بسم اﷲ الرحمن الرحیم
دفاع ہر ذی روح کے لیے ایک لا زمی جزو ہے۔اﷲ تعالیٰ نے فطرتاً ہر جاندار کو
دفاع کے حوالے سے مختلف صفات سے نوازا ہے۔جب تک وہ اپنی اس مدافعانہ قوت کا
استعمال کرتے رہتے ہیں تو اپنے دشمن سے محفوظ رہتے ہیں، مگر جیسے ہی وہ
غفلت کا شکار ہوتے ہیں تو ان کا دشمن ان پر غالب آجاتا ہے۔پھر انسانوں میں
مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لیے جہاد جیسے عظیم عمل کی طرف نا صرف رہنمائی
کردی بلکہ اپنے پیارے پیغمبر جناب محمد ﷺ سے اس کا عملی نمونہ بھی سامنے
رکھ دیا ۔قریش مکہ جو کہ اسلام اورمسلمانوں کے ازلی دشمن تھے اور مکہ کی
سرداری ان کے ہاتھوں میں تھی۔انہیں بھلا کب گواراتھا کہ یہ مقام ومرتبہ
مسلمانوں کومل جائے۔اس لیے آغاز اسلام سے ہی انہوں نے اسلام اوراہل اسلام
پرطرح طرح کی آزمائش وآلام کا سلسلہ شروع کردیا۔کہیں آلِ یاسر کومصائب کے
پہاڑتلے دبایا گیا توخبیب رضی اﷲ عنہ کے جسم کو دہکتی آگ پر جوش مارتے تیل
میں بھون کررکھ دیا گیا۔کہیں سمیہ رضی اﷲ عنہ کونیزے مارکرشہید کیا گیا تو
کہیں اﷲ کے آخری پیغمبرجناب محمدﷺ کاخون بہایا گیا۔حتیٰ کہ مکہ میں کوئی
بھی اسلام قبول کرتا تواس پرظلم وستم کی داستانیں رقم کردی جاتیں۔اس وقت تک
اﷲ کی طرف سے اہل اسلام پر جہاد کی فرضیت نہیں کی گئی تھی۔مگر جب ظلم حد سے
بڑھنے لگااوراہل اسلام کے راستے کوخس وخار سے بھردیا گیا تو اﷲ تعالیٰ نے
جہاد کی فرضیت کا حکم نازل کردیا۔یاد رکھیں مستشرقین کا اعتراض ہے کہ اسلام
تلوارکے زورسے پھیلایہ غلط تاثراورپروپیگنڈہ ہے بلکہ اسلام امن وسلامتی کا
دین ہے اوراسی کا درس دیتا ہے۔البتہ کوئی امن وسلامتی کی راہ میں رکاوٹ بنے
توامن کے ان دشمنوں کو تیروتلوار،نیزہ کی انی سے راستے سے ہٹانے کا حکم
دیتا ہے۔جب اہل مکہ کاظلم حد سے بڑھا تواسلام نے بھی اپنے دفاع کے لیے جہاد
کاحکم دے دیا۔شروع اسلام میں چھوٹے چھوٹے معرکے برپا ہوتے رہے۔ مگرمسلمانوں
کی معیشت کمزورتھی اورانہیں اپنی کمر کی ہڈی مضبوط کرنے کے لیے مال کی
ضرورت تھی۔کیونکہ ان کاسارامال،گھربار،بیوی بچے،غرض سب کچھ اہل مکہ کے مشرک
غاصبوں نے غصب کرلیا تھا۔مشرکین کے تجارتی قافلے شام کی طرف آتے جاتے تھے
اورمدینہ کی طرف سے گزرتے تھے۔ایک تجارتی قافلہ سامان تجارت کی خریدوفروخت
کے بعد ابوسفیان کی نمائندگی میں شام سے واپس آرہا تھا۔رسول اﷲ ﷺ نے اچانک
کبار صحابہ کرام کو جمع کیا اوران سے مشورہ کیا کہ اس تجارتی قافلے پر حملہ
کرکے مال لے لیا جائے۔تو سب نے ہاں میں ہاں ملائی اورمدینہ میں اس قافلے کے
تعاقب کااعلان ہوگیا۔مگرسب کو اختیار دیا کہ جورضامندی سے چاہے ہمارے ساتھ
نکل پڑے۔313یا314یا317صحابہ کرام کا قافلہ مدینہ سے خفیہ طورپر ابوسفیان کے
قافلے کے تعاقب میں نکل پڑا۔مگرابوسفیان کے چھوڑے ہوئے جاسوسوں کواس چیز کی
اطلاع ہوگئی ۔انہوں نے فوراً ہی اپنے سردارکواطلاع دی۔ ابوسفیان نے فوراًہی
خفیہ راستہ اختیار کیا اورمکہ میں بھی مسلمانوں کی اس حرکت کی
خبرپہنچادی۔مشرکین اہل مکہ جو مسلمانوں کے ازلی دشمن تھے،ان کے تن بدن میں
آگ لگ گئی۔وہ اپنے تجارتی قافلے کو بچانے اورکمزورمسلمانوں کا قلعہ قمعہ
کرنے کاارادہ لے کر اس امت کے فرعون ابو جہل کی قیادت میں 1000کا لشکر لے
کر نکل پڑے۔مسلمان مشرکین کے تجارتی قافلہ کے تعاقب میں تھے مگراﷲ کوکچھ
اور ہی منظورتھا کہ آج حق،حق ثابت ہوجائے اورباطل،باطل ثابت
ہوجائے۔ابوسفیان اپنے قافلے کو لے کرنکل گیامگرابوجہل مسلمانوں کوختم کرنے
کی غرض سے اپنے لاؤلشکرکے ساتھ پورے غیض وغضب سے بھراآرہا تھا۔اس نے
توغروروتکبر میں یہ اعلان کردیا تھا کہ آج ان مسلمانوں کا دنیا سے خاتمہ
کردیا جائے۔بدرکے میدان میں مسلمان پہنچے توپتا چلا کہ تجارتی قافلہ نکل
گیا ہے مگر مشرکین ایک ہزار کا لاؤ لشکر لئے امت کے فرعون ابوجہل کی
نمائندگی میں آرہے تھے۔مسلمانوں کو بھی اس کی اطلاع مل چکی تھی۔اب مسلمانوں
کے پاس دو ہی راستے تھے کہ کہ بدر کے میدان میں پڑاؤڈال کرمشرکین کا مقابلہ
کیا جائے یاواپس مدینہ جایا جائے۔اس صورت میں بھی مشرکین مسلمانوں کے تعاقب
میں مدینہ آجاتے۔غرض فیصلہ یہ ہواکہ بدرکے میدان میں ہی یہ معرکہ حق وباطل
سجے۔ایک طرف ابلیس کا لشکرتھا کہ جومکمل جنگی سازوسامان اورآلات حرب وضرب
سے لیس تھے۔تعداد میں بھی ایک ہزار تھے مگردوسری طرف 313کمزورمسلمان تھے۔جن
کے ہاں ناتو جنگی سامان مکمل تھا اورنہ ہی افرادی قوت زیادہ تھے۔مگرایمان
کی قوت اوراخلاص کی طاقت ان کے ساتھ تھی۔مشرکین اپنے لاؤلشکرکے ساتھ بدر کے
میدان میں پہنچ گئے۔آج کی رات انہوں نے خوب شباب وکباب میں گزاری اوررات
میں گانا بجانا اورمسلمانوں کے مٹانے کے اشعار کہے گئے۔اونٹوں کو ذبح کرکے
ان کا گوشت کھایا گیا۔عیش وعشرت کی محفلیں سجائی گئیں،مگردوسری جانب نہتے
مسلمان تھے۔رسول اﷲﷺ تعداد کی قلت کی وجہ سے اپنے رب کے سامنے آہ وزاری میں
مصروف تھے۔آپ نے ساری رات اپنے رب کے سامنے آپ زاری میں گزاردی ۔صبح ہوئی
تومعرکہ حق وباطل سجا۔جب معرکہ پورے جوبن پرپہنچ گیا تو رسول اﷲ ﷺ نے اﷲ رب
العالمین سے یہ دعا کی کہ :’’اے اﷲ !اس دنیامیں اگر تیراکئی نام لیوا ہے تو
یہ کمزورمسلمانوں کا لشکر ہے۔اگرآج تیری طرف سے ان پرنصرت کا نزول نہ
ہوااوریہ ظلم کی چکی میں پس گئے تو قیامت تک تیراکوئی نام لیوا ناہوگا۔‘‘آپ
اﷲ تعالیٰ سے دعاکرتے چلے جاتے اورروتے چلے جاتے۔حتیٰ کہ خوب آہ وزاری میں
چادر آہ کے کندھوں سے نیچے گرگئی۔یارغارسیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ نے آپ
کی چادراٹھاکر کندھوں پر رکھی اورآپ کی خوب آہ وزاری کا یہ عالم
دیکھاتوفرمایا کہ:ـ’’اے اﷲ کے رسول ﷺ بس کیجئے اﷲ آپ نے اﷲ سے بڑے الحا سے
دعا فرمالی‘‘ ادھردعاختم ہوئی ادھرسے اﷲ کی نصرت کا نزول شروع ہوگیا۔اس کے
بعدآپ ﷺ کو ایک جھپکی آئی اورآپ نے سراٹھایا تو فرمایا :’’اے ابوبکرخوش
ہوجاؤ،یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں جو گردوغبارمیں اٹے ہوئے ہیں۔‘‘اس کے
بعدآپ نے صحابہ کرام کوخوب جوش دلایا اور شہادت کے نتیجے میں جنت کی ترغیب
دلائی ۔ان فضائل جہاد کو سننے کے بعد صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے
ما ل و جان قربان کرکے دین کے دشمنوں کو ایسا سبق سکھلایا کہ اکڑی گردنیں
کٹ گئیں اور ایسی کٹیں کہ پھر ان اﷲ کے شیروں کے سامنے اٹھنے کے قابل نہ
رہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عزت بخشی اورغروروتکبرسے اکڑی گردنیں جھک
گئیں۔جوغرورتکبرمیں مبتلا ہوکرآئے تھے اﷲ نے انہیں ذلیل
ورسواکردیا۔مسلمانوں نے کافروں کے سرداروں کوتباہ وبرباد
کردیااور70کافرقیدی بنے۔اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عزت بخشی۔اس امت کے فرعون
ابوجہل کواﷲ تعالیٰ نے دوکمسن بچوں معاذومعوذ کے ہاتھوں مرواکراس کی اکڑی
گردن کوتڑوادیا۔مسلمانوں کی دھاک کفار اوران کے حلیفوں پربیٹھ گئی
اورمسلمانوں پرجوظلم وستم کاایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری تھا وہ کچھ حد
تک تھم گیا۔جب تک مسلمانوں نے اپنے دفاع کومضبوط نہ بنایا تھا کمزور
تھے۔کافران پرظلم وستم کے پہاڑڈھاتے تھے۔ کمزورقوموں کوہمیشہ ظلم وستم سہنا
پڑتا ہے،اس لیے مسلمانوں کی حالت یہ تھی۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
قارئین کرام!پھرجہاد کی فرضیت کے ساتھ مسلمانوں نے اپنا دفاع کیا توکامران
ٹھہرے۔لیکن آج ہماری حالت یہ ہے کہ کفار ہر طرف سے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں۔اس کی
وجہ یہ ہے ،رسول اﷲ ﷺکا یہ فرمان اس ذلت کی طرف اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے
کہ:’’جب تم سودی کاروبار میں مگن ہو جاؤ گے،بیلوں کی دموں کوتھام لو
گے،اورزراعت کھیتی باڑی پر ہی اکتفا کرلوگے(یعنی دنیاوی آسائشوں پر تم فدا
ہوجاؤ گے )اور اﷲ کے دین کی سربلندی والے عظیم کام جہاد سے کنارہ کشی
اختیار کرلوگے۔توتم پر اﷲ کی طر ف سے ذلتوں کانزول شروع ہو جائے گا۔(تم پر
رسوائیاں مسلط کردی جائیں گی۔تم پر مصائب آن پڑیں گے۔غرض کہ تم ہلاکت کی
راہ پر گامزن ہو جاؤ گے اور)یہ ذلتیں ،رسوائیاں ،مصائب اورتکالیف اس وقت تک
تم پر مسلط رہیں گی جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہ پلٹ آؤ‘‘(ابوداؤد:3462)آج
جولوگ دینِ اسلام کی سربلندی کی راہ پر گامزن ہوں۔انہیں دہشت گرد کہا
جاتاہے ۔ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں ۔ان کی راہوں میں روڑے اٹکا ئے جاتے
ہیں۔انہیں بدنام کیا جاتا ہے۔اس کے برعکس جولوگ حقیقی دہشت گردی میں ملوث
ہیں ۔وہ انسانیت کوراہِ فطرت سے ہٹا کر غیر فطری راہوں میں دھکیلتے نظر آتے
ہیں۔ انسانیت کو بربادی کی راہوں پر چلانے وا لوں کو امن کا تمغہ پہنایا
جاتاہے۔آج انصاف کے نام پر نا انصافی ہو رہی ہے ۔عدل کے نام پر دھوکہ دیا
جارہا ہے۔امن کے نام پر بد امنی وبے سکونی پھیلا ئی جارہی ہے۔صراطِ مستقیم
کو چھوڑ کر دنیا کی فانی راہوں کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔پھر بھی چاہت ہے
امن و سکون کی ،پھر بھی خواہش ہے راحت وسرور کی ۔آج اگر یہود تربیت حاصل
کریں تووہ دفاع کہلائے اورمسلمان تربیت حاصل کریں تودہشت گردی کہلائے۔یہ
کہاں کا انصاف ہے۔جس عمل کے ذریعے ظالموں کے ہاتھ ہم نے روکنے تھے۔وہ عمل
کے جس کے بارے میں قرآن میں سینکڑوں آیات نازل ہوئیں ۔وہ عمل کہ محدثین نے
کتبِ احادیث میں اس کے لیئے علیحدہ ابواب باندھے۔اس کو چھوڑاتو آج ہم ان کو
جزیہ دے رہے ہیں جن سے لیا کرتے تھے ۔اگر ہم نے اس بے حسی کو ختم نہ کیا تو
قرآن کے مجرم ہم ہوں گے ہمیں سکون نصیب نہ ہوگا۔
ہاں ہاں !قارئین ذی وقار !اگر آج امن وسکون کی زندگی کی چاہت ہے ۔کھوئی
ہوئی رفعت وعزت اور بلندیا ں حاصل کرنے کی تمنا ہے تو پھر سلَف صالحین
صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین ،تابعین،تبع تابعین اوربعدمیں ان کے نقش
قدم پر چلنے والوں کی راہوں کا انتخاب کرنا ہوگا ۔اسی شاہراہ پر گامزن ہو
کر ہی کامیابی ممکن ہے ۔ان جیسی تاریخ دہرانے کی ضرورت ہے۔
صفحہ دہر سے باطل کو مٹا یا کس نے ؟
نوعِ انسانی کو غلا می سے چھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگا یا کس نے؟
تھے تووہ آباء تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فرداہو!
|