امجد صابری کے کراچی میں دن دیہاڑے مصروف
ترین بازار میں بہیمانہ قتل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کے اکنامک ہب
کراچی میں دہشت گر دوبارہ متحرک ہیں انہیں وہاں پر موجود رینجرز کی موجودگی
کا کوئی خوف نہیں ہے کیونکہ رینجرز نے ابتک جتنے بھی دہشت گرد، قاتل، جرائم
پیشہ لوگ پکڑے ہیں ان میں سے صرف ایک صولت مرزا کو کیفر کردار تک پہنچایا
گیا ہے باقی ہماری پولیس میں موجود کالی بھیڑوں اور عدالتی نظام میں پائی
جانے والی کمزوریوں کا سہارا لیکر یا تو چھوٹ جاتے ہیں یا لمبے عرصے تک سزا
کے منتظر رہتے ہیں۔ امجد صابری کا تعلق کس فرقے سے تھا، وہ شہید ہیں یا
نہیں، اس بحث سے قطع نظر وہ ایک پاکستانی تھے او رمحب وطن تھے۔ ان کے بچوں
کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سندھ کی حکومت کی
باگ دوڑ ایسے نااہل وزیراعلی کے سپرد ہے جو اب عمر کی اس دہلیز پر ہے جہاں
انہیں سوائے اﷲ کی یاد کے کچھ نہ کرنا چاہئے۔ انکا دور حکومت کرپشن، بد
نظمی، اقرباء پروی کی ساری حدوں کو پار کرچکا ہے۔ موصوف کو اپنے صوبے کی
آبادی تک کا پتہ نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں امجد علی صابری کے
قتل پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے انکا نام جنید جمشید لے لیا۔ شعر بھی غلط
پڑھا، جب صوبہ کی باگ دوڑ ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہوگی تو کسی کی جان
و مال کو کیا تحفظ حاصل ہوگا؟ یہ تو وہ دعا کریں رینجرز کو جن کے اقدامات
کے باعث کراچی میں نسل پرست جماعتوں او ردیگر بھتہ خور گروپوں کے گرد گھیرا
تنگ کرنے کے باعث حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں ورنہ کراچی توایک الاؤ کی صورت
اختیار کرچکا تھا۔ جرائم کے علاوہ وہاں کی دو کروڑ کی عوام کو پانی، بجلی،
گیس کی سہولت بھی ناپید ہوتی جارہی ہے۔ امن و امان کی صورتحال تو خراب پہلے
ہی تھی ایسے میں نااہل وزیراعلی اور ان کی ٹیم نے گذشتہ سال کے بجٹ میں
رکھے گئے اربوں روپے کے ترقیاتی بجٹ کو استعمال تک نہ کیا۔ ٹراما سنٹر کا
افتتاح ایک معصوم بچے کی جان لیکر کیا گیا لیکن تاحال وہ چالو نہیں ہوسکا
ہے۔ پینے کے پانی کی فراہمی کے مصنوبے شروع کئے نہ جاسکے ۔ تعلیمی ماحول
دگرگوں ہے۔ نقل مافیا کا دھندہ عروج پر ہے۔ لیکن صوبائی حکومت کو سانپ
سونگھا ہے۔ انہیں عوامی مسائل او رآئے دن کی ٹارگٹ کلنگ، قتل و غارت سے
کوئی غرض نہیں ہے۔ کرپشن کا بول بالا ہے تمام احتسابی ادارے عضومعطل بنے
ہوئے ہیں جو کیمرے بازاروں ، چوراہوں پر نصب کئے گئے ہیں وہ اتنے ناقص اور
خراب ہیں کہ ان سے صرف مجرموں کی شبیہ دیکھی جاسکتی ہے ان کو پکڑنا محال ہے۔
آخر کروڑوں کی رقم اتنے ناقص کیمروں پر ضائع کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
گذشتہ ہفتے پاک افغان بارڈر پا جاری کشیدگی کے باعث آمدورفت، تجارت چند
دنوں کیلئے منقطع رہی۔ چار یا پانچ دن جو مال بردار ٹرک پاکستان سے اشیاء
خوردنی، جانور ودیگر اشیاء لے کر افغانستان جاتے ہیں ، رکے رہے جسکا
پاکستان کی مارکیٹ پر یہ اثر پڑا کہ اشیاء جن میں پھل، سبزی، فروٹ قابل ذکر
کی قیمتوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔ جیسے ہی بارڈر کو کھولا گیا قیمتیں
دوبارہ آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ ایک قصائی نے راقم کو بتایا کہ اگر چند
دن سرحد اور بند رہتی تو گوشت کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھنے میں آتی۔ اس
صورتحال کو یہاں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ
کی ایک بڑی وجہ گرانفروشی کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ساتھ تجارت ،سمگلنگ
بھی ہے۔ اگر حکومت او رہماری بارڈرز پر تعینات سیکورٹی فورسز اہم مقامات پر
گیٹ لگا رہی ہیں تو یہ اقدام درست ہے اس سے ایک طرف تو ناجائز تجارت رکے گی
دوسرے را، سی آئی اے، موساد اور دیگر ممالک کے جو دہشت گرد تخریب کار ہمارے
ملک میں تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں ان میں بھی کمی آئے گی۔
صوبہ کے پی کے میں حکومت کی گرفت اپنے ماتحت اداروں پر جیسے شروع میں تھی
وہ اب ڈھیلی ہوتی جارہی ہے۔ شروع کے سال میں انتظامیہ پولیس ، مال، ہسپتال،
بلدیہ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن و دیگر اداروں پر حکومت کی گرفت بڑی مضبوط تھی
تبدیلی کے نعرے کے باعث ہر کوئی پریشان او رخوف کے سائے میں تھا۔ مال،
بلدیہ کی کرپشن کم تھی لیکن آہستہ آہستہ اب وہی چال بے ڈھنگی ، تمام داروں
ماسوائے قدرے پولیس کے کرپشن کا جادو سر چڑھ کر بول رہاہے۔ عوام کو الٹی
چھری سے ذبح کیاجارہاہے۔ پہلے عوام عمران خان کی حکومت کو قدرے گذشتہ
حکومتوں سے اچھا گردانتے تھے لیکن اب کرپشن اور انتظامی کا گراف اونچاجانے
کے باعث عوام کو تو چھوڑو پی ٹی آئی کے اپنے 5 ممبران قومی اسمبلی صوبائی
حکومت کی کرپشن، اقرباء پروری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ گذشتہ
دنوں 5ممبران قومی اسمبلی نے عمران خان سے بنی گالہ میں اس سلسلے میں
ملاقات بھی کی تھی ۔ صوبائی ترقیاتی بجٹ کو چند شہروں تک محدود کردیا گیا
ہے۔ ناراض ممبران اسمبلی کا الزام ہے کہ PTIکی حکومت اپنے ممبران اسمبلی کے
علاقوں اور لوگوں کا کام کرنے کی بجائے JUIFکی طفیلی جماعت بنی ہوئی ہے
جسکے باعث PTI کے ممبران اپنی افادیت کھوتے جارہے ہیں۔ بہرحال ممبران PTIکے
علاوہ بھی عوامی رائے اب دن بدن تبدیل ہورہی ہے۔ اگر حال جوں کا توں رہا تو
تبدیلی کا نعرہ ایک خواب بن کر رہ جائیگا۔
|