جواز نہیں حقیقتـ!
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
کچھ دن پہلے ایک کالم تین لڑکیوں کی کہانی
پر لکھا جس کے بعد قارئین اور دوستوں کی جانب سے مختلف فیڈ بیک آیا اکثر
دوستوں نے اس کالم کو پسند کیا کہ خواتین کوتشدد کے ذریعے قتل کرنا، معاشرے
کابدنما داغ ہے جس پر آپ نے حقیقت پسندانہ تجزیہ کیااور اﷲ کرے کہ ہم اسلام
کے حقیقی روپ سے آشنا ہوجائے اور اس پر عمل پیرا ہوجائے تو ہمارے بہت سے
مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔کچھ دوستوں نے اختلاف رکھا کہ والدین اپنے
بچوں کو اسلئے نہیں پالتے جو بعد میں ان کی بے عزتی کا سبب بنیں یا بچے
والد ین کا نافرمان بن جائیں۔ والدین کو بہت دکھ ملتا ہے جب اولاد اپنی
مرضی کرے اوربچے گھر سے بھاگ کر شادی کرے۔کوئی بھی والد ،والدہ یابھائی
نہیں چاہتا کہ ان کی بہن یابیٹی کو ایسی سزا ملے یاخود ان کے قاتل بن جائے۔
بعض دوستوں کی رائے ہیں کہ اس کا قصور آپ والدین کی بجائے میڈیا یا سوسائٹی
کودے جس کی وجہ سے بچے والدین کے نافرمان بن جاتے ہیں۔ لڑکیاں عشق و محبت
کے چکر میں پڑ کر خاندان سے باہر رشتہ کرنے کی بات کرتی ہیں یا خود لڑکے
پسند کرتے ہیں جس کی اجازت کسی بھی صورت بچیوں کونہیں دی جاسکتی ۔ اس طرح
بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیں ۔ایک اور سوشل کالم’’ جھوٹ ہی جھوٹ‘‘ کو بہت
پسند کیا گیااور قارئین کی طرف سے یہ بھی کہاجارہاہے کہ اس طرح معاشرتی
برائیوں پر بھی کالم لکھا کر یں تاکہ معاشرے کی اصلاح ممکن ہوسکے۔ بعض
قارئین یہ کہتے ہیں کہ ہمارے زیادہ لکھنے والے سیاست پر لکھتے ہیں ،سیاست
سے ہٹ کر بھی معاشرے کو بہتر بنانے اور اصلاح کیلئے کالم لکھنے چاہئیں جس
سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن سیاست بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہے ۔ سیاست
دانوں کے پیچھے تمام کہانیاں گھومتی ہے۔ اگرسیاست ٹھیک ہوجائے تو ہمارے
روزمرہ کے مسائل میں کافی کمی واقع ہوسکتی ہے ۔ معاشرے میں ڈپریشن بھی کم
ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ سیاست پر ہر وقت اور ہر جگہ بات کرتے ہیں، سیاست
پرپڑھنا بھی پسند کرتے ہیں ،اسلئے ہماری مجبوری ہے کہ ہم سیاست پر زیادہ
لکھیں ۔ سوالوں کے جواب سے پہلے مجھے منٹو کی چند باتیں یاد آئی ۔ منٹو کے
بارے میں مشہور تھا کہ وہ بے باک لکھاری تھا جو اس کے دل میں آتا وہ بیان
کرتا جس کی اکثر اوقات ان کوسزا بھگتنی پڑتی لیکن منٹو کہتا کہ جب انسان بے
پردہ ہو تومیں اس کو کیسے لباس پہنا سکتا ہوں، وہ کہتا تھا کہ ہم اس معاشرے
میں رہتے ہیں جہاں پر عورت کو توکام کرنے کی اجازت نہیں ملتی لیکن اس کو
کوٹھے پر بٹھایا ضرور جاتا ہے۔منٹو یہ بھی کہا کرتاتھا کہ ہم اپنی بیٹی کے
پیدائش پر تو خوش نہیں ہوتے لیکن ہر مرد چارپائی پر عورت ضرور دیکھنا چاہتا
ہے۔ یہ وہ حقائق ہے جس پر آنکھیں بند کرکے اندھیرا ختم نہیں کیا جاسکتا۔
ہمیں کھلی آنکھوں اور دل سے بعض چیزوں کوتسلیم کرنا پڑے گا۔اس میں دورائے
نہیں کہ ہر والدین کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں۔ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے
کامیاب زندگی گزاریں جو مشکلات ان کو درپیش ہوئی ہے وہ ان کے بچوں کونہ ملے
جس طرح والدین بچوں سے پیار کرتے ہیں ان کا خیال رکھتے ہیں اس طرح بچے بھی
بڑے ہوکر والد ین کوسہارا دیں ان کیلئے بدنامی کا باعث نہ بنیں لیکن کچھ
بچے بڑے ہوکر اپنی من مانی کرتے ہیں ۔عشق اور محبت کے چکر میں پڑ جاتے ہیں
جس کا زیادہ تر کیسز میں نتیجہ صفر ہوتا ہے ۔ یہ سب باتیں سچ ہے لیکن اس کا
ہر گز یہ مطالبہ نہیں کہ جب بچے والدین کا کہنا ،ماننے سے انکار کریں یااس
جگہ شادی کا خواہش کریں جو والدین کوپسند نہ ہو تو والدین ان پر ظلم
وزیادتی شروع کرے۔ معاشرے کے چند لوگ ان کو زندہ جلانے کا حکم جاری کرے ۔
ان پر تیزاب پھینکیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ہرانسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ جب بچے
جوان ہوجاتے ہیں تووہ اپنے ہر قسم کے قول وفعل کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ میں ہر
گز یہ نہیں کہتا کہ جوان لڑکوں یا لڑ کیوں کو والدین کا کہنا نہیں ماننا
چاہیے یا ان کی مرضی پر چلنا نہیں چاہیے بلکہ دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ وہ
بچے زیادہ خوش رہتے ہیں جو والدین کے زیادہ تابعدار ہوں ‘ والدین کی مرضی
اور خواہش پر سر تسلیم خم کرتے ہیں جبکہ والدین بچوں کی بھلا ہی چاہتے ہیں
لیکن اس کے باوجودیہ نافرمانی یا یہ اسلام کے خلاف عمل نہیں ہے کہ جب بچے
اپنے رشتے خود طے یا پسند کریں۔ والدین کو بچوں کا کہنا بھی ماننا چاہیے
تاکہ کل والدین پر الزام نہ آئے بلکہ خود اپنے کیے کے ذمہ دار ہو۔ میں نے
بہت سے ایسے کیسز بھی دیکھے ہیں جس میں بچے باحالت مجبوری والدین کا کہنا
مان لیتے ہیں لیکن بعد میں بچے ساری عمر پریشانی میں زندگی گزار تے ہیں
بظاہر تو میاں بیوی کی جوڑی لگتی ہے لیکن حقیقت میں وہ ایک دوسرے سے بالکل
الگ تھلگ ہوتے ہیں۔اس طرح والدین چھوٹی سے غلطی کی وجہ سے بچوں کی زندگیاں
تباہ کر دیتے ہیں۔ اسلام نے ہر چیز کی ایک حد مقر رکی ہوئی ہے اس سے جب
انسان تجاوز کرتا ہے تو خسارہ ہی پاتا ہے۔ اسلام نے نکاح کو آسان بنایا ہے
لیکن ہم دنیاداروں نے اس کو مشکل بنا دیا ہے۔ اس طرح ہمیں معاشرے کے رسم
وروج سے ہٹ کر انسانوں کو ترجیح دینی چاہیے جو اچھائی کرتا ہے وہ اس کا صلہ
پاتا ہے جو برائی کرتا ہے وہ اس کا صلہ پاتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں لڑکوں اور
لڑ کیوں پر اعتبار کرنا چاہیے ۔ خدا نخواستہ کل ان کا رشتہ ناکام ہوجاتا ہے
تو اسکی ذمہ داری وہ خود ہوتے ہیں۔ ہمیں بچوں کو محبت ، پیار اور برداشت
کادرس دینا چاہیے نہ کہ نفرت کرنے کا درس دینا چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ
معاشرے کے بگاڑ میں میڈیا کا بھی عمل دخل ہے لیکن اس کا مطالبہ یہ ہر گز
نہیں کہ بچوں کی تر بیت کی بجائے ان پر تشد د کریں اور ان کی رائے کو اہمیت
نہ دیں۔
بچوں پرتیزاب پھینکنا ، جلنا یاان کو قتل کرنا اسلام اور قانون دونوں کے
نزدیک جرم ہے ، والدین کو معاشرے کانہیں بچوں کی خوشیوں کا خیال رکھنا
چاہیے۔ہمیں بچوں کو اس طرح مارنے پر جواز پیش نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی
جاہلیت سے پردہ اٹھانا چاہیے۔
|
|