برداشت ‘ وضح داری اور در گز اس قدر ارزاں
کیوں ہے ؟
وحشت و اضطراب کے عالم میں سو چ رہا ہوں ۔ انتقام انتقام پکارتی مخلوق
خداکا انجام کیا ہوگا ۔کیسے وہ لمحے تھے درندگی کی آگ میں تپتی سر زمین مکہ
کے سر پر جس روز رحمت للعالمین ؐ دس ہزار کا لشکر لے کر کھڑے تھے۔ ابو
سفیان کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا وہ فراز کوہ سے اس لشکر کو دیکھ کر
آنے والے دور کو چشم تصور سے دیکھ رہے تھے۔ یہی مکہ المکرمہ جس میں ابو
سفیان اور کفر و شرک کے پشتیبانوں نے رحمت دارین ؐ اور ان کے ساتھیوں کے
لیے زمین تنگ کر دی تھی ۔یہ سب جاننے کے باوجود کہ ان سے بہترین پوری
کائنات میں اور کوئی نہیں اور مکہ والے یہ بھی سمجھتے تھے کہ بد ترین
سفاکیوں کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے حق کے پرستاروں
کے لیے آگ جلائی تھی جس میں مظلوموں کو بھونا گیا‘ آگ کے شعلے بھڑکائے تھے
ان شعلوں کو خباب الارت ؐ جیسے صحابہ کرام کے آبلے بجھاتے تھے ‘ کوڑے اور
پتھر تھے ‘ تپتی ریت تھی اور نوکیلے کانٹے ۔لہو لہو جاں نثاران رسول ؐ تڑپ
تڑپ کر گرتے ‘ اٹھتے اور پھر شمع رسالت ؐ پر قربان ہونے کے لیے پروانوں کی
طرح منڈلانے لگتے ۔ ذلت و رسوائی کے شکنجے تھے اور نفرت و حقارت ‘ اوجھڑیوں
اور غلاظتوں کے ڈھیر تھے اور یہ مقدس ہستیاں ‘ اہل مکہ نے سچ ماننے والوں
کے لیے زندگی کس قدر تنگ کر دی تھی ۔ شقاوت ‘ حقارت اور ہلاکت ان کے ہاں
عام چلن تھا ۔ شعب ابی طالب کی گھاٹی کے تین برس کے کرب کو کون بھلا سکتا
تھا ‘یہ وہ زمانہ تھا جب ایک خدا کو ماننے والے اپنے گھرکے اندر ہی جلا وطن
کر دیے گئے تھے معاشی مقاطعے کے تین سال جس میں یہ سب پروانے موت و حیات کی
کشمکش میں مبتلا کر دیے گئے تھے ۔اس پر مستزاد یہ کہ سماجی بائیکاٹ کے بعد
انہیں درختوں کی چھال اور سوکھے پتے کھاکر جینے پر مجبور کر دیا گیا ۔
اہل مکہ نے تیرہ برس تک انہیں تڑپایا ‘ جلایا ۔ جلا وطن کیا اور موت کی
نیند سلایا اس پر بھی ان ظالموں کے سینے ٹھنڈے نہیں ہوئے ۔ ہجرت کے سفر پر
جانے والوں کا پیچھا کیا ‘جب ہجرت کر کے شہر امن میں چلے گئے تو ان پر
جنگیں مسلط کر دیں ۔ ان جنگوں میں بھی انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ۔
شہیدوں کی لاشوں کو بگاڑا گیا ان کے دل اور جگر نکال کر کچے چبائے گئے ‘
خدا کے رسول ؐ کو اس قدر اذیتیں دی گئیں کہ خود اﷲ کی طرف سے جبرئیل ؑکے
ساتھ فرشتے روانہ کر کے پوچھا اگر آپ ؐ کہیں تو ان ظالموں کو پہاڑوں کے
درمیان رکھ کر پیس دیا جائے ۔رحمت للعالمین ؐ نے فرمایا۔ ’’مجھے یقین ہے ان
کی نسلوں میں کوئی نہ کوئی حق کو پالے گا۔‘‘
اﷲ کے چاہنے والوں کے جسم ہی نہیں دل زخمی اور روح تک مسل دی گئی ۔ انہیں
اتنے چرکے لگائے گئے کہ بعض صحابہ کرام ؐ بے قرار ہو کر پوچھتے تھے کہ یا
رسول اﷲ ؐ وہ دن کب آئے گا جب ان ظالموں کو اﷲ سزا دے گا ۔ مسلمانوں کے
اندر کتنی بار انتقام کی آگ شعلہ بننے کو بے قرار ہوئی لیکن وہ ؐ جو دو
جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے انہوں نے فتح مبین کے روز دس ہزار کے
لشکر کو صبر ‘ برداشت اور در گزر کے نرم جھونکوں سے ٹھنڈا کر دیا ۔ اس روز
جب ظالموں سے انتقام لینا بہت آسان تھا‘جب انتقام ہی اس روز کا انصاف تھا
‘ظالموں کے چہرے ان مظلوموں کو دیکھ کر مرجھا گئے تھے ۔ وہ لوگ جو برسوں
پہلے ظلم کے کوڑے سے بے خانماں کر دیے گئے تھے۔ا س روز ان کے ذہن میں ذرا
بھی گھمنڈ نہیں تھا بس ایک اﷲ کی کبریائی کا ورد ان کی زبانوں پر تھا۔ مکہ
کی پہاڑیوں پر ایک ہی آواز گونج رہی تھی ۔ ’’ الیوم یوم المرحمہ ‘‘ آج کا
دن رحم کھانے کا دن ہے ۔ فاتح عالم ؐ کے جاں نثار بس یہی پکارتے تھے اور اس
پکار کے اندر ایک اعلان اوربھی گونج رہا تھا۔
’’ جس نے مقابلے کے بجائے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا ‘ اس کے لیے امن
ہے ۔ جس نے ابو سفیان کے گھر پناہ لی اس کے لیے امان ہے جو بیت اﷲ میں داخل
ہو گیا اس کے لیے پناہ ہے ‘ جس نے ہتھیار ڈال دیے اس کے لیے بھی امن ہے ‘
جس نے گھر کے کواڑ بند کر لیے وہ امن میں ہے ‘ جو حکم بن حزام کے گھر داخل
ہو گیا اس کے لیے امن ہے‘ جو ابی رو حہ کے پرچم تلے آ گیا اس کے لیے بھی
پناہ ہے …… ہر جانب امن درگزر اور عفو کی پکار تھی ۔ اس روز حرم کعبہ میں
جب ان ستم شعاروں کی گردنیں جھکی ہوئی پائیں تو آپ ؐ نے پوچھا۔
’’ تمہارا کیا خیال ہے کہ محمد ؐ تمہارے ساتھ کس طرح پیش آئے گا ۔‘‘
گناہوں کے اعتراف میں جھکی گردنیں اٹھیں اور ایک پکار بلند ہوئی ۔
’’ آپ ؐ سب سے زیادہ شریف النفس انسان ہیں اور آپ ؐ ہی زیادہ معاف کرنے
والے ہیں۔‘‘
ظلم کا ایک طویل دور آپ ؐ کے سامنے تھے ‘ ظالم اپنے تمام تر غرور کے ساتھ
زمین بوس تھا لیکن آپ ؐ کا سینہ محبت کے طوفان سے بھرا پڑا تھا ۔ فرمایا ’’
آج تم پر کوئی پکڑ نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو ۔تم پر کوئی پکڑ نہیں۔‘‘
دس ہزار کا لشکر بھی یہی کہہ رہا تھا ۔’’ جاؤ تم پر آج کوئی دار وگیر نہیں
‘ تم سب جاؤ ہمیں اپنے رسول ؐ کا فیصلہ قبول ہے۔‘‘
رسول اﷲ ؐہماری محبتوں کا محور ہیں وہ ؐ کہ جو وجہ وجود کائنات ہیں ۔ سفاکی
اور استبداد کے علمبرداروں نے ان کا دل دکھایا تھا‘ جسم مبارک زخمی کیا تھا
‘ ان کے دل و جاں سے عزیز جاں نثاروں کو خاک و خون میں تڑپایا تھا لیکن وہ
رحمت کا پیکر تھے ان کے دل میں ہر اس انسان کے لیے جگہ تھی جس نے اسی دل پر
کاری وار کیے تھے۔ ظلم کی پوری دنیا کو اس روز اسی دل میں پناہ نصیب ہوئی
تھی ۔ایک ہم ہیں کہ ان کی محبت کا دم بھرتے ہیں ‘ ان کے امتی ہونے کے دعوے
دار ہیں ۔ ان سے نسبت اور تعلق کے باعث کرۂ ارض پر ’’ بہترین ‘‘ کہلاتے
ہیں۔اس کے باوجود ذرا ذرا سی بات پر شعلہ جوالا بن جاتے ہیں ۔ منہ سے آگ
اگلنے لگتے ہیں‘ ہتھیار نکال لیتے ہیں اور اپنے ہی نبی ؐ کی امت کو بھون
دیتے ہیں۔قوت برداشت ‘ عفودرگزر اور وضح داری سے عاری امت رسول ؐ کے اندر
اس قدر انتقام اور شقاوت کیوں در آئی ہے ۔ میرے اور آپ کے سوچنے کا لمحہ آن
پہنچاہے ‘ آج نہ سوچا تو پھر کب سوچیں گے؟ تب سوچیں گے جب کسی اپنے ہی
بھائی کی اندھی گولی کا نشانہ بن جائیں گے۔ |