ماە صیام میں بدر کے ستاروں کے جھرمٹ میں دو لمحے
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
بقلم زائر بدر: |
|
اسلام کا پہلا وە عظیم معرکہ جس میں ھزار
کفار کے مقابل 313 بے سر و ساماں مجاہدین اترے17 رمضان المبارک کو لڑا گیا،
کفار سامان ضرب و حرب سے لیس تھے اور جنگی تربیت یافتہ بھی- اصحاب رسول
غربت و افلاس کے باوجود ایمان کی بے پناە قوت و جذبات کے ساتھ رسول اکرم
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے والہانہ محبت و الفت کے جوھر سے آراستہ تھے-
عقلی اعتبار سے میدان مسلمانوں کے ھاتھ معلوم نہ ھوتا تھا- کفار اس ارادے
سے مکمل تیاری سے آئے تھے کہ شمع نبوت کو بجھا دیں گے-
بدر کے میدان میں عزیمت کی وە تاریخ مرتب کی گئی کہ جس کے دوش پر ھر اسلامی
فتح کا پیغام آگے بڑھا- آفاق و انفس پر جو نغمہ توحید و رسالت گونج رہا ھے
بلا شبہ یہ اصحاب بدر کے جذبہ عشق رسول کے اظہار میں جاں نثاری کا نتیجہ ھی
ھے- بدر کے 313 مجاہدین نے اللہ کی مدد سے بے مثال کامیابی کی تاریخ رقم کی-
فرشتگان الہی ان کی مدد کو اترے- حق کے فروغ کا یہ بے مثل معرکہ اخلاص و
ایمان کی عظیم کامیابی کا منفرد باب ھے جس کے دوش پر حق و باطل کے مابین حق
کی فتح کا تمغہ جیتا جائے گا-
ھم اپنے انھیں آثار کی تلاش میں 16 رمضان المبارک 1437ھ کی صبح بدر کے مقام
جا پہنچے- عالم تصور میں آج بھی محسوس ھو رہا ھے جیسے ابھی معرکہ جاری ھے-
جذبہ ایمانی سے سرشار اصحاب رسول کی سنانیں، شمشیریں باطل کی تیز و تند
یلغار کو پامال کر رہی ھیں- وادئ بدر میں نصرت و کامرانی کی مشکبار فضا آج
بھی دھڑکتے قلب کے ساتھ محسوس کی جا سکتی ھے-
دین متین کا گلستاں یوں ھی نہیں لہلہایا ھے، اسلام کی تابشیں بدر کے
آفتابوں کے ایثار کا نتیجہ ھیں- 17 رمضان المبارک کو وقوع پذیر یہ معرکہ
ھماری تاریخ کے ماتھے کا جھومر ھے- ھماری تاريخ کا سب سے روشن باب ھے بدر-
دھڑکتے دل کے ساتھ ھم اپنے آثار کی جانب رواں دواں ھیں- مدینہ منورە سے ھم
نے سفر کا آغاز کیا- طویل راە طے کرنے کے بعد جبل ملائکہ پہنچے جہاں بلبل
سدرە حضرت جبریل سپاە ملائکہ کے ساتھ حمایت اصحاب بدر کو اترے- پہاڑوں سے
گھری وادی جلالت کا احساس دلا رہی تھی- کچھ آگے بڑھے تو میدان بدر سامنے
تھا- اس وادی نے فتح و نصرت کے وە پھریرے لہرائے که آج بھی اصحاب بدر کی
تعلیمات پر عمل آوری سے ھر معرکۂ حق و باطل میں حق کی فتح حاصل کی جا سکتی
ھے، لیکن ضروری ھے:
مقام بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ھیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
(اقبال)
یہاں ھم نے اصحاب بدر کے مزارات پر حاضری دی- جن کی شہادت حق کی علامت بن
چکی ھے، ان کے مزارات کو ڈھیریوں میں بدل دیا گیا ھے- حیات میں کفار مکہ نے
ظلم ڈھایا بعد شہادت کلمہ گویوں نے (بیسویں صدی میں) اصحاب بدر کے مدفن پر
بلڈوزر چلوا کر کیا پیغام دیا! اس مقام پر آنکھیں چھلک پڑے تو اسے صحابہ
کرام سے محبت ھی کہیے- اپنی تاریخ کھدیڑنے کا یہ عمل کسی قوم میں نھیں بتا
سکتے- قومیں ویرانے دریافت کر کے تاریخی آثار محفوظ کر رہی ھیں- جن کی
تاریخی اہمیت نھیں وە اپنے آثار کی تلاش میں سرگرداں ھیں- جن کی تاریخ
آئیڈیل اور نمونۂ جہاں بانی ھے وە اپنے ھی تاریخی مقامات مسخ کریں یہ المیہ
ھے- عالی شان تعمیرات اور حرمین کی توسیعات سے بدر کی تاراجی کے جرائم پر
پردە نھیں ڈالا جا سکتا- ترکوں نے اسلامی تاریخی آثار کو چن چن کر محفوظ
کیا تھا- آج معاملہ برعکس ھے-
ھم نے فاتحہ خوانی کی- محفل ایصال ثواب منعقد کی- مفتی حفیظ اللہ نعیمی نے
رقت انگیز دعا کی- آنسوؤں کے ھجوم میں اسلام کے محسنوں کو خراج عقیدت پیش
کیا گیا- اس موقع پر مولانا یامین قادری، قاری زین العابدین، شہباز اختر
رضوی نیز دیگر دس بارە افراد موجود تھے-
عقیدت کی جبیں ان ڈھیریوں کو بوسہ دیتی ھے، جس کے دامن میں شہیدان وفا آرام
کر رہے ھیں- اسلامی تاریخ کے سیکڑوں گوشے بدر کی وادی میں وا ھوتے گئے- آج
یہود و نصارٰی کی پیروی نے شکست و ریخت سے دوچار کر رکھا ھے- اسلاف کے
پاکیزە نقوش سے منھ موڑنے والے فتح و نصرت سے دور جا پڑتے ھیں- اپنے تاریخی
آثار سے ایسی کدورت یہود و نصارٰی کی فکری غلامی کا نتیجہ ھے- اللہ تعالٰی
ھمیں صحابہ کرام کی راە چلائے اور مغرب کی غلامی سے بچائے:
جاں نثاران بدر و احد پر درود
حق گزاران بیعت پہ لاکھوں سلام
(اعلٰی حضرت)
***
|
|