خطہ پیر پنچال سے.... راجوری پونچھ میں اہل اسلام کی مسلک کی بنیاد پرتقسیم لمحہ فکریہ!

حدمتارکہ پر واقع اضلاع راجوری وپونچھ پر مشتمل خطہ پیر پنچال یوں وگوناگوںمسائل ومشکلات کے بھنور میں پھنسا ہے۔شرح خواندگی میں قدر اضافہ، اقتصادی وسماجی صورتحال میں بظاہر بہتری تودکھائی دیتی ہے لیکن چند ایک وجوہات ایسی ہیں جس کی وجہ سے اس خطہ سے تعلق رکھنے والے افراد، نوجوانوں کی صلاحتیں پر آج بھی گرہن لگتاجارہاہے
حدمتارکہ پر واقع اضلاع راجوری وپونچھ پر مشتمل خطہ پیر پنچال یوں وگوناگوںمسائل ومشکلات کے بھنور میں پھنسا ہے۔شرح خواندگی میں قدر اضافہ، اقتصادی وسماجی صورتحال میں بظاہر بہتری تودکھائی دیتی ہے لیکن چند ایک وجوہات ایسی ہیں جس کی وجہ سے اس خطہ سے تعلق رکھنے والے افراد، نوجوانوں کی صلاحتیں پر آج بھی گرہن لگتاجارہاہے۔ صحیح معنوں میں’Intellecutal‘کہلانے والے افراد کے حوالہ سے یہ خطہ کافی بنجر ہے۔ ایسے افراد کی تعداد کی تعداد بہت ہی کم ہے جوکہ مجموعی طور اس خطہ کی سماجی، تعلیمی واقتصادی خوشحالی اور ہمہ جہت تعمیر وترقی کا خواہاں ہو،ہر کوئی ایکدوسرے کوروندھ کر آگے نکلنا چاہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ علاقہ، ذات، مسلک، مذہب، رنگ ونسل، امیر، غریب کی بنیاد پر اس چھوٹے سے خطہ میں لوگوں کے اندرکئی دیواریں بنی ہیں۔90کی دہائی میں حکومت ہند نے STکاپتہ کھیل کر دو بھائیوں(پہاڑی اور گوجر بکروال)کوایکدوسروے سے اعلیحدہ کرنے کی ایک منظم ومنصوبہ بندکوشش کی جس کے منفی نتائج کس قدر اس خطہ کی مجموعی ترقی اور سماجی صورتحال پر اثر انداز ہوئے ہیںوہ سب پر عیاں ہیں۔گوجر وپہاڑی کے نام پر اس خطہ میں سینکڑوں سیاسی دکانیں کھلی ہیں جواپنی اپنی دکانوں کی طرف زیادہ سے زیادہ گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے آئے روز طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں تاکہ ان کا سیاسی کاروبار چلتا رہے لیکن یہ حوصلہ افزا اور خوش آئند بات ہے کہ اب تعلیم سے کافی حد تک یہ معاملہ کمزور ہوتا جارہاہے، نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ باآسانی ایسا کئے جانے کے پیچھے کارفرما محرکات کو سمجھ چکا ہے جوکہ اب مزید آپسی تقسیم نہیں چاہتالیکن اب اس خطہ کے لوگوں کو ’مسلک‘کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے ایک نئی منظم کوشش کی جارہی ہے جوکہ امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ یہاں کسی ایک مسلک کی بات کرنا مقصود نہیں بلکہ مجموعی طور سبھی کی بات ہے کہ اپنی اپنی سطح پر ہر مسلک ایکدوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کر رہا ہے جس میں آج دو مسلمان بھائی آپس میں بغلگیر دکھائی دے رہے ہیں، آپس میں ایکدوسرے کے لئے ایسے ایسے الفاظ ،القابات کا استعمال کیاجاتاہے کہ انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے۔ افسوس کا یہ مقام ہے کہ اس پر علماءحضرات، ائمہ مساجد بھی جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں جوکہ جمعہ جس دن امت مسلمہ کو مقامی، ریاستی، ملکی وعالمی سطح پر درپیش مشکلات ومسائل، چیلنجز سے نپٹنے، آپسی اتفاق واتحاد کو یقینی بنانے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی تلقین کرنے کے بجائے مسلک پر زیادہ بات کرتے ہیں ۔ بعض دفعہ ایساایسا بیان دیاجاتاہے جس سے آپسی انتشار پھیلتا ہے ۔ باجماعت نماز ادا کرنے کا اللہ کے ہاں زیادہ ثواب کے علاوہ سماجی طور جوفائیدہ ہے اس سے ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔پنجگانہ نمازباجماعت پڑھنے سے ہم اپنے محلہ، گاو ¿ں اور پڑوسیوںکی خیروعافیت، ان کو درپیش مشکلات، خوشی، غمی وغیرہ سے بخوبی واقف رہ سکتے ہیں اور آپس میں بار بار ملنے سے تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں۔ پنجگانہ نماز کے علاوہ گاو ¿ں کے ساتھ ساتھ دیگر گاو ¿ں کے اہل اسلام بارے جانکاری حاصل کرنے کے لئے نماز جمعہ تحصیل سطح پر پڑھاجاتا ہے تاکہ وہاں پر کم سے کم ہفتہ میں ایک مرتبہ اہل اسلام یکجاطور نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے مل جملہ مسائل ومشکلات کو ایکدوسرے کے ساتھ بانٹ سکیں، ان کے حل کے لئے راہ تلاش کریں۔نماز عید کو اس سے بھی زیادہ ایک وسیع میدان(عیدگاہ)میں پڑھنے کاحکم ہوا تاکہ اس میں متعدد گاو ¿ں کے لوگ ایکساتھ جمع ہوں ، ایکدوسرے سے ملیں، ایکدوسرے کے بارے میں جانیں۔افسوس سے یہ کہنا پڑ ھ رہا ہے کہ اضلاع راجوری پونچھ میں سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث، جماعت اسلامی ، شافع، مالکی وغیرہ کے نام پر مساجد بھی تقسیم ہیں، اللہ کے گھر جہاں تمام اہل ایمان کو جمع ہونا تھا، اس کو بھی تقسیم کردیاگیا۔نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے ہم یہ تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارے مسلک کی مسجد میں کہاں ہے۔نعوزوباللہ علماءحضرات نے ایسی صورتحال پیدا کررکھی ہے کہ ایکدوسرے کی مساجد میں نمازیں پڑھنے کو بھی گناہ قرار دیاجارہاہے۔ یہ لمحہ فکریہ نہیں تو کیا ہے ۔ علماءار ائمہ مساجد اہل اسلام کی اصلاح کرنے کے بجائے نماز جمع یادیگر مواقعوں پر اپنے خطاب میں زیادہ توجہ مسلک پر بات کرتے ہیں، خود کو بالاتر اور دوسروں کی تنقید پر زیادہ وقت صرف کیاجاتاہے۔توحید، نماز، روزہ، زکوة اور حج اسلام کے پانچ اہم بنیادی ارکان سبھی مسلکوں کے یکساں ہیں، بلکہ یہ کہنامبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ 95فیصد سے زائد معاملات میں سبھی مسلکوں میں یکسانیت ہے تو پھر کیوں ہم ان95فیصد معاملات پر توجہ مرکوز کے بجائے 5فیصد امور کو لیکر ہی کیوں باہم بغلگیر ہیں، ایکدوسرے کو کیوں تنقید کانشانہ بنارہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ متعدد معاملات پر ایکدوسرے سے اختلافات ہوسکتے ہیںلیکن ان اختلافات کو آپسی رشتوں پر حاوی نہ ہونے دیاجائے۔اہل اسلام کے لئے یہ تشویش کن بات ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہم اسلام کی تعلیمات سے بہت حد متاثر ہیں، اگر اسلام میں شمولیت اختیار کریں تو کس مسلک میں شامل ہوں، کون بہتر ہے....؟۔سرحدی اضلاع راجوری پونچھ کی عوام چاہئے وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتی ہو، صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ پیر پنجال سے وابستہ لوگوں نے نہ صرف ریاستی، ملکی بھی عالمی سطح پر بھی متعدد شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے،لیکن ’ گوجر، پہاڑی، دیگر ذیلی ذاتوں میں تقسیم‘اور پھر اب مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرکے، ایکدوسرے کے تئیں نفرتوں، قدورت کو بڑھا دیکر ان صلاحیتوں کا غلط استعمال ہورہا ہے۔اس خطہ کے آپسی بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کئی سازشیں کی گئیں جوکہ آج بھی جاری وساری ہیں۔بہت سارے لوگ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں اور بہت سارے ایسے ہیں کہ جوغیر دانستہ طور ا ن سازشوں کو کامیاب بنانے میں ہتھیار کے طور استعمال ہورہے ہیں۔اس صورتحال میں علما ءحضرات کا اہم رول بنتا ہے کہ وہ نماز جمع یادیگر مواقعوں پر ہمیشہ ایسا بیان اور اصلاحی پیغام دیں جس سے آپسی دوریاں کم ہوں،عصر حاضر میں اہل اسلام کا متحد ہونا انتہائی لازمی ہے بصورت دیگر ملکی وعالمی سطح پر اہل اسلام کے خلاف منصوبہ بندی سازشی عناصر اپنے مقصد کو پورا کرنے میںکامیاب ہوجائیں گے جس کے ہمارے لئے مستقبل میں دورس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 35 Articles with 52937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.