اعتکاف کے فضائل و مسائل
(Muhammad Kaleem Ullah, )
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
امیر : عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے
فرمایا: جو شخص اﷲ کی رضا کیلیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس
کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت
آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔
ایک دن کے اعتکاف کی یہ فضیلت ہے تو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے اعتکاف
کی کیا فضیلت ہو گی؟ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو رمضان کی مبارک گھڑیوں میں
اعتکاف کرتے ہیں اور مذکورہ فضیلت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے
فرمایا: اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں
اسی طرح لکھی جاتی رہتی ہیں جیسے وہ ان کو خود کرتا رہا ہو۔
فائدہ: اس حدیث میں اعتکاف کے فوائد میں سے دو بیان کیے گئے ہیں:
1) معتکف جتنے دن اعتکاف کرے گا اتنے دن گناہوں سے بچا رہے گا۔
2) جو نیکیاں وہ باہر کرتا تھا مثلاً مریض کی عیادت، جنازہ میں شرکت، غرباء
کی امداد، علماء کی مجالس میں حاضری وغیرہ، اعتکاف کی حالت میں اگرچہ ان
کاموں کو نہیں کر سکتا لیکن اس قسم کے اعمال کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں
لکھا جاتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے:جس نے اﷲ کی رضا کیلیے ایمان و اخلاص کے ساتھ اعتکاف
کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
فائدہ: اس حدیث میں اعتکاف کرنے پر جن گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا گیا ہے
ان سے مراد گناہ صغیرہ ہیں، کیونکہ گناہ کبیرہ کی معافی کیلیے توبہ شرط ہے۔
اعتکاف کرنے والا جب مبارک ساعات میں خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتا ہے، آہ
وبکا کرتا ہے اور اپنے سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کرتے ہوئے آئندہ نہ کرنے
کا عزم کرتا ہے تو یقینی بات ہے اس کے کبیرہ گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں، اس
صورت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک میں گناہوں سے مراد کبیرہ
بھی ہو سکتے ہیں جن کی معافی اعتکاف میں ہوتی ہے۔ لہٰذا معتکف کو چاہیے کہ
توبہ و استغفار کا ضرور اہتمام کیا کرے۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم رمضان کے
آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ لیلۃ القدر کو
رمضان کی آخری راتوں میں تلاش کیا کرو۔
فائدہ: اعتکاف سے مقصود لیلۃ القدر کو پانا ہے جس کی فضیلت ہزار مہینوں سے
زیادہ ہے۔ نیز اس حدیث میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کیلیے آخری عشرہ کا
اہتمام بتایا گیا ہے جو دیگر احادیث کی رو سے اس عشرہ کی طاق راتیں ہیں۔
لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ اس آخری عشرہ کی ساری راتوں میں بیداری کا اہتمام
کرنا چاہیے ورنہ کم از کم طاق راتوں کو تو ضرور عبادت میں گزارنا چاہیے۔
چند ضروری مسائل:
ماہِ رمضان کے آخری عشرہ میں کیا جانے والا اعتکاف ’’سنت مؤکدہ علی
الکفایہ‘‘ہے،یعنی بڑے شہروں کے محلے کی کسی ایک مسجد میں اور گاؤں دیہات کی
پوری بستی کی کسی ایک مسجد میں کوئی ایک آدمی بھی اعتکاف کریگا توسنت سب کی
طرف سے ادا ہو جائے گی۔اگر کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب گنہگار ہوں گے۔ اس
اعتکاف کے چند مسائل یہ ہیں:
مسئلہ1: رمضان کے سنت اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروبِ
آفتاب سیشروع ہوتاہیاورعید کا چاندنظر آنیتک رہتا ہے۔ معتکف کو چاہیے کہ وہ
بیسویں دن غروبِ آفتاب سے پہلے اعتکاف والی جگہ پہنچ جائے۔
مسئلہ2: جس محلے یا بستی میں اعتکاف کیا گیا ہے،اس محلے اور بستی والوں کی
طرف سے سنت ادا ہو جائے گی اگرچہ اعتکاف کرنے والا دوسرے محلے کا ہو۔
مسئلہ3: آخری عشرے کے چند دن کا اعتکاف، اعتکافِ نفل ہے،سنت نہیں۔
مسئلہ4: عورتوں کو مسجد کے بجائے اپنے گھر میں اعتکاف کرنا چاہیے۔
مسئلہ5: سنت اعتکاف کی دل میں اتنی نیت کافی ہے کہ میں اﷲ تعالیٰ کی رضا
کیلیے رمضان کے آخری عشرے کا مسنون اعتکاف کرتا ہوں۔
مسئلہ6: کسی شخص کو اجرت دے کر اعتکاف بٹھانا جائز نہیں۔
مسئلہ7: مسجد میں ایک سے زائدلوگ اعتکاف کریں تو سب کو ثواب ملتا ہے۔
مسئلہ8: مسنون اعتکاف کی نیت بیس تاریخ کے غروبِ شمس سے پہلے کر لینی
چاہیے، اگر کوئی شخص وقت پر مسجد میں داخل ہو گیا لیکن اس نے اعتکاف کی نیت
نہیں کی اور سورج غروب ہو گیا تو پھر نیت کرنے سے اعتکاف سنت نہیں ہو گا۔
مسئلہ9: اعتکافِ مسنون کے صحیح ہونے کیلیے مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں:
1: مسلمان ہونا
2: عاقل ہونا
3: اعتکاف کی نیت کرنا
4: مرد کا مسجد میں اعتکاف کرنا
5: مرد اور عورت کا جنابت یعنی غسل واجب ہونے والی حالت سے پاک ہونا (یہ
شرط اعتکاف کے جائز ہونے کیلیے ہے لہٰذا اگر کوئی شخص حالت جنابت میں
اعتکاف شروع کر دیتو اعتکاف تو صحیح ہو جائے گا لیکن یہ شخص گناہگار ہو گا)
6: عورت کا حیض ونفاس سے خالی ہونا
7: روزے سے ہونا ( اگر اعتکاف کے دوران کوئی ایک روزہ نہ رکھ سکے یا کسی
وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے تو مسنون اعتکاف بھی ٹوٹ جائیگا۔)
10: جس شخص کے بدن سے بدبو آتی ہو یا ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے لوگ تنگ
ہوتے ہوں تو ایسا شخص اعتکاف میں نہ بیٹھے البتہ اگر بدبو تھوڑی ہو جو
خوشبو وغیرہ سے دور ہوجائے اور لوگوں کو تکلیف نہ ہو، تو جائز ہے۔
اعتکاف کی حالت میں جائز کام:
کھانا پینا (بشرطیکہ مسجد کو گندا نہ کیاجائے)، سونا، ضرورت کی بات کرنا،
اپنا یا دوسرے کا نکاح یا کوئی اور عقد کرنا، کپڑے بدلنا، خوشبو لگانا، تیل
لگانا، کنگھی کرنا(بشرطیکہ مسجد کی چٹائی اورقالین وغیرہ خراب نہ ہوں )،
مسجد میں کسی مریض کا معائنہ کرنا نسخہ لکھنا یا دوا بتا دینا لیکن یہ کام
بغیر اجرت کے کرے تو جائز ہیں ورنہ مکروہ ہیں، برتن وغیرہ دھونا، ضروریات
زندگی کیلیے خرید و فروخت کرنا بشرطیکہ سودا مسجد میں نہ لایا جائے، کیونکہ
مسجد کو باقاعدہ تجارت گاہ بنانا جائز نہیں۔عورت کا اعتکاف کی حالت میں
بچوں کو دودھ پلانا۔ معتکف کا اپنی نشست گاہ کے ارد گرد چادریں لگانا۔
معتکف کامسجد میں اپنی جگہ بدلنا۔ بقدر ضرورت بستر،صابن، کھانے پینے کے
برتن، ہاتھ دھونے کے برتن اور مطالعہ کیلیے دینی کتب مسجد میں رکھنا۔
ممنوعات و مکروہات:
بلاضرورت باتیں کرنا۔ اعتکاف کی حالت میں فحش یا بیکار اور جھوٹے قصے
کہانیوں یا اسلام کے خلاف مضامین پر مشتمل لٹریچر ،تصویر دار اخبارات و
رسائل یا اخبارات کی جھوٹی خبریں مسجد میں لانا،رکھنا،پڑھنا،سننا۔ ضرورت سے
زیادہ سامان مسجد میں لا کر بکھیر دینا۔ مسجد کی بجلی،گیس اور پانی وغیرہ
کا بیجا استعمال کرنا۔ مسجدمیں سگریٹ وحقہ پینا۔ اجرت کے ساتھ حجامت بنانا
اور بنوانا، لیکن اگر کسی کو حجامت کی ضرورت ہے اور بغیر معاوضہ کے بنانے
والا میسر نہ ہو تو ایسی صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ حجامت بنانے والا
مسجد سے باہر رہے اور معتکف مسجد کے اندر۔
حاجاتِ طبعیہ:
پیشاب،پاخانہ اوراستنجے کی ضرورت کیلیے معتکف کو باہر نکلنا جائز ہے،جن کے
مسائل مندرجہ ذیل ہیں:
1. پیشاب، پاخانہ کیلیے قریب ترین جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔
2. اگر مسجد سے متصل بیت الخلاء بنا ہوا ہے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی
حرج نہیں ہے تووہیں ضرورت پوری کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو دور جا
سکتا ہے، چاہے کچھ دورجانا پڑے۔
3. اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ
فارغ ہونے کے بعد ایک لمحہ بھی وہاں ٹھہرنا جائز نہیں۔
4. قضاء حاجت کیلیے جاتے وقت یا واپسی پر کسی سے مختصر بات چیت کرنا جائز
ہے، بشرطیکہ اس کیلیے ٹھہرنا نہ پڑے۔
|
|