کرپشن کے متعلق تو ہم سب جانتے ہیں
کہ اس کے معنی بد عنوانی کے ہیں۔ معیشت کی دنیا میں کرپشن ایسی خدمات یا
مواد کا حصول ہے جس کا وصول کندہ قانونی طور پر حقدار نہیں ہوتا جو کک بیک
(Kick Back) یعنی خفیہ معاہدے کے تحت تھوڑی سے رقم معاوضہ دیکر اپنا مقصد
کے حصول کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ یہاں پاکستان میں صرف غیر قانونی کام پر
نہیں بلکہ جائز کام پر بھی رشوت کے سوِا کچھ نہیں چلتا ہے ۔ ہائی لیول
سفارش ، منت و سماجت کے با وجود بھی کک بیک چلتا ہے ۔ جسے ہم اکثر بخشش کے
نام سے بھی پکارتے ہیں۔ یہ اسلام میں حرام ہے بلکہ، دنیا کی ہر مذہب کے
کتاب میں بھی اس کی مما نعت ہے لیکن پاکستان کی اپنی سیاسی ، حکومتی و بیو
روکریسی کی کتاب میں بخشش کے نام سے ،مٹھائی کے نام سے، چائے پانی کی قیمت
کے نام سے مورثی حق تصور ہوتا ہے۔ ان کی لین دین باہمی رضامندیہوتی ہے۔
پاکستان میں عوام ، میڈیا، ادارے اور حکمران و سیاست دان سب جانتے ہیں کہ
یہ ایک زہر ہے جو کہ ملک پاک سر زمین کو دیمک کی طرح تباہ و برباد کر رہا
ہے لیکن افسوس کہ کوئی اس کے خاتمے کے لئے ٹھوس و مناسب اقدام نہیں اٹھاتا
ہے اور نہ ہی کوئی اس کا معیاری حل تلا ش و پیش کرتا ہے اور نہ ہی اس کے
خلاف تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے چرا غ لیکر اسے ڈھونڈتے ہیں۔
6مئی کو نیب نے بلوچستان کے سیکر ٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو محکمہ لوکل
گورنمنٹ میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد خورد برد کے الزام میں گھر پر چھا پہ
مار کر اسے گرفتار کر لیا ، گھر پر چھاپے کے دوران 63 کروڑ روپے جس میں سے
20 کروڑ روپے کے ڈالرز اور پرائز بانڈ ز، کروڑوں روپے مالیت کے زیورات اور
دیگر دستاویزات بھی قبضے میں لے لی گئیں ، دیگر افسران کے خلاف بھی چھاپے
مارے جا رہے ہیں۔ مشتاق رئیسانی نے نیب کے تفتیش کے دوران خود ہی بتایا کہ
اس کے گھر میں یہ تمام مواد موجود ہیں۔یہ 1.5 ارب 2013 سے 2015ء تک صرف
محکمہ لوکل گورنمنٹ میں کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوئے ہیں۔
6مئی کو میر خالد خان لانگو مشیر خزانہ بلوچستان جو رضاکارانہ کے طور پر
اپنے زیرنگرانی محکمہ خزانہ کی منصب سے صرف اس وجہ سے مستعفی ہوئے ہیں کہ
انھوں نے اسمبلی میں کہا تھا کہ اگر ڈاکٹر عبد المالک بلوچ کے دور میں ان
کی ٹیم کی کوتاہی سے کوئی ایک لاکھ روپے کی بھی کرپشن ثابت ہوا تو اپنے
عہدے سے ریزائین کریں گے کیونکہ ان کی موجودگی و سرپرستی میں سینئر بیو
روکریسی کرپشن میں ملوث ہوا ہے ۔ ان کی الودائی کو ہم دو نظر سے دیکھتے ہیں۔
پہلا یہ کہ معروف مولوی تمیز الدین ، ملک معراج کی یاد تازہ کر دی کہ آ ج
بھی سچے مسلمان و فرض شناس لوگ بلوچستان و پاکستان میں موجود ہیں جن کو
کرسی کی کوئی زرا برابر بھی پروا نہیں تھی ۔ اپنے عہد میں غیر قانونی عمل
ناقابل برداشت محسوس کیا ہے۔ میر خالد خان لانگو کا کہنا تھاکہ میرا ضمیر
اس بات کی مجھے اجازت نہیں دیتا کہ جب تک میرے محکمے کے ماتحت لوگوں پر
الزامات کا فیصلہ نہیں ہوتا ، اپنے منصب پر بیٹھ کر اختیارات کا استعمال
نہیں کرسکتا ہوں۔ نیب و حکومت بلوچستان ملزم مشتاق رئیسانی سیکرٹری خزانہ
بلوچستان کے خلا ف شفاف تحقیقات کرے ( یاد رہے کہ میر خالد خان لانگو پر
کسی قسم کا کوئی الزام نہیں ہے اس نے صرف وقتی طور پر اپنے ختیارات کو ختم
کر کے اپنے خلاف بھی تحقیقات کا راستہ دیا تاکہ بھول چوک میں ان سے یا ان
کے ماتحت افسران سے کوئی غلطی بھی ہو ئی ہو تو شفاف تحقیقات سے عوام اور
میڈیا کے سامنے سزا یا جزا ہو)یہ عمل اُس وقت سامنے آیا جب مشتاق رئیسانی
سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے گھر پر چھاپہ لگا تھا۔
دوسری بات یہ محسوس ہوتا ہے کہ تو میر خالد خان لانگو نے بلوچستان کی تاریخ
ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ میں وہ بہادرانہ کام کیا ہے جو سیاسی حکومتی
اَوراق میں کم ملتی ہے۔لیکن نیب نے موقع سے فائدہ اٹھا کر میر خالدخان
لانگو کو بھی تفتیش کے دائرے میں شامل کر کے دو نوٹس کے بعد 25مئی2016ء کو
قبل از گرفتاری کی ضمانت مسترد ہونے پر نیب کے اہلکاروں نے بلوچستان ہائی
کورٹ کے باہر لانگو قوم کے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں گرفتار کر کے لئے
گئے ، شدید احتجاج شروع ہونے قبل ہی میر خالد خان لانگو نے قبائلی و
ہمدردوں سے احتجاج نہ کرنے اور نیب کے ساتھ خصوصی اخلاقی تعاون کی ہدایت کی
تھی۔ گرفتاری کے بعد خالق آباد ، قلات، کوئٹہ ،حب چوکی، خضدار، نصیر آباد ،
جعفرآباد، صحبت پور سمیت بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں دھرنے ، جلسے جلوسوں
اور پیا جام ہڑتالوں نے بلوچستان کو گھیرے میں لے لیا ۔ نیب نے چودہ دن
ریمانڈ کے بعد ایک بار پھر ریمانڈ کی درخواست احتساب عدالت سے منظور کروائی
، دوسری جانب ٹھیکیدار سید سہیل شاہ، خالق آباد کے ایڈمنسٹر یٹر سلیم شاہ
اور سابق سیکر ٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے ساتھ تاحال میر خالد خان لانگو
بھی زیر تفتیش ہیں ۔
گزشتہ روز 24جون 2016ء کو سابق سیکر ٹری خزانہ مشتاق رئیسانی نے اپنے وکیل
اور دوران تفتیش اعتراف کیا ہے کہ گھر سے پکڑی گئی رقم سے میر خالد خان
لانگو کا کوئی تعلق نہیں ہے ، خالق آباد کے ایڈمنسٹر یٹر سلیم شاہ کی گھر
زیر تعمیر ہے جس وجہ سے انھوں یہ رقم امانتاََ میرے گھرمیں رکھوائی تھی۔
سلیم شاہ نے مزیدکچھ افسران و بااثر شخصیات کے
نام اگل دیے ہیں جن کو بھی دائرہ تفتیش لانے کی ضرورت ہے۔تفتیش کے دوران سلیم
شاہ کی طبیعت خراب ہونے کے بعد انھیں سی ایم ایچ منتقل کیا گیا ہے ۔
درحقیقت : بلوچستان میگا کرپشن کیس میں چار اہم کردار پکڑے جا چکے ہیں نمبر
ایک مشتاق رئیسانی جس کے گھر سے رقم برآمد ہوئی اور رقم سے قبل ہی محکمہ
لوکل گورئمنٹ میں ڈیڑھ ارب روپے کرپشن کیس میں ملزم تھا، نمبر دو سابق مشیر
خزانہ میرخالد خان لانگو جو وقت کے مشیر خزانہ تھے جنھوں نے کرپشن کیس کے
بعدعہدے سے علیحدگی اختیار کی اور دائرہ تفتیش کو آسان بنا دیا ، نمبر تین
خالق آباد کے ایڈمنسٹر یٹر سلیم شاہ جس کا نام مشتاق رئیسانی نے ابتدائی
تفتیش میں لیا ہے اور رئیسانی ہاؤس سے رقم ان کی بتائی جاتی ہے ، نمبر چار
سید سہیل شاہ جوکہ ٹھیکیدار ہیں جن کا نام رئیسانی نے لیا ہے ۔اب میرخالد
خان لانگو کا رقم سے تعلق نہیں تو ممکن ہے میر خالد خان لانگو جلد از جلد
اپنی سابقہ منصب پر با عزت بحال ہو جائے لیکن مشتاق رئیسانی ، سلیم شاہ اور
سہل شاہ کی گھروں سے بر آمد ہونا ، رکھنا اور ٹھیکدار کا جعل سازی میں ملوث
ہونا فیصلہ باقی ہے۔
میرخالدخان لانگو کے متعلق سیاسی ، سماجی ،مذہبی و قبائلی معتبرین کا خیال
ہے کہ ’’ میر خالد خان لانگو ‘‘ نے اپنے حلقہ سمیت بلوچستان کے بیشتر
علاقوں میں حد سے تجاوز کر کے کام کروائے جو کرپشن میں ملوث نہیں ہو سکتے
ہیں‘‘۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرخالدخان لانگو کے متعلق نیب نے کیا فیصلہ
کرنا ہے ؟ تفتیش کو جاری رکھنا ہے یا تفتیش کو ختم کر کے میرخالد خان لانگو
کو باعزت بری کر کے انھیں شفاف ہونے کا سرٹیفکٹ جاری کرنا ہے ۔ یاد رہے !
سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی اس کیس میں فریق تھے
لیکن اُن کی لا تعلقی کا سر ٹیفکٹ نیب نے اسلام آباد سے جاری کیا تھاکہ
سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا موجودہ میگا کرپشن کیس
میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ |