زکوٰۃ کی ادائیگی،چند توجہ طلب امور
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
زکوٰۃ کے لغوی معنی پاکیزگی ، ستھرائی اور
برکت کے ہیں یعنی جس مال کی زکوٰۃ نکالی جائے تو وہ بقیہ مال کو پاک و صاف
کر دیتی ہےء اور اس مال میں برکت پڑ جاتی ہے اور وہ چوری ڈاکہ و غیرہ سے
محفوظ و مامون ہو جاتا ہے۔حدیث شریف کے مطابق خشکی و تری میں جو مال بھی
ضائع ہوتا ہے وہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
زکوٰۃ کی اہمیّت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں جہاں
جہاں نماز کا حکم ہے وہیں ساتھ ہی زکوٰۃ کی ادائیگی کا بھی حکم دیا گیا ہے
اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی صورت میں سخت عذاب کی وعید ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے( مفہوم) جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور
پھر اس کی زکوٰ ۃ نہیں نکالتے تو روز قیامت اس سونے اور چاندی کے پترے بنا
کر انھیں آگ میں گرم کیا جایئگا اور پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں،
پیٹھوں اور پہلووں کو داغا جائیگا اور ان سے کہا جائے گا یہی وہ خزانہ ہے
جسے تم اپنے لئے جمع کرتے تھے(القرآن)۔
سوال یہ ہے کہ زکوٰۃ کس قسم کے مال پر اور کتنی مقدار میں فرض ہے؟ تو
ازروئے مسئلہ زکوٰۃ چار قسم کے اموال پرفرض ہے یعنی سونا، چاندی ، نقد رقم
اور تجارتی مال، علاوہ ازیں زمین پر عشر اور بھیڑ بکریوں وغیرہ کا نصاب الگ
ہے۔ اس میں تفصیل اس طرح ہے کہ سونا اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولے87.479=گرام
ہے اور چاندی بالکل ہی نہیں اور نہ ہی تجارتی مال ہے اور نہ ہی نقد رقم ہے
، اسی طرح اگر چاندی ساڑھے باون تولے= 612.35گرام ہے اور تجارتی مال یا نقد
رقم ایک روپیہ بھی نہیں، اور اگر تھوڑی سی مقدار میں سونا یا چاندی ہے
یاکچھ تجارتی مال اور نقد رقم بھی ہے تو سب کا مجموعہ اگر ساڑھے باون تولہ
چاندی کی مروجہ قیمت تک پہنچ جاتا ہے اور یہ مال اسکی بنیادی ضروریات سے
زائد ہے اور وہ شخص مقروض بھی نہیں ہے اور اس مال پر سال گزر گیا ہے تو اب
اس پر2.50% کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔(بدائع:جلد۲ صفحہ۴۱۱)
یعنی یہ لوگ زکوٰۃ دینے کے اہل ہیں اور انھیں شرعی اصطلاح میں ’’صاحب
نصاب‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور جن لوگوں کے پاس اتنا مال نہیں اور وہ غرباء و
مساکین ہیں لہٰذا یہ لوگ زکوٰۃ لے سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ صاحب نصاب نہیں
ہیں۔ او ازروئے شرع زکوٰۃ لینے کے پہلے مستحق اپنے غریب رشتہ دار اور بہن
بھائی ہیں پھر دوسروں کی باری آتی ہے، یعنی اوّل خویش بعد ہ درویش!!
اور زکوٰۃ کی ادایئگی کے بارہ میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ جسے
زکوٰ ۃ دی جارہی ہے اسے یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ زکوٰۃ کامال ہے لہٰذا عام
طور پر زکوٰۃ دینے والے، لینے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے یہ
کہتے ہیں کہ ’’میاں یہ زکوٰۃ کا مال ہے‘‘۔
حالانکہ یہ ضروری نہیں کیونکہ زکوٰۃ دینے میں نیّت کا اعتبار ہے لہٰذا بچوں
کی عیدی کے نام پریا ہدیہ کے نام پر زکوٰۃ دی جاسکتی ہے تاکہ لینے والا
خفگی محسوس نہ کرے(درّالمختار)
یہ تمام باتیں اپنی جگہ پر مگر عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ بہت کم لوگ نصاب
کے مطابق پوری زکوٰۃ نکالتے ہیں اوّل تو نکالتے ہی نہیں اور جو نکالتے بھی
ہیں وہ بھی اندازے سے تھوڑی بہت نکال دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت
ہے کہ اگر سب لوگ پوری پوری زکوٰۃ نکالنے لگ جائیں تو معاشرے میں کوئی غریب
نہ رہے ،آج جو زکوٰۃ لینے والے ہیں وہ کل کو خود زکوٰۃ لینے والے بن جائیں
گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ |
|