بحرانوں اور طوفانوں کا دلدادہ
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
جناب سردار عبدالرحمن کو اس دنیا سے گزرے
دو سال ہوچکے ہیں،پھر بھی لوگ پوچھتے ہیں انہیں یاد کرتے ہیں ،دنیا سے چلے
جانے کے بعد بھی جسے یاد رکھا جائے اس کی زندگی میں کچھ تو ہوتا ہے۔،اب
سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ خدمت خلق کے جزبے سے سرشار بھی تھے،
بحرانوں اور طوفانوں کے پروردہ بھی ۔ ان کی سرکاری ملازمت بھی بحرانوں اور
طوفانوں سے بھرپور تھی ۔ ایسا لگتا ہے ان کی زندگی میں جب کوئی بحران نہیں
ہوتا تھا تو وہ ایک بحران پیدا کرلیتے تھے ۔ 1995 میں ناظم اعلی تعلیمات
آزاد کشمیر کی ذمہ سے ریٹائرڈ ہونے والے سردار عبدالرحمن کا تعلق راولاکوٹ
کے نواحی قصبے دریک سے تھا مگر وہ اپنی انقلابی طبعیت کے باعث آزاد کشمیر
بھر میں جانے جاتے تھے ۔ ان کی زندگی میں یکسانیت نہیں تھی بلکہ ہمیشہ اپنے
جذبہ کے ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔ فطرت ہی کچھ ایسی پائی تھی کہ ہمیشہ اپنے سے
طاقتور آدمی سے ٹکر لیتے تھے۔ ناظم اعلی تعلیمات آزاد کشمیر کی ذمہ سے
ریٹائرڈ ہونے والے سردار عبدالرحمن نے راولا کوٹ میں متحدہ محاذ کے پلیٹ
فارم سے لوگوں کو عوامی مسائل کے حل کا شعور دیا، انہیں جینے کا حوصلہ دیا۔
وہ سفر زندگی کے اختتام کی حقیقت سے آشنا تھے۔ سفر زندگی کے اختتام سے چند
ماہ پہلے اس سچ کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے طبی سائنس نے غیر معمولی ترقی
کرلی ہے۔ ڈاکٹروں نے کلون ٹیکنالوجی کے ذریعے بھیڑ تک بنا دی ہے۔ جسم کی
پیچیدہ مشینری کے ہر چھوٹے پرزے تک ان کی رسائی موجود ہے مگر موت کا علاج
ان کے پاس بھی نہیں ہے؟ موت برحق ہے۔ یہ کہتے ہوئے رکے اور پھر مطمئن سے ہو
کر بولے اچھا ہی ہے موت کا ترقاق دریافت نہیں ہو ورنہ دنیا زیادہ مشکل اور
انسانی مسائل زدہ ہو جاتا۔ زمین لوگوں کا بوجھ کیسے سہارتی؟ بڑھاپے میں
انسانوں کی زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ہر روح کی طرح انسان
کی زندگی کا خاتمہ نہ ہوتا تو بڑھاپے میں کوئی ادھر پڑا ہوتا اور کوئی ادھر،
انہیں کون سنبھالتا کون خیال رکھتا، کون کھانا کھلاتا۔ اچھا ہی ہے زندگی کے
خاتمے پر زمین انسان کو اپنی گود میں لے کر سنبھال لیتی ہے ۔ اسی سچ کے
سامنے سر تسلیم ختم کرتے ہوئے 17جون 2014کی شام بزرگوار عبدالرحمن بڑے
اطمینان سے سفر زندگی کا خاتمہ کر گئے۔ مرض کی شدت سے ہونے والی تکلیف پر
افسردہ ہوئے چیختے چلاتے رہے اور نہ ہی پریشانی کا اظہار کیا بس لگتا تھا
انہیں آنکھ لگ گئی ہے۔ 80سالہ زندگی میں 20سال پڑھائی کو دیئے 41 سال محکمہ
تعلیم کی نذر کیے اور 19سال سماجی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا، پڑھائی کے
20سالوں میں بھارتی فوج کی قید میں رہ کر کشمیر کی آزادی کے لیے اپنا حصہ
ڈالا اور محکمہ تعلیم میں خدمات کے دوران مستحقین کو ان کا حق دینے کے جرم
میں چھ ماہ پابند سلاسل رہے۔ سرخرو ہو کر باہر آئے اور خدمات کا سلسلہ جاری
رکھا۔ بیماری کے باعث 22 سال سے وہیل چیئر پر براجمان منگ آزاد کشمیر سے
محکمہ تعلیم کے ریٹائرڈ افسر محمد فاضل نے لکھا تھا کہ میرے استاد گرامی
جناب عبدالرحمن نے قوم کے نونہالان کی آبیاری کرنے کی کاوش جس جانفشانی سے
کی یہ انہی کا کام تھا۔ ہماری ساری نسل پر ان کے جس قدر احسانات ہیں انکا
بدلہ نہیں چکایا جاسکتا۔ہمیشہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس عبدالرحمن کا
کردار بھی صاف و شفاف تھا انہوں نے مال و دولت بنانے کے بجائے دوسروں کے
کام آنے کا مشغلہ بنا رکھا تھا ۔ سردار عبدالرحمن کی زندگی ملازمت اور
سیاست کے دو پاٹوں میں بٹی ہوئی تھی وہ خدمت کے جذبے سے سرشار تھے، منفرد
سیاسی نظریات رکھتے تھے، فیاضی، بردباری،برداشت، مساوات اور اعلی اخلاقی
روایات ان کی شخصیت کے اہم پہلو تھے۔ کہا جاتا ہے کہ غیر معمولی فیاضی کے
باعث ہر مہینے کی 5تاریخ تک ان کی جیب خالی ہو جاتی تھی ایسے لوگ کم ہی
ہوتے ہیں جو اپنی جیب خالی رکھ کر دوسروں کی ضروریات پوری کرتے ہیں ۔،
زندگی کی تلخیوں اور محرومیوں کے شکار افراد کو جینے پر اکساتے تھے ان کی
رہنمائی کرتے تھے۔ خدمت انسانیت کے انہی اعلی جذبات کے باعث اللہ تعالی نے
انہیں ہمیشہ سرخرو کیا۔کیا کشمیر کا خطہ ایک جدید فلاحی ریاست بن سکتا ہے؟
۔ یہ سوال ہر شخص کی دلچسپی کا مو ضوع رہا ہے ۔ سردار عبدالرحمان بھی کشمیر
کے لیے جدید فلاحی ریاست کا خواب دل میں بسائے ہوئے تھے ان کے خیال میں
کشمیر کی جغرافیائی اکائیوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایسی ریاست کا
روپ دھار سکے جو یورپ کے کسی ملک کی طرح ہو ، جہاں ہر شخص کی جان و مال ،
عزت وقار کے تحفظ کی ذمہ دار ریاست ہو ۔ ایک ایسی ریاست جہاں پر امیر اور
غریب کے بچے کو تعلیم صحت اور کیریئر بنانے کے یکساں مواقع میسر ہوں ۔ ان
کے انہی خیالات کے باعث آزاد کشمیر کے قوم پرست نوجوان ان کے زیادہ قریب
تھے ۔ ریٹائرڈ منٹ کے بعد متحدہ محاذ کے نام سے تنظیم قائم کی ۔ راولا کوٹ
احاطہ کچہری میں دفتر قائم کیا اور تواتر کے ساتھ آخر دم تک دفتر میں بیٹھے
رہے ۔ متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے انہوں نے عوامی مسائل کے حل کے لئے
جدوجہد شروع کی ۔ آزاد کشمیر بالخصوص پونچھ میں لوگوں کو یونیورسٹی ، کالج
اور نئے ہسپتالوں کے قیام کا شعور دیا ۔ متحدہ محاذ کا دفتر سیاسی ، سماجی
سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا ۔ نوجوانوں اور سیاسی امور سے دلچسپی رکھنے والوں
کے لئے متحدہ محاذ کا دفتر اہمیت کا حامل تھا کیونکہ دفتر میں انہیں نئے
خیالات اور حالات سے آگاہی کے علاوہ چائے بسکٹ سے تواضح اور اخبارات کے
مطالعے کا موقع بھی ملتا تھا ۔ کتابوں اور اخباروں کے ڈھیر میں پھنسے رہنے
والے عبد الرحمان کے مطالعے کی میز پر رکھی چائے کی پیالی کبھی بھی خالی
نہیں ہوئی ۔ ان سے ملنے آنے والا کوئی بھی شخص ان کے دستر خوان کی برکت سے
محروم نہیں ہوا ۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو اور کئی دریچے تھے جہاں افکار
اور خیالات کی بھرمار تھی ۔ ان پہلوں میں فیاضی ، خدمت اور حوصلہ افزائی کا
عنصر غالب تھا ۔ اب جبکہ وہ اس دنیا میں موجود نہیں تاہم انکی روشن روایات
موجود ہیں یہ روایات ہماری کامیابی اور نیک نامی کا ذریعہ ہو سکتی ہیں۔ان
کے جانے کے دوسال بعد بھی ہم ان کی کمی محسوس کررہے ہیں ۔ اللہ تعالی ان کی
معفرت فرمائے اور ان کو جنت میں اعلی مقام دے آمین ثم آمین۔ |
|