بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(قرآن مردہ دلوں کے لیے آب حیات)
رمضان المبارک میں اﷲ رب العامین کی رحمتوں اوربرکتوں کی بے تحاشہ بارش
برستی ہے۔حتیٰ کے اس ماہ مقدسہ میں نیکیوں کااجر بھی عام دنوں سے بڑھ جاتا
ہے۔سورہ الانعام کی آیت 160کے مطابق عام دنوں میں ہر نیکی کا اجر 10گنا
ملتا ہے۔مگراس ماہ مبارکہ کی ابتداء سے ہی نیکیوں کا اجر10گنا سے بڑھ
کر700گنا تک بڑھ جاتا ہے بلکہ جس قدراخلاص بڑھتا جاتا ہے نیکیوں کا اجر بھی
بڑھتا چلا جاتا ہے۔اس ماہ مقدسہ کاقرآن کے ساتھ بھی عظیم تعلق ہے۔جیساکہ
سورہ البقرۃ کی آیت 185میں آیا ہے کہ ا س ماہ مقدسہ میں قرآن کا نزول
ہوا۔قرآن جو کہ بیمار دلوں کی شفاء،مردہ نفوس کے لیے حیات،امراض زدہ سینوں
کے لیے آبِ حیات،گناہوں میں لتھڑے انسانوں کے صدورکوکھرچ کھرچ کرصاف کرنے
والا اورحقیقی حیات کی جلا بخشنے والا ہے۔اس لیے تو رسول کریم ﷺ یہ دعا
فرمایا کرتے تھے:’’اَلّلَھُمَّ اجْعَلِ الْقُرْآنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ
وَنُوْرَصَدْرِیْ وَجِلَاءَ حُزْنِیْ وَذَھَابَ ھَمِّیْ‘‘(اخرجہ
احمد:3712)’’کہ اے اﷲ قرآن کو میرے دل کی بہار بنا دے اوراس سے میراسینہ
روشن کردے اورمیرے غموں کی دوابنادے اورمیرارنج کو لے جانے کا سبب بنا
دے‘‘اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ اسے جتنا تلاوت
کیاجائے دل نہیں بھرتا ۔دنیا کی کوئی کتاب انسان پڑھے تو ایک دفعہ پڑھنے کے
بعددل بھر جاتا ہے مگر آپ جس قدرکثرت سے تلاوت کریں آپ اس سے لطف اندوز ہوں
گے۔خصوصاًجب آپ قرآن کریم کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں گے توآپ کے دل پر چھائے
غفلت کے بوجھ ہٹیں گے اورآپ کی ذاتی زندگی کی اصلاح ہوگی۔ قرآن کریم
ہرجسمانی وروحانی مرض کی دوا ہے۔جسمانی شفاء کی مثال میں نبوی دور کا ایک
واقعہ پیش خدمت ہے۔سیدناابوخدری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’نبی کریم ﷺ کے
صحابہ کی ایک جماعت سفر پر نکلی ۔دورانِ سفرانہوں نے ایک بستی میں پڑاؤڈالا
۔ان کے پاس اشیائے خوردونوش کی کمی ہوگئی تو انہوں نے اس بستی والوں سے کہا
کہ ہماری مہمان نوازی کرو(یعنی ہمیں کچھ کھانے پینے کے لیے دو)مگرانہوں نے
کچھ دینے سے سرے سے انکار کردیا۔صحابہ کرام کی جماعت نے صبر کیا۔اسی دوران
اچانک ایک واقعہ کچھ اس طرح سے ہوا کہ بستی والوں کے سردارکوکسی زہریلی چیز
نے ڈس لیا۔توانہوں نے بہت سے لوگوں سے علاج کروایا مگرافاقہ نہ ہوا۔بستی
والوں میں سے بعض لوگوں نے اپنے بڑوں کو مشورہ دیا کہ وہ جو مسافروں کا
قافلہ فلاں جگہ پڑاؤڈالے ہوئے ہے اس کے پاس جاؤ ممکن ہے ان کے پاس اس کا
علاج ہو۔توبعض لوگ صحابہ کے اس قافلے پاس آئے اوراس چیز کا تذکرہ کیااورکہا
کہ ہمارے سردارکوزہریلی چیز نے ڈس لیا ہے۔مگرکسی کے پاس اس کا علاج نہیں
اگر آپ کے پاس کوئی علاج ہو توہمارے سردارکاعلاج کرو۔توصحابہ کرام کے قافلے
میں سے ایک صحابی فرمانے لگے میرے پاس اس کاعلاج ہے مگر چونکہ تم نے ہماری
مہمان نوازی نہیں کی اس لیے اب تم ہم سے کچھ دینے کا طے کرو گے تو میں
تمہارے سردار کا علاج کروں گا۔تو انہوں نے انہیں کچھ بکریاں دینے کامعاہدہ
کرلیا۔اب اس صحابی رسولﷺ نے ان کے سردار پرسورہ فاتحہ کا دم کرناشروع
کیا۔وہ سورہ فاتحہ پڑھتے جاتے اوراس مریض پرپھونکتے چلے جاتے۔جیسے جیسے اس
پر سورہ فاتحہ کی آیات کا دم ہورہا تھا ویسے ویسے اس مرض میں قوت آتی جارہی
تھی اورگویا وہ رسیوں سے آزادہورہا ہو۔جب دم مکمل ہوگیا تو ان کاسرداربالکل
تندرست ہوگیا اورچلنے لگا گویا اسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اب انہوں نے طے شدہ
معاہدے کے مطابق صحابہ کرام کو کچھ بکریاں دے دیں۔اب طے یہ ہوا کہ بکریاں
ابھی تقسیم نہیں کی جائیں گی بلکہ اﷲ کے رسول ﷺ کے پاس جاکرساراماجراسنایا
جائے گا اورپھر تقسیم ہوگی۔توانہوں نے سفرسے واپسی پر اﷲ کے رسول ﷺ کے پاس
آکرساراماجرا سنایا۔توآپ مسکرائے اور کہا انہیں آپس میں تقسیم کرلو(صحیح
البخاری باب مایعطی فی الرقیۃ علی احیاء العرب بفاتحۃ الکتاب:2276)تواس
واقعہ سے قرآن کی جسمانی شفاء ہونے کا علم ہوتا ہے۔اسی طرح قرآن روح کی
شفاء بھی ہے۔ روحانی مرض کا تعلق دل کے ساتھ ہے جب دل درست ہوتا ہے ساراجسم
درست ہوتا ہے اورجب دل پر غفلت وگمراہی کے پردے چھاجائیں انسان غلط راستوں
پر گامزن ہوجاتا ہے۔اﷲ نے قرآن میں ہی اس بارے میں رہنمائی فرمائی ہے ۔سورہ
یونس کی آیت نمبر57میں ہے کہ :’’اے لوگو!تمہارے پاس رب کی طرف سے نصیحت
آچکی ہے اورسینوں کی بیماریوں کے شفاء آچکی ہے اوراس میں مومنوں کے لیے
ہدایت اوررحمت ہے۔‘‘جب انسان کثرت سے قرآن کی تلاوت کرے گااس کا مفہوم
سمجھنے کی غرض سے ترجمہ تفسیر پڑھے گا تواس کے سینے پر گمراہی و شیطانیت
اورنفسانی خواہشات پر چلنے کی وجہ سے جوپردے چھا چکے ہیں وہ زنگ اتر جائے
گا۔یہ قرآن کریم دنیا اورآخرت کی بھلائیاں سمیٹے ہوئے ہے۔جواس کی تلاوت
کریں گے اوراس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے تو روزِ قیامت یہ ان کے لیے
اﷲ کے سامنے حجت بن کرانہیں جہنم کی آگ سے بچائے گا اورجنت میں داخل کروائے
گا۔مگراس کے برعکس جو اس کی تعلیمات کو پس پشت ڈالیں گے اوردنیا میں اپنی
من مانی کریں گے ،اپنی خواہشات کی پیروی کریں گے،شیطان کے پیچھے لگیں گے
توروزِ قیامت قرآن ان کے خلاف اﷲ کے سامنے حجت بن جائے گا۔ان کے جنت میں
داخلے کے درمیان رکاوٹ بن جائے گا۔اس لیے قرآن سے روگردانی کرنا بہت بڑا
خسارہ ہے۔اسی طرح قرآن کریم اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا۔جیسا کہ حدیث
مبارکہ میں آتا ہے کہ:’’قرآن کریم پڑھا کرو اس لیے کہ قیامت کے دن یہ اپنے
ساتھیوں( پڑھنے والوں) کے لیے سفارشی بن کرآئے گا۔‘‘(مسلم:804)اسی طرح جس
گھر میں قرآن کریم کی تلاوت اہتمام کے ساتھ نہ کی جاتی ہووہ قبر ستان
ہے۔کیونکہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ’’اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ،بے
شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورہ البقرہ کی تلاوت کی جاتی ہو۔‘‘
(مسلم:780) تلاوت قرآن سے گھروں میں خیروبرکت آتی ہے۔شیطان کو قرآن سے
تکلیف ہوتی ہے اس لیے جن گھروں میں قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کا اہتمام
ہو اورگھر والے باقاعدگی سے تلاوت کرتے ہوں وہاں سے شیاطین اورجن بھاگ جاتے
ہیں۔خصوصاً سورہ البقرہ کی تلاوت سے جن وشیاطین سے نجات ملتی ہے۔اس لیے جس
گھر میں قرآن پر عمل نہ کیا جاتا ہو وہ شیطان کا گھر ہے ۔ایسے گھروں میں
شیطان جن رہنا پسند کرتے ہیں۔اس لیے قرآن پر زیادہ سے زیادہ عمل کیا جائے
اور اس کی تلاوت کی جائے۔جو لوگ قرآن سے منہ موڑتے ہیں یعنی اعراض کرتے ہیں
ان کی دنیا بھی تنگ ہوجائے گی اور روزِ قیامت ان کا انجام بہت خطرناک ہوگا۔
اس لیے ہمیں اپنی دنیا وآخرت درست کرنی ہے ناکہ خسارے کا سودا کرنا ہے۔اﷲ
پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |