شہادت حضرت علی کرم اﷲ وجہہ۔۔

 حضور اکرم ﷺ نے فرمایا’’ میں علم کاشہرہوں اور علی ؓ اس کادروازہ ہے‘‘ حضرت علی ؓ نجیب الطرفین ہاشمی تھے ،یہی وجہ ہے کہ آپ ؓ میں خاندان بنو ہاشم کی خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں اور آپ ؓ موروثی طور پر بھی غیر معمولی صفات اور اعلی ترین کردار کے حامل تھے آپ ؓ کی شخصیت میں شرافت ،نجابت،شجاعت و جانبازی ،انسانی ہمدردی،و بہی خواہی ،مظلوم کی دار رسی وغمگساری،،ذہانت و فطانت اور علم وحکمت جیسے لازوال جوہر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے ،خاندانی نجابت و موروثی وجاہت کے ساتھ ساتھ قدرت نے آپؓ کی تربیت کے ایسے اسباب و وسائل مہیا کیے ،آپؓ کی ولادت باسعادت کے لئے قدرت نے ممتاز ترین مقام کرہ ارض کعبہ معظمہ کانتخاب فرمایا،آپؓ کی تربیت کے لیے صاحب اولاد حضور سید عالم مائل بہ کرم ہوئے جن کی توجہ اور التفات کا یہ عالم تھا آپؓ کوساری زندگی اپنے ہمراہ رکھتے ہیں اور اپنے گھریلو معاملات سے لیکر فرائض بنوت کی ادائیگی تک جس مرحلے پر بھی کسی باعتماد اور مخلص شخصیت کی ضرورت پڑتی تو آخر کار چشم بنوت حضرت علی ؓ پر ہی آ کر رکھتی ہے ،حضور سید عالم ﷺ نے شب ہجرت اہل مکہ کے ساتھ لین دین کے معاملات نبٹانے کے لئے آپؓ کا انتخاب فرمایا،مدنیہ منورہ میں تمام مہاجرین میں آپؓ ہی کو اپنا بھائیہونے کاشرف عطا فرمایا ،پھر سرکار کی لاڈلی صاحبزادی جو مجلس میں آئیں تو حضور اکرم ﷺ کھڑے ہو جائیں اور جن کی سواری محشر سے گزرے تو تمام اہل محشر کی گردنیں جھک جائیں ایسی گرامی مرتبت شہزادی خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہراؓ کی زوجیت کے لئے حضور اکرم ﷺ کی نظر انتخاب حضرت علی ؓ پر پڑی۔آپؓ بچوں میں سے اولین مسلمان تھے اور مجموعی طور پر آپؓ نے تیسرے نمبر پر دعوت نبوت پر لبیک کہا ، اس وقت سے لیکر آخری دم تک آپؓ ہمہ وقت حضور سید عالم ﷺ کے مشن کی تکمیل کے لئے آپ ﷺ کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرتے رہے ،میدان کارزار میں آپؓ کی شجاعت فرزندان توحید کے ہاں چودہ سو برس سے ضرب المشل کی حیثیت رکھتی ہے ،عہد طفلی سے لیکر زندگی کے آخری لمحے تک آپؓ باطل کے خلاف اپنی پوری صلاحیتوں اور قوتون سے نبرد آزما رہے ،دس برس کی عمر میں حضور سید عالم ﷺ کے فرمان خدا وندی کے مطابق اپنے قرابت داروں کو دعت اسلام دی اور تائید ونصرت کے بارے میں استفسار فرمایا تو قریش کے ممتاز ترین بزرگوں اور کہنہ مشق بہادورں کے جھرمٹ میں یہ سعادت بھی حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ہی کے حصے میں آئی کہ آپؓ کمسنی کے باوجود بیانگ ودہل سرور کائنات کو اپنی تمام تر طاقتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ تعاون وتائید کایقین دلایا آپؓ نے غزوہ تبوک کے سو تمام غزاوات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا میدان کارزار کے شہسوار ہونے کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت علی ؓ حکمت ،فصاحت وبلاغتاور شعر وخطابت میں بھی اپنی مثال آپ تھے ،حضرت علی کرم اﷲ وجہہ علم نبوت کے باب ،حکمت رسالت کے سر چشمہ اور برادر داماد رسول ﷺ ،میدان جہاد کے بے مثال شاہ سوار،علم وفنون کے بیش بہا خزینہ،اور شعر وادب کے بے مثال نکتہ سنج تھے آپ ؓ کی شخصیت ہمہ پہلو بے مثال وبے نظیر تھی ،ااخر کار 21رمضان المبارک 40ھ کوابن ملجم نامی ایک خارجی کے ہاتھوں خنجر کے وار سے شہید ہو گئے آپؓ کی خلافت کی مدت چار سال نو ماہ تھی ،الغرض یہ ایک ایسا ادب و احترام والا مہینہ ہے کہ حضور اکرام ﷺنے فرمایا ’’ اس مہینے کی ہررات اور ہر دن کو لوگ جہنم کی آگ سے آزاد ہوتے ہیں ان میں سے پھر ہر بندے کی دعا قبول ہوتی ہے (مسند احمد) مزید فرمایا کہ ’’ہر افطاری کے وقت لاگ جہنم کی ااگ سے آزاد ہوتے ہیں (ابن ماجہ) اﷲ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جس شخص نے رمضان المبارک کے روزے ایمان کے ساتھ رکھے اپنا احتساب کرتے ہوئے ثواب کے ارادے سے روزے رکھے اس کے لئے کیے ہوئے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں (بخاری ومسلم ) ایک حدیث میں سے اس کے پچھلے گناہ بھی معاف کر دئیے جاتے ہیں ( سنن الکبری) اسی طرح رمضان المبارک کے ادب و احترام کا تقاضا ہے کہ سحری بہر صورت کھائی جائے ،حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے (بخاری ومسلم ) مزید فرمایا یہ ایسی برکت ہے جو خاص طور پر اﷲ تعالی نے تمیں عطا فرمائی ہے لہذا اسے مت چھوڑا کرو (نسائی) فرمایا سحری کھانے والوں پر اﷲ تعالی رحمت کانذول فرماتے ہیں اور اس کے فرشتے اﷲ سے رحمت کی دعا کرتے ہیں (ابن ححبان) اسی لئے حضوراکرم ﷺ نے سحری کھانے کی تالید فرممائی ہے حضرت عبداﷲ بن عباس کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا سحری کھانے سے روزہ نھبانا آسان ہوجاتا ہے اور دن کو قیلولہ (دوپہر کی نیند) کرنے سے رات کاقیام آسان ہو جاتا ہے ،اﷲ تعالی ہمیں ماہ رمضان المبارک کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کی سعادت نصیب فرمائے ٓآمینحضور اکرم ﷺ ناہ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں اور اس میں اترنے والی رحمتوں کے حصول کی غرض سے کئی ماہ پہلے اس ماہ مبارک کابڑے ذوق و شوق اور رغبت و اہتمام سے انتظار کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ’’اے اﷲ ہمارے لئے رجب اور شعبان کو بھی بابرکت فرمااور رمضان تک پہنچا دے‘‘ گویا تمنا کی جارہی ہے کہ اگر ہمار وقت اجل یا وقت موعود رمضان سے پہلے مقرر ہو چکا ہے تو یا اﷲ اسے موخر فرمادیں اور ہمیں رمضان المبارک کی برکتوں اور نعمتوں سے مالا مال ہونے کی توفیق مرحمت فرمادیجئے،رمضان کی تیاری اور اس کے استقبال ہی کے لئے آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ’’رمضان کے لئے شعبان کے ایام اور تاریخوں کو محفوظ اور گنتے رہو کہ جیسے رمضان آجائے اس کے لمحات اواور اوقات کو اﷲ تبارک و تعالی کی اطاعات اور بندگی میں صرف کرناشروع کردو اور اس کا کوئی لمحہ ضائع اور بے مقصد نہ ہو ،آپﷺ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے ،حتی کہ شعبان کو رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیتے گویا یہ بھی ایک اعتبار سے رمضان المبارک کی تیاری تھی ، ماہ رمضان المبارک وہ مہنیہ ہے جس کے ادب و احترام کے اصول نے اپنے پیارے رسول ﷺ کی زبان مبارک نے واضح فرما دئیے چنانچہ اﷲ کے رسول ﷺ نے ادب و احترام کے بارے میں فرمایا ’’ جب رمضان المبارک کے مہنیے کی پہلی رات کآغاز ہوتا ہے تو جنات کے بڑے جو سرکش سردار قسم کے شیاطین ہوتے ہیں انہیں باندھ دیا جاتا ہے جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جنہم کے دروازوں میں سے کوئی دروازہ نہیں کھلتا،اسی طرض جنت کے دروازے پورا ماہ کھول دئیے جاتے ہیں اور سارا رمضان کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 48988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.