میڈیا احتیاط کرے!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے
میڈیا کے لئے رولنگ دی ہے کہ ’’جو الفاظ اسمبلی کی کاروائی سے حذف کردیئے
جائیں ، میڈیا انہیں شائع یا نشر نہ کرے ․․ میں اپنی ذمہ داری نبھاتا ہوں،
میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے․․‘‘۔ ایک معزز رکن نے سپیکر کی
توجہ اس اہم مسئلہ کی طرف مبذول کروائی تھی کہ اسمبلی کی کاروائی سے حذف
کئے جانے والے الفاظ میڈیا میں نشر یا شائع ہو جاتے ہیں، اس طرح انہیں
کاورائی سے حذف کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جس خاتون رکن کے بارے میں
وفاقی وزیر خواجہ آصف نے حذف کردیئے جانے کے قابل الفاظ کہے تھے، ان کا
کہنا ہے کہ اسمبلی کی کاروائی سے بھی وہ الفاظ حذف ہوگئے، میڈیا بھی انہیں
قوم کے سامنے نہ لائے، مگر وزراء جو الفاظ سوشل میڈیا پر استعمال کررہے ہیں،
ان کے لئے کون جوابدہ ہے، ان کو پوچھنے والا کون ہے؟ پاکستان کا قانون ساز
ادارہ ہونے کے ناطے پارلیمنٹ کے ارکان کا احترام مسلّم ہے، ان کے احترام کا
یہ فطری تقاضا بھی ہے کہ ان کی سوچ، بصیرت، گفتگو وغیرہ سب کچھ معیاری،
سنجیدہ اور باوقار ہو۔
کون نہیں جانتا اپنی اسمبلیوں میں کاروائی کس قسم کی ہوتی ہے، اس میں
سنجیدگی کا کتنا عمل ہوتاہے، حاضری کی کیا پوزیشن ہوتی ہے، ارکان کی تیاری
کا کیا عالم ہوتاہے، کسی ایشو پر سوالات کس طرح کے ہوتے ہیں اور ان کے
جوابات دینے والے وزراء یا دیگر ذمہ داران کے جوابات اور رویے کیسے ہوتے
ہیں؟ ملکی مفاد کے بارے میں ان لوگوں کی سوچ کیسی ہے اور اپنے ذاتی مفاد
میں وہ کونسے اقدام کرتے ہیں؟ اسمبلیوں میں کس طرح مچھلی بازار سجایا جاتا
ہے، کیسے بجٹ یا دیگر مواقع کی کاپیاں اچھالی جاتی ہیں، کیسے سپیکر کا
گھیراؤ کیا جاتا ہے، کیسے نعرے لگائے جاتے ہیں، کیسے ٹھٹھہ مذاق کیا جاتا
ہے، کیسے گپ شپ کا ماحول بنایا جاتا ہے، ابھی گزشتہ روز ہی پنجاب اسمبلی کے
بجٹ سیشن کی خبرآئی ہے کہ بجٹ کے دوران وزراء گپیں ہانکتے اور قہقہے لگاتے
رہے۔ اسمبلی میں معزز ارکان کی حاضری کا عالم یہ ہوتا ہے، کہ کورم اکثر ہی
ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتا ہے، کتنے معزز ارکان ہیں جنہوں نے خاموشی کا طویل
روزہ رکھا ہوتا ہے، وزیراعظم اور بعض سیاسی لیڈر اسمبلی میں چند روز ہی
تشریف لے جاتے ہیں۔ اور تو اور ایسا کچھ بھی وہاں بولا جاتا ہے، جس کو
کاروائی سے حذف کرنا پڑتا ہے۔ الفاظ پر معافی مانگنی پڑتی ہے اور الفاظ
واپس لینے پڑتے ہیں۔ اس ضمن میں سپیکر جو ذمہ داری نبھاتے ہیں وہ یہ ہوتی
ہے کہ وہ قابلِ اعتراض الفاظ کاروائی سے حذف کردیتے ہیں۔
جب میڈیا پر پارلیمنٹ کی کاروائی دیکھی جاتی ہے تو نہایت سنجیدہ ماحول
سامنے آتا ہے، کسی اہم ایشو پر معزز ارکان کی گفتگو ، بحث و مباحثہ اور پھر
فیصلے عوام کے سامنے لائے جاتے ہیں، قوم کو بتایا جاتا ہے کہ ان کے منتخب
نمائندوں نے کس قدر عرق ریزی اور محنت کے ساتھ مسائل حل کئے ہیں، عوام کے
حقوق کی کتنی جنگ اسمبلی کے ایوانوں میں لڑی ہے۔ یہ میڈیا کی پیشہ ورانہ
ضرورت ہے، معاملہ جیسا بھی ہو ، اس میں سے سنجیدہ اور مناسب خبر نکالنا
میڈیا کا کام ہے، کس رکن کی بات کو خبر کی شہ سرخی بنانا ہے، کس مطالبے کو
اہمیت دینی ہے، کس کی بات کا نچوڑ نکال کر میڈیا میں پیش کرنا ہے، یہ ساری
مہارتیں صحافیوں کے حصے میں آتی ہیں۔ ادارے بھی اپنے تجربہ کار اور پیشہ ور
صحافیوں کو ہی اسمبلیوں کی کاروائی کی رپورٹنگ کے لئے بھیجتے ہیں۔ مگر یہ
بھی مناسب نہیں کہ اسمبلی میں رونما ہونے والی ’غیر نصابی سرگرمیوں‘ کے
بارے میں میڈیا خاموشی ہی اختیار کرے، معزز ارکان کے معزز ادارے میں ہونے
والی منفی سرگرمیوں سے نگاہیں چُرا لی جائیں، ’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹ پیش کی
جائے۔ اگر اسمبلی کی کاروائی باوقار طریقے سے انجام پائے تو اس کی منفی
کوریج کیسے ہوسکتی ہے، اس کے خلاف خبریں کیسے شائع ہوسکتی ہیں، ضرورت تو یہ
ہے کہ خرابی کو دور کیا جائے، نہ کہ خرابی جاری رہے گی، بس اس کو دوسروں کے
سامنے نہ لایا جائے۔ میڈیا تو معاشرے کا آئینہ ہے، اس میں کارکردگی کا عکس
دکھائی دیتا ہے۔ اگر میڈیا معزز ارکان کی کاروائیاں شائع نہیں کرے گا تو
پھر واقعی سوشل میڈیا کا کیا کیا جائے گا، نجی محفلوں سے ہوتی ہوئی باتیں
جب زبان زدِ عام ہونگی تو ان کے راستے کون روکے گا؟ یہ بھی درست ہے کہ
میڈیا کی کچھ حدود وقیود ہونی چاہیئں مگر اصل ضرورت شکلوں کے درست کرنے کی
ہے، آئینے توڑنے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ |
|