اسلام کی بنیاد اﷲ تعالیٰ پانچ چیزوں پر
رکھی ہے جن میں سے ایک اہم ترین زکوٰۃ ہے ۔ زکوٰۃ اسلام کاتیسرارکن ہے
زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ قرآن کریم میں اﷲ
تعالیٰ جہاں کہیں بھی نماز کاتذکرہ کیاہے وہاں پر زکوٰۃ کابھی تذکرہ کیاہے۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ کی وفات کے جب لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیاتو حضرت
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ان سے باضابطہ جنگ کااعلان کیا اور یہ فرمایا کہ
’’حضورﷺ کے زمانے اگر کوئی اونٹ کی رسی بھی زکوٰۃ دیتاتھا اور اس نے اس رسی
کوروک لی، تو میں اس سے جنگ کروں گا‘‘ ۔
اسی طرح اﷲ نے جومال بھی انسان کوعطاکیا ہے اس کوخرچ کرنے کاحکم دیاہے اور
حکم دینااس لئے ہے کہ تاکہ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جائے اور اس مال کے
ذریعہ اﷲ کی رضاحاصل کرلے جیساکہ قرآن کریم کی اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے
مومنین کومخاطب کرکے فرمایا ۔ ’’ اے ایمان والو ! جو مال و دولت ہم نے تم
کو بخشی ہے تم اس میں سے ہماری راہ میں ہمارے حکم کے مطابق خرچ کرو،اس سے
پہلے کہ قیامت کا وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہو سکے گی اور
نہ کسی کی دنیوی دوستی کام آئیگی، اور نہ کوئی سفارش کسی مجرم کو سزا سے
بچا سکے گی اور نہ ماننے والے اصلی ظالم ہیں جن کو قیامت میں اپنے ظلم کا
خمیازہ بھگتنا پڑے گا ‘‘ ۔ [ سورۃ البقرہ :۲۵۴ ]
یہ حقیقت ہے کہ خدائے واحد کی وحدانیت کی شہادت،رسول کی رسالت کے یقین اور
نماز کی فرضیت کے بعد اسلام کا تیسرا رکن زکوٰۃ ہے ، قرآن عظیم میں ستر سے
زیادہ مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا
ہے کہ اسلام میں ان دونوں کا مقام قریب قریب ایک ہی ہے ۔ زکوٰۃ صرف اسی امت
محمدیہ پر فرض نہیں کی گئی ہے بلکہ پچھلے انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں
میں بھی زکوٰۃ فرض کی گئی تھی لیکن قبولیت کا طریقہ دوسرا تھا ۔ ان کا
طریقہ یہ تھا کہ تمام زکوٰۃ کے مال کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا جاتا اور آسمان
سے آگ آتی اور اس کو جلا ڈالتی تھی ۔ قرآن کریم کی سورۂ انبیاء میں حضرت
ابراہیم اور ان کے صاحبزادے حضرت اسحاق اور پھر ان کے صاحبزادے حضرت یعقوب
علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا : اور ہم نے ان کو حکم
بھیجا نیکیوں کے کرنے کا خاص کر نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا اور وہ
ہمارے عبادت گذار بندے تھے ۔ [سورۃ الأنبیاء : پ۱۷ ۔آیت ۷۳ ] سورۂ مریم میں
حضرت اسماعیل علی نبینا و علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ، حضرت
اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے
تھے۔ [ سورۂ مریم : ۵۵ ] اسی سورۃ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس قول کو
بیان کیا :’’ ہاں میں اﷲ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب یعنی انجیل عطا
فرمائی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے جہاں کہیں میں رہوں اس نے مجھے برکت والا
بنایا ہے اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت فرمائی ہے۔
[ سورۂ مریم:۳۰ - ۳۱ ] سورۂ بقرہ میں اﷲ رب العزت بنی اسرائیل کے متعلق
ارشاد فرما رہے ہیں۔’’ہم نے بنی اسرائیل کو نماز قائم کرتے رہنے اور زکوٰۃ
کو ادا کرتے رہنے کا حکم دیا ‘‘[ سورۃ البقرہ :۱۱۰ ] سورۂ مائدہ کے اندر
ارشاد فرمایا گیا ۔ اوربنی اسرائیل سے اﷲ رب العزت نے یوں خطاب فرمایا
تھا:’’ اے بنی اسرائیل اگر تم نماز کو قائم کرتے رہے اور زکوٰۃ پوری پوری
ادا کرتے رہے اور میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہے تو یاد رکھو ، میں اپنی
تمام تر مدد کے ساتھ تمہارے ساتھ ہوں‘‘۔ [ سورۃ المائدۃ : ۱۲ ] لیکن افسوس
کہ بنی اسرائیل نے پے در پے نافرمانی کی ، اور خدائے واحد کی سرکشی اختیار
کرتے رہے ، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ غضب الٰہی جوش میں آیا اور حکم سنا
دیا،اے بنی اسرائیل لو اپنی بد اعمالیوں کا مزہ چکھو آج سے تم پر ذلت و
مسکنت کا لیبل چسپاں کر دیا ،جہاں بھی رہوگے ذلیل و خوار ہوگے اور تم اﷲ کے
غضب کے مستحق ہوگئے [ سورۃ البقرۃ : ۶۱ ] اسی طرح قرآن عظیم میں امت محمدیہ
کیلئے زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا ۔’’ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً
تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا‘‘ اے پیارے نبی ! آپ مسلمانوں کے
مالوں سے زکوٰۃ وصول کیجئے تاکہ ان مسلمانوں کے دلوں کو دنیا کی محبت سے
پاک کیا جائے اور ان کے نفس کو دولت پرستی سے صاف کیا جائے [ سورۃ التوبہ،
۱۰۳ ]
دوسری جگہ ارشاد فرمایا :’’ وَ سَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی الَّذِی یُؤْتِیْ
مَالَہٗ یَتَزَکّٰی‘‘ دوزخ کے عذاب سے اس مؤمن اور مسلمان کو دور رکھا جائے
گا جو اپنا مال اﷲ کے راستے میں اس لئے دیتا ہو کہ اس کی روح اور اس کے دل
کو پاکیزگی حاصل ہو۔ [ سورۃ الیل:۱۷ ۱۸-]
اور اس شخص کے متعلق جس نے خدا کا عطا کیا ہوا سب کچھ ہونے کے باوجود زکوٰۃ
اد ا نہ کیا ہو اس کیلئے سخت عذاب کی وعیدیں سنائی گئیں ، ارشاد فرمایا
:’’جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اﷲ کے راستے میں خرچ نہیں
کرتے تو اے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری دیدیجئے ‘‘
[ سورۃ التوبہ : ۳۴ ] اب عذاب خداوندی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرما
رہے ہیں :’’ اس دن اس سونے اور چاندی کو دوزخ کی آگ میں گرم کیا جائیگا پھر
اس سے ان زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کی پیشانیوں اور انکے پہلوؤں اور ان کی
پیٹھوں کو داغا جائیگا اور ان سے کہا جائیگا کہ ہاں یہ وہی سونا چاندی یا
روپئے ہیں جس کو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا ، اب جو تم نے جمع کیا تھا اس
کا مزہ چکھو ۔ [ سورۃ التوبہ : ۳۵ ]
یہاں تک زکوٰۃ ادا کرنے والے کیلئے انعامات اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کا
انجام آپ نے پڑھا ۔اب زکوٰۃ کے چند مسائل سپرد قرطاس کرتاہوں۔ جس شخص کے
پاس ساڑھے سات تولہ سونا = 479 87. گرام یا ساڑھے باون تولہ چاندی 612.35=
گرام یا اس کی قیمت ہواور اگر سونے چاندی کے ساتھ کوئی دوسرا مال زکوٰۃبھی
ہے تو سب کی قیمت لگائی جائے گی ، اگر سب کی مالیت ۴۷۹ء۸۷ گرام سونے یا
۳۵ء۶۱۲ گرام چاندی کی قیمت کے برابرہوتو اس پر زکوٰۃ فرض ہے ۔ [ احسن
الفتاوی :ج؍۴ ،ص ؍۲۶۴ ] بالفرض اگر اخبار کے مطابق کل مارکیٹ میں ایک کلو
چاندی کی قیمت40,000=/ Rs.تھی، اس اعتبار سے جس شخص کے پاس تقریبا
Rs.24,500=/ موجود ہوں اس پر فرض ہے کہ پورے مال کا چالیسواں حصہ یعنی
ڈھائی فیصد ادا کرے ۔مثلا :سو روپئے میں ڈھائی روپئے زکوٰۃ نکالے ۔
کسی شخص کے پاس تھوڑا سا سونا اور تھوڑی چاندی اور کچھ روپئے ہوں تو تینوں
کی قیمت کو ملا کر دیکھا جائے گا ، اگر وہ612.35 گرام چاندی کی قیمت کے
برابر ہو یا اس سے زیادہ ہے تو بھی اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اگر کسی شخص کے
پاس612.35 گرام چاندی کی قیمت ہے لیکن اتنے ہی روپیوں کا وہ قر ضدار بھی ہے
تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ، اگر قرض دینے کے بعد Rs.24,500=/ بچ جائیں تو
زکوٰۃ فرض ہے ۔ سونے چاندی کے علاوہ اور جتنی چیزیں ہیں ۔جیسے لوہا ،
پیتل،اسٹیل یا برتن اور کپڑے ، چمڑا اگر ان کی تجارت کرتا ہو ، اور تجارت
کاAmount Rs.24,500=/روپئے 612.35 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس پر
زکوٰۃ فرض ہے اور اگر اس سے کم ہے تو زکوٰۃ فرض نہیں ۔ کارخانے اور فیکٹری
Factory وغیرہ کی مشینوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے لیکن ان میں جو مال تیار
ہوتا ہے اس پر زکوٰۃ فرض ہے ، اسی طرح اسٹاک Stockمال پر کچے مال Raw
meterialوغیرہ پر زکوۃ فرض ہے ۔ اسی طرح کرایہ پر چلنے والے مکان ، دوکان
اور موٹر گاڑیوں وغیرہ پر زکوٰۃ فرض نہیں البتہ ان سے ہونے والی آمدنی پر
زکوٰۃ فرض ہے بشرطیکہ وہ بقدرِ نصاب ہو ۔ P.Fیعنی پراویڈٹ فنڈ پر بھی زکوٰۃ
فرض ہے لیکن اس سال کی زکوٰۃ فرض ہے جب وہ ہاتھ میں آئے ۔
یہاں تک زکوٰۃ کے مسائل کو ذکر کیا گیا ، اب زکوٰۃ کن کن لوگوں کو دینی
چاہئے اور کن کن لوگوں کو دینا جائز نہیں ان کا ذکر کرتا ہوں۔ اپنی زکوٰۃ
اپنے ماں باپ ، دادا ، دادی ، پر دادا او ر نانا ، پر نانا وغیرہ یعنی جن
سے یہ شخص پیدا ہوا ہے ، اور اپنی اولاد یعنی پوتے ، پڑپوتے نواسے کو دینا
جائز نہیں اور کافر کو بھی زکوٰۃ دینا جائز نہیں ، ان رشتہ داروں کے علاوہ
بھائی ،بہن ،پھوپھی خالہ ماموں ، داماد ، ساس سسر کو دینا جائز ہے ۔ زکوٰۃ
دینے میں پہلے اس بات کا لحاظ رکھیں کہ اپنے وہ رشتہ دار جو غریب ہوں اور
وہ 612.35 گرام چاندی کی قیمت Rs.24,500=/کے مالک نہ ہوں ، ان کو زکوٰۃ
دیں۔ حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ اس میں دوہرا ثواب ہے ، ایک زکوٰۃ ادا
کرنے کا ، اور دوسرا صلہ رحمی کا ۔ اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی میں یہ ضروری
نہیں ہے کہ یہ کہہ کر دے کہ میں زکوٰۃ دے رہا ہوں ، صرف نیت کافی ہے، تحفہ
اور ہدیہ کا نام لے کربھی دے سکتا ہے، تاکہ لینے والے شریف غریب کو گراں
محسوس نہ ہو ۔ صاحب مکاشفۃ القلوب صفحہ ۵۸۹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت
عبد اﷲ ابن مبارک ؒ دائماً یعنی ہمیشہ اپنی زکوٰۃ مدرسوں میں دیتے تھے اور
فرمایا کرتے تھے کہ درجۂ نبوت کے بعد ا گر کوئی مرتبہ ہے تو وہ علمائے کرام
کا ہے ، ان پر خرچ کرنے سے دوہرا ثواب ملتا ہے، ایک زکوٰۃ کا اور دوسرا علم
کی اشاعت میں مدد کا۔
آج کل عام طور لوگ ناواقفیت کی بناپر پیشہ وارنہ فقیروں کوبھی زکوٰۃ دے
دیتے ہیں پیشہ وارانہ فقیروں کوزکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی کیوں کہ
تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ پیشہ وارانہ فقیر اکثر صاحب نصاب ہوتے ہیں اور
انکے پاس مال اتناہوتاہے کہ شاید آپ کے پاس بھی اتنا مال نہ ہو اس لئے کہ
زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرط یہ ہیکہ زکوٰۃ جسے دیاجارہاہے وہ صاحب نصاب نہ
ہوکیوں کہ صاحب نصاب کوزکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادانہیں ہوتی ۔ہاں اگر کسی کے
بارے میں آپ کویقین ہو کہ اس کے پاس اتنامال نہیں ہے تو آپ خوشی خوشی زکوٰۃ
دے سکتے ہیں ۔ |