتی بارش
کرے گا ،اور تمہارے مالوں اور اولاد کو زیادہ کرے گا اور تمہارے لیے باغات
مقرر کرے گا اور نہریں مقرر کرے گا )
اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں سے استغفار و توبہ کا ثمرہ و فائدہ یہ بھی ہے کہ
اﷲ تعالے بارشیں برساتے ہیں ،مال و اولاد میں اضافہ کرتے ہیں اور باغات و
نہروں کا انتظام فرماتے ہیں،اسی لیے روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب
رضی اﷲ عنہ کے دور میں بارش کا قحط ہوگیا تو آپ لوگوں کو لیکر نماز استسقاء
کے لیے نکلے اور وہاں صرف استغفار کر کے واپس چلے آئے ،لوگوں نے عرض کیا کہ
آپ نے صرف استغفار کیا اور بارش طلب نہیں کی ؟ تو فرمایا کہ میں نے تو
آسمان کے نچھتروں سے جہاں سے کہ بارش ہوتی ہے پانی طلب کیا ہے ، پھر آپ نے
یہی آیت تلاوت فرمائی ۔(سنن سعید بن منصور:۵؍۳۵۳،سنن بیہقی: ۳؍۳۵۱ ،ابن ابی
شیبہ:۶؍۶۱،مصنف عبد الرزاق: ۳؍۸۷، تفسیر طبری:۲۹؍۹۳،تفسیر القرطبی:۱۸؍۳۰۲)
حضرت حسن بصری کے پاس ایک شخص نے قحط کی شکایت کی تو فرمایا کہ استغفار کرو
،ایک اور شخص نے فقر و فاقہ کی شکایت کی تو فرمایا کہ استغفار کرو،ایک
تیسرے آدمی نے عرض کیا کہ میرے لیے اولا د کی دعاء کیجئے ،تو فرمایا کہ
استغفار کرو،ایک اور شخص نے اپنے باغ کے سوکھ جانے کی شکایت کی تو فرمایا
کہ استغفار کرو،حضرت صبیح کہتے ہیں کہ ہم نے ان سے اس سلسلہ میں پوچھا کہ
آپ نے سب کا ایک ہی جواب دیا، تو فرمایا کہ یہ میں نے اپنی جانب سے نہیں
کیا ہے بلکہ اﷲ تعالے سورہ نوح میں یہ فرماتے ہیں ۔(تفسیر قرطبی:۱۸؍۳۹۲)
اور ایک حدیث میں حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ ’’
مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللّٰہُ لَـہٗ مِنْ کُلِّ ھَمٍّ
فَرَجاً،وَمِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَخْرَجاً ، وَرَزَقَہٗ مِنْ حَیْثُ لَا
یَحْتَسِبُ ‘‘ (جو استغفار کو لازم پکڑلے اﷲ اس کے لیے ہر غم دور ہونے کا
راستہ بناتے ہیں اور ہر تنگی سے نکلنے کی سبیل کرتے ہیں اور وہاں سے اسے
رزق عطا کرتے ہیں جہاں سے اسے کوئی گمان بھی نہیں ہوتا ) (ابو داوٗد: سنن
بیہقی:۳؍۳۵۱،معجم اوسط:۶؍۲۴۰،سنن کبری للنسائی:۶؍۱۱۸،ابن ماجہ: مسند احمد:
مستدرک حاکم:۴؍۲۹۱،قال الحاکم: صحیح الاسناد)
ان آیات واحادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی اقتصادیات کا ایمان و
عمل اور تقوے سے نہایت گہرا تعلق ہے ،لہذا جہاں اسلامی اقتصادیات کی بات کی
جائے وہاں یہ ضروری ہے کہ اس کے رشتے کو ایمان و عمل سے جوڑا جائے ، اور یہ
یقین پیدا کیا جائے کہ محنت ومجاہدہ ایک ظاہری سبب و ذریعہ ہے تو معاش کا
ایک باطنی سبب و ذریعہ ایمان و عمل اور تقوی و طہارت ہے ،اگر یہ باتیں نہ
ہوں تویہ نظام کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا ،لہذا جہاں بے ایمانی ہو ،بد
عملی ہو ،تقوی کی جگہ فسق و فجور کا زور ہو ،شہوات و لذات کا بازار گرم ہو
، وہاں یہ نظام کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
اس کے برخلاف سر مایہ دارانہ نظام اور جاگیر دارای نظام میں ایمان و عمل
صالح کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا ،بلکہ ان نظاموں کی بنیاد و اساس ہی بے
ایمانی و مادہ پرستی پر رکھی گئی ہے ،اور اس لئے یہ نظام ایمان کے دشمن اور
نیکی کے قاتل ہیں ،ان کو اﷲ پر ایمان و اعتماد کے بجائے محض روپے پیسے پر
ایمان ہے ۔
(۳)تیسری اہم خصوصیت اسلامی نظام معیشت کی یہ ہے کہ اس کو اخلاقی تعلیمات
سے جوڑا گیا ہے ، اسی لئے اس نظام میں سنگدلی ،کنجوسی ، بے رحمی، وخود غرضی
کی کوئی گنجائش نہیں ،بلکہ ان کے بر عکس ہمدردی و غمخواری ، سخاوت و فیاضی
، رحمدلی و وسعت ظرفی پر اس نظام کو استوار کیا گیا ہے ۔نیز سچائی وصداقت ،
امانت و دیانت ،اس نظام کے اہم عناصر ہیں ،اور اس میں دھوکہ بازی و فریب
دہی ،جھوٹ و ہیر پھیر کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اسی لئے اسلام میں حلال وحرام
اور اچھے وبرے کا فرق ملحوظ رلھا گیا ہے ،یہ نہیں کہ’’ ہرچہ آمد در گھسیٹ
‘‘والا اصول کار فرما ہو،جیسے سر مایہ دارانہ نظام اور جاگیر دارانہ نظام
میں دیکھا جاتا ہے ۔ اس لئے یہاں جائز و ناجائز اور حلال وحرام کے اصول
مقرر ہیں ،ان کا لحاظ کرتے ہوئے معیشت کا نظام چلانا ضروری ہے ۔لہذا چوری
،ڈکیتی ،سود و جوا ،رشوت وغیرہ کو اس میں در آنے کا کوئی موقعہ نہیں ،اسی
طرح دھوکہ وفریب سے ،غصب و لوٹ سے ،کمائی کا کوئی سوال نہیں ،نیز حرام و
ناجائز چیزوں کی تجارت و بیع اور ملازمت و صنعت کو ذریعہ بنانے کی کوئی
گنجائش نہیں ؛ کیونکہ یہ سب امور ناجائز و حرام ہیں ۔اس کے بر خلاف دیگر
نظاموں میں اگرچہ کہ بعض امور کو غلط سمجھاجاتا ہے جیسے چوری و ڈکیتی و غصب
وغیرہ ،مگر سود و قمار وجوا و سٹااور غرر و دھوکہ تو ان نظاموں میں شیر
مادر کا درجہ رکھتا ہے ، اسی طرح تجارت کے نام پر بہت سی شکلیں حرام کمائی
کی جائز و روا رکھی گئی ہیں ،جن کی اسلامی نظام معیشت میں کوئی گنجائش
نہیں۔
یہاں چند احادیث ملاحظہ کیجئے :
(۱)حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ا نے فرمایا کہ’’
اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْأَمِیْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ
وَالصَّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ ‘‘ (سچا امانت دار تاجر نبیوں اور
صدیقین اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا )۔ (ترمذی: ۱۱۳۰ ، دارمی:۲۴۲۷)
(۲) حضرت حکیم بن حزام رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا کہ
خرید و فروخت کرنے والے دو شخصوں کو (خرید نے بیچنے )کا اختیار اس وقت تک
ہے جب تک کہ وہ دونوں جدا نہ ہوں ،پس اگر یہ دونوں خریدنے بیچنے والے سچ
بولیں اور( چیز و قیمت کے عیب و کھوٹ کو) بیان کردیں تو ان کے لیے ان کے
معاملہ میں برکت دی جاتی ہے،اور اگر وہ( عیب و کھوٹ کو ) چھپائیں اور جھوٹ
بولیں تو ممکن ہے کہ وہ نفع کمالیں اور تجارت کی برکت کو ختم کردیا جاتا ہے
۔ (بخاری:۱۹۴۰ ، مسلم : ۲۸۲۵ ،ترمذی:۱۱۶۷،نسائی:۴۳۸۱،ابو داوٗد:۳۰۰۰)
(۳)حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ انے فرمایا کہ سب سے
زیادہ پاکیزہ کمائی ان تاجرین کی کمائی ہے جو بات کرتے ہیں تو جھوٹ نہیں
بولتے ،اور جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہیں کرتے ،اور
جب کسی بات کا وعدہ کرتے ہیں تو وعدہ خلافی نہیں کرتے ،اور جب کسی سے کوئی
چیز خریدتے ہیں تو چیز کی برائی نہیں کرتے ،اورجب اپنی چیز بیچتے ہیں تو اس
چیز کی جھوٹی تعریف نہیں کرتے ،اور جب ان کے ذمہ کسی کی چیز ہوتی ہے تو ٹال
مٹول نہیں کرتے اور جب دوسروں پر ان کی کوئی چیز ہوتی ہے تو اس کو تنگ نہیں
کرتے ۔ (الترغیب:۲؍۵۸۶)
(۴) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے،وہ یہ کہ ایک دفعہ رسول
اﷲ ا کا کھانے (کی کسی چیز )کے ایک ڈھیر پر سے گزر ہوا ،آپ نے اس ڈھیر کے
اندر اپنا ہاتھ ڈالا ،تو آپ کی انگلیوں میں کچھ تری لگ گئی ،آپ نے اس کھانا
بیچنے والے سے فرمایا کہ اے کھانے والے! یہ کیا ہے ؟اس نے کہا کہ بارش کا
پانی اس میں پڑگیا ہے،آپ نے فرمایا کہ پھر اس ترکھانے کو تو نے اوپر کیوں
نہیں رکھا تاکہ لوگ اس کو دیکھتے،جو شخص ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے
نہیں۔(مسلم:۱۴۷،ترمذی:۱۲۳۶)
(۵) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ا کو یہ فرماتے
ہوئے سنا کہ’’ اَلْحَلِفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ، مَمْحَقَۃٌ
لِلرِّبْحِ‘‘ اور بعض روایات میں ’’ مَمْحَقَۃٌ لَلْکَسْبِ ‘‘ہے اور بعض
میں’’ مَمْحَقَۃٌ لِلْبَرَکَۃِ‘‘ہے (قسم سامان کو چلتا کردیتا ہے اور کمائی
کی برکت کو مٹا دیتا ہے )۔ (بخاری:۱۹۴۵،مسلم:۳۰۱۴،نسائی:۴۳۸۵)
(۶)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا کہ:’’ لَا تَشُوْبُوْا
اللَّبَـنَ لِلْبَیْعِ‘‘ (بیچنے کے لیے دودھ میں ملاوٹ نہ کرو ) اسی حدیث
میں ہے کہ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ ’’ تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص
انگور کا شیرہ ایک گاؤں میں لے آیا ،اور اس میں خوب پانی کی ملاوٹ کی ، اور
بیچا، پھر وہاں سے ایک بندر خریدا اورکشتی میں سمندر کا سفر شروع کیا ،جب
کشتی موجوں کے بیچ پہنچی تو اﷲ نے اس بندر کے دل میں ڈالا اور وہ بندر اس
شخص کے پیسوں کا بٹوہ اٹھا لیا اور کشتی کے اوپر ایک لکڑی پر چڑھ گیا اور
بٹوہ کھولا ،اس کا مالک اس کو دیکھ رہا تھا،بندر ایک دینار سمندر میں ڈالتا
اور ایک دینار کشتی میں ڈالتا رہا، یہاں تک کہ نصف نصف کردیا ۔(شعب
الایمان:۴؍۳۳۳،الترغیب:۲؍۵۷۳)
(۷)حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ا کو یہ
فرماتے ہوئے سنا کہ’’ لَا یَحِلُّ لـِأَحَدٍ یَبِیْعُ شَیْئًا إِلَّا
بَیَّنَ مَا فِیْہِ وَلَا یَحِلُّ إِنْ عَلِمَ ذٰلِکَ إِلَّا بَیَّنَہٗ ‘‘
(کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ کوئی چیز فروخت کرے مگر یہ کہ اس کے عیب کو
بیان کردے اور کسی کے لیے حلال نہیں اگر وہ اس کو جانتا ہو مگر یہ کہ اس کو
بتا دے)۔(مسند احمد:۱۶۰۵۶،حاکم وقال صحیح الاسناد:۲؍۱۲،سنن بیہقی:۵؍۳۲۰)
یہ چند احادیث ہیں جن میں مختلف قسم کی باتیں معاشی و اقتصادی نظام کے
متعلق آئی ہیں اور ان میں سب کی سب اخلاقی تعلیمات ہیں ،سچائی کے ساتھ
تجارت کا حکم ،دھوکہ وغبن سے پرہیز کی تاکید ،مال کے عیب کو چھپانے کی
ممانعت ، چیزوں میں ملاوٹ کی حرمت وغیرہ بیان کی گئی ہے ۔اس سے معلوم ہوا
کہ اسلامی نظام معیشت میں اخلاق کا بڑا حصہ ہے ۔
اس کے بر عکس دیگر نظامہائے معیشت کا اصول یہ ہے کہ اخلاق سے معیشت کا کوئی
جوڑ نہیں ،بلکہ ان کے مطابق اگر اقتصادیات کو اخلاق سے جوڑا جائے تو اس کا
ڈھانچہ قائم نہیں ہو سکتا ۔اس لئے ان نظاموں میں ہر طرح کی بد اخلاقی کو
روا رکھا گیا ہے ۔لہذا دھوکہ، فریب ، جھوٹ وغیرہ کی مختلف شکلیں ان نظاموں
میں رائج ہیں اور ان کو کوئی برا نہیں سمجھتا ،کیونکہ ان کے نزدیک منفعت
اندوزی ہی معاش سے مقصود اعظم ہے ۔
(۴) اس نظام میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ مادیت و روحانیت دونوں کو متوازن طور
پر جمع کر دیا گیا ہے ،یہ اگر ایک جانب مالی و مادی نظام ہے جس سے مالی
ترقی و تطور پیش نظر ہے تو دوسری جانب اس میں روحانیت کو ترقی دینے کا بھی
ایک نظام ہے ،اسی لئے قرآن و حدیث میں اقتصادی نظام کو پیش کرتے ہوئے مادیت
کے ساتھ روحانیت کو بھی جوڑ دیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے:
﴿ وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا
عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا
فَاَخَذْنٰھُمْ بِمَاکَانُوْایَکْسِبُوْنَ ﴾ [الاعراف:۹۶]
(اور اگر قریہ والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر زمین و
آسمان سے برکتوں کے دہانے کھول دیتے،لیکن انھوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کو
ان کے کئے پر ان کی پکڑکر لی )
ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ہم اﷲ کے نبی علیہ
السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جوان شخص پہاڑی راستے سے حاضر
ہوا، ہم نے اسے دیکھ کر آپس میں کہا کہ کاش یہ جوان اپنی جوانی ،اپنی قوت
اور اپنی جد و جہد سب اﷲ کے راستے میں لگا دیتا ! یہ بات رسول اﷲ ا نے سن
لی ،اور فرمایا کہ :
’’ وَمَا سَبِیْلُ اللّٰہِ إِلَّا مَنْ قُتِلَ ، مَنْ سَعٰی عَلٰی
وَالِدَیْہِ فَـفِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَمَنْ سَعٰی عَلٰی عِیَـالِہٖ
فَفِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، وَمَنْ سَعٰی عَلٰی نَفْسِہٖ لِیُـعَـفَّـھَا
فَـفِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ،وَمَنْ سَعٰی عَلٰی التَّـکَاثُـرِ فَـفِيْ
سَبِیْلِ الشَّیْطَانِ ‘‘(کیا اﷲ کے راستے میں صرف وہی ہے جو قلہ کیا
جائے؟جو اپنے والدین کے لیے کوشش کرتا ہے وہ بھی اﷲ کے راستے میں جہاد کرنے
والا ہے اور جوشخص اپنے اہل دعیال کے لیے حلال کی تلاش وکوشش کرتاہے وہ بھی
اﷲ کے راستہ میں جہاد کرنے والا،اور جو اپنی جان کے لیے حرام سے اس کو
بچانے کی خاطر حلا ل کی کوشش کرتا ہے وہ بھی اﷲ کے راستے میں جہاد کرنے
والا ہے ،اور جو محض مال بڑھانے کے لیے کوشش کرتا ہے وہ شیطان کے راستے میں
ہے)۔( طبرانی فی الاوسط:۴؍۲۸۵،بیہقی:۹؍۲۵ )
اورحضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ا نے فرمایا کہ: ’’ مَنْ
طَلَبَ مَکْسَبَۃً مِّنْ بَابِ الْحَلَالِ یَکُفُّ بِھَا وَجْھَہٗ عَنْ
مَسْأَلَۃِ النَّاسِ وَوَلَدَہٗ وَ عِیَالَہٗ جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ‘‘( جوشخص حلال کمائی تلاش کرتاہے
تاکہ لوگوں سے مانگنے سے اپنے کو اوراپنے اہل وعیال کوبچائے، تووہ قیامت کے
دن نبیوں اورصدیقوں کے ساتھ ہوگا)۔( تاریخ بغداد للخطیب: ۸؍۱۶۸ )
اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی معیشت میں مادیت کے ساتھ روحانیت کا جوڑ پیدا
کیا گیا ہے ،لہذا یہ سرمایہ داری نظام اور اشتراکی نظام کی طرح محض مادی
نظام نہیں ہے جس کا مقصد صرف مال و دنیا ہو ،بلکہ اس میں مال کے ساتھ
روحانیت بھی مقصود ہے ۔
(۵) ایک خصوصیت اسلامی نظام معیشت کی یہ ہے کہ اس کی بنیاد ’’ توازن
اجتماعی‘‘ و ’’عدل اجتماعی ‘‘پر رکھی گئی ہے ، جس کی وجہ سے اس نظام میں
امیر وغریب دونوں کا بھلا ہے ،سرمایہ دار و مزدور دونوں کے ساتھ انصاف ہے
،ایسا نہیں جیسے سرمایہ دارانہ نظام میں ہے کہ سرمایہ دار کو مختار کل
تسلیم کر لیا جائے ،اور ذرائع پیداوار پر بھی اس کی بے قید و آزاد ملکیت
مان لی جائے ،اور سرمایہ کے استعمال میں اور اس سے نفع اندوزی میں اس کو
بالکلیہ آزاد مان لیا جائے ،اور ایسا بھی نہیں جیسے اشتراکی نظام میں ہے کہ
فرد کی ذاتی ملکیت ہی کا سرے سے انکار کردیا جائے اور اس میں اس کے ذاتی
تصرفات کو کالعدم قرار دیدیا جائے ،اور اشیاء و املاک کو حکومت کی اجتماعی
ملکیت کہا جائے ،نہیں بلکہ اسلام نے ایک جانب فردکے سرمایہ میں اس کی ملکیت
کو تسلیم کیا تو دوسری جانب اس کو آزاد بھی نہیں چھوڑا ،بلکہ اس پر قانونی
و اخلاقی پانبدیاں عائد کیں ، تاکہ توازن بر قرار رہے ،نیز مزدوروں اور
سرمایہ داروں میں تقسیم عمل و نفع کی ایک منصفانہ راہ پیدا کی ،جس سے دونوں
طبقات کا بھلا ہوتا ہے ،اور کہیں بھی ناانصافی کا کوئی شائبہ بھی باقی نہیں
رہتا ۔اس طرح اس نظام میں ’’ فرد ومعاشرے‘‘ کی مصلحتوں کا ایک توازن قائم
کیا گیا ہے ،اگر کسی جگہ فرد کی رعایت سے جماعت کی مصلحت فوت ہوتی ہو تو
وہاں جماعت و معاشرے کی رعایت کو اہم مانا گیا ہے ،
(۶)اس نظام کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں ایک جانب اگر یہ بات ہے کہ یہ
ناقابل تغیر و تبدل ہے کیونکہ یہ اﷲ کا بھیجا ہوا ہے تو دوسری جانب اس میں
احوال وکوائف ، زمان و مکان کے لحاظ سے حسب ضرورت ’’اجتہاد‘‘ سے بھی کام
لیا جا سکتا ہے ،اور ’’ اجتہادی احکام‘‘ میں تغیر وتبدل بھی کیا جا سکتا ہے
جس کی وجہ سے اقتصادی نظام میں کوئی تنگی و پریشانی نہیں پیش آسکتی ۔لیکن
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر حکم خداوندی میں اجتہاد کی راہ نکال کر اس کو بدل
دیا جائے ،اور سود و رشوت کی حلت کا فتوی صادر کر دیا جائے ، نہیں بلکہ یہ
اجتہاد صرف اپنے دائرے میں ہوگا ،جہاں اس کی گنجائش ہے ۔ الغرض اسلامی نظام
معیشت میں اگر ایمان و تقوی ،اخلاق و کردار اور عدل و انصاف ،کے عناصر ہیں
تو دیگر نظاموں میں اس کے بر عکس مادہ پرستی ،نفع اندوزی و لذت کوشی کے
عناصرکام کرتے ہیں ۔ |