فرد قائم ربط ملت سے ہے
(rahat ali siddiqui, Muzaffarnagar)
یہ بدیہی امرہے، اس میں تصورات کو یکجا
کرنے کی اور تصدیقات کو ترتیب دے کر نتیجہ اخذ کرنے کی ضرورت نہیں، قضایا
کو ملانا بھی درکار نہیںبلکہ جس طرح دن کی تابانی سورج کی ضیاپاشی، چاند کا
حسن، کائنات کا تنوع ہر ذی شعور فرد دیکھ کر محسوس کرتاہے۔ اسی طرح اتحاد
کی اہمیت، اس کی ضرورت اور اختلاف کی نحوست، اس کے نقصانات کو ہر ہوش مند
درد مند فردمحسوس کرتاہے، سمجھتا ہے، جانتا ہے۔ اس کے ذہن ودماغ میں یہ بات
راسخہوتی ہے کہ اختلاف کتنے عظیم خسارے کی ؎بنیاد ہے اور اس کا کتنا شدید
نقصان ملت کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔ ملت ملت باقی نہیں رہے گی، موج ہی نہیں
ہوگی تو روانی کا تصور دیوانگی سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟ جوش و جذبات
ہوں یہ تو بہت دور کی بات ہے۔ تاریخکے صفحات پلٹتے جائیے اور ان قوموں کے
حالات دیکھتے جائیے جو انتشارو اختلاف کا شکار ہوئیں، ان کی طاقت وقوت سب
کچھ خاک میں مل گیا۔ ذلت انکا مقدر ہوئی، تباہی ان کا نصیب ٹھری، خوف و
ہراس کےبادل، ہر لمحہ ان پر چھائے رہے اور بالآخر ان کا وجودہی ختم ہوگیا،
وہ قصۂ پارینہ ثابت ہوئیں اور تاریخ کا عبرتناک حصہ بنیں، اختلاف و انتشار
گھن کی طرح بہت سی قوموں کے وجود کو کھا گیا اور احساس بھی بس ان کا وجود
بھر بھرا کر گر پڑا اور کائنات سے ان کا خاتمہ ہوگیا۔اس لئے دنیا کے اندر
اتحاد و اتفاق کی بڑی اہمیت اور قدروقیمت ہے۔ اس کے مقام ومرتبہ کو
خداوندقدوس نے قرآن مقدس میں بیان کیا کہ وہ وقت یاد کرو جب تم ایک دوسرے
کہ دشمن ہوتے، تھوک دینے پر تلواریں چلاتے، تمہاری نسلیں تباہ ہوجاتیں،
خاندان کے خاندان اختلاف کی بھینٹ چڑھ جاتے، ہمنے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا
ہے، محبت و اخوت کا جذبہ پیدا کیا، پیار کی انوکھی مثالیں تمہارے درمیان
ہوئیں، متحیر کرنے والے واقعات تمہارے درمیان رونما ہوئے اور جان دے کر بھی
تم محبت کو نبھاتے رہے اور خاص طور سے مسلمانوںکوآپسی میل، محبت کی تاکید
کی جاتی رہی، اس کی اہمیت اورمقام سے روشناس کرایا جاتا رہا، چونکہ چند
عناصر انسان کے وجود میں ایسے ہیں جو اس حقیقت کے بدیہی ہوتے ہوئے بھی عقل
انسانی سے اسے ایسا محو کردیتے ہیں کہ لاکھ دلائل کے بعد بھی اسے یاد
دلاپانا اور ثابت کرنا امر ناگزیر اور ٹیڑھیکھیر ہوتا ہے۔اس لئے اللہ تعالی
نے قرآن حکیم میں بیان کیا کہ تمام مسلمان بھائی ہیں، اپنے بھائیوں کے
درمیان صلح کراؤ،ایسی تدابیر اختیارکرنا جو اتحاد واتفاق کا باعث ہوں اجرو
ثواب ہے، نعمت خداوندی ،دولت خداوندیہے، اس دولت پر بیش بہا فوائد مرتب
ہوتے ہیں، دنیاوی و اخروی فوز و فلاح کا ترتب اس نعمت عظمیٰ پر منحصر ہے۔
کائنات میں وقار ملتا ہے، حیثیت تسلیم کی جاتی ہے، مسائل کےبادل چھٹ جاتے
ہیں، مشکلات کی آندھیاں خاموش ہو جاتی ہیں،تکالیف کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے
ہیں اور خاص طور پر ان حالات میں جب کہ مسلم قوم کی آبرو داؤ پر لگی ہوئی
ہے دنیا میں کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود بہت سے اسلامی ممالک اور اسلامی
طاقتوں کے باوجود حالات ناقابل بیان ہیں، شام جل رہا ہے، فلسطین سلگ رہا ہے،
عراق وافغانستان ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہیں، ہزاروں افراد جان اور جسم کی
قید سے آزاد ہوگئے۔ بوڑھوں نے اپنے جوان بیٹوں کے جنازوں کو کاندھوں پر
اٹھایا، عورتوں کی ممتا، ان کی محبت تڑپ کر رہ گئی، جب شیر خوار بچے ان
کیگود میں کلکاریوں کے بجائے موت کی نیند میں گم سم بیجان ہیں، تڑپتی بلکتی
مائیں محبت کاجنازہ اٹھتے ہوئے دیکھتی ہیں، یہ کبھی کبھی کا قصہ نہیں، ہرآن
کا فسانہ، ہر لمحہ کا واقعہ ہے جسے روئے زمین اپنے سینے پر جھیلتی ہے اور
ماتم کرتی ہے، قوم مسلم کی بے بسی پر اور ماتم کناںہوتی ہے، ان کے آپسی
خلفشار پر اور آگے بڑھئے تو ہمارا ملک ہندوستان جہاں مسلمانوں کی تعداد کئی
ممالک کے برابر ہے مگر ان کی بے بسی وبے کسی کا عالم انتھائی دلدوز دل شکن
ہے، خوف وہراس کا عالم ہر لمحہ ہر گھڑی ایک نیا مسئلہ کبھی دہشت گردی کے
نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں اور کبھی میڈیا انہیں بدنام
کرنے کی سازشیں رچتا ہے۔ عام انسانوں کے قلوب میں مسلمانوں کے تئیں نفرت،
بغضو عناد کا بیج بوتا ہے جس کا درخت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں اگتا ہے،
مسلمانوں کیجان و مال، عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا جاتا ہے مگر مسلمانوں میں
اتحاد نہیں ہوتا، مل جل کر مسائل کا سد باب کرنے کی سعیٔ پیہم نہیں ہوپاتی،
افراداٹھتے ہیں مگر حالات کی گردش ان کے قدموں کو ڈگمگا دیتی ہے۔ آج بھی
بہت سے ہمارے ملی رہنما ہیں جو اس کام میں مصروف ہیں۔اس طرز کا ایک بے مثال
کارنامہ جس کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوگئیں، قلوب فرحت و انبساط سے کھل اٹھے،
عید کا سماں ہوگیا جب مولانا توقیر رضا خان صاح حفید اعلیٰحضرت نے علم و
عمل کے تاج محل میں قدم رکھا اور سنگھ کے ارادوں کو ان کی خواہشات، ان کے
حوصلوں کو چکنا چور کردیا اورمحبت وامن کا پیام ملت اسلامیہ میں لے کر کھڑے
ہوئے سنگھی فکر کے حامل افراد کے سینوں پر سانپ لوٹ گئے اور وہ جال جو وہ
بن رہے تھے اسے مولانا محترم نے پل بھر میں مکڑی کا جالہ ثابت کردیا۔ ان کی
مسلمانوں کو منتشر کرنے کی مسلکی بنیاد پر لڑانے کی تمنا پر کاری ضرب لگی،
یہ قدم نہایت ہی مستحسنہے اور یقینا مولانا قابل مبارک باد ہیں، ابھی تو
ابتدا ہے، اس سمت مسلمانوں کو تیزی سے قدم بڑھانا ہے اور آپسی تمام گلوں
شکووں کو دور کرکے محبت کی ایسی فضا کو عام کرنا ہے جس میں محبت ہو، پیار
ہو، اخلاقیات کا راج ہو، انتہا پسند تنظیمیں ہمارے بے انتہا پیار کو دیکھ
کر لرزہ بر اندام ہوں۔آپسی چپقلش کا جنازہ اٹھ جائے اور مضبوط انداز سے ہم
سب مل کر اٹھیں، ساری مشکلات کو حل کرنے کی تدابیر ہوں سوچنے والی بات ہے
کہ کاشی رام اور مایاوتی نے تمام دلتوں کو متحد کیا اور ملک میں ان کا وقار
قائم ہوگیا اگر کوئی کسی دلت کو ٹیڑھی نظر سے دیکھے تو اس کے لئے مسئلہ
کھڑا بن جائے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ دلتوں کو گالیاں دیتے تھے، ستاتے تھے،
حقیر وارذل سمجھتے تھے لیکن اتحاد نے ان کی تقدیر بدل دی اور بہت کم
تعدادمیں ہونے کے باوجود ان کا وقار بلند ہوگیا لیکن قلب شکن بات ہے کہ ہم
آج تک متحد نہ ہو سکے اور اس شعر کے مصداق بنے رہے . متحد ہو تو بدل ڈالو
زمانے کا نظاممنتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہومولانا محترم کے ہم شکرگذار
بھی ہیں اوران کے جرائت مندانہ اقدام کا استقبال بھی کرتے ہیں مگر ابھی عشق
کے امتحان اور بھی ہیں۔ تمام ہی مسالک کے افراد کو اتحادواتفاق کے حوالہ سے
عوام کو بیدار کرنا چاہئے اور اختلاف رائے اختلاف ذات نہ بنے، اس پر خاص
طور سے سادہ لوح عوام کو متنبہ کرنا چاہئے ایک چیز اور ہے جو اتحاد میں
کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے وہ ہے اردو میڈیا اس طرف عوام کورغبت دلانی
چاہئے کہ پانچ ہزار کی آبادی میں ایک اردو اخبار صرف امام کے پاس نہیں
بلکہ ہر گھر پہنچے کیوںکہ اردو میڈیا حقائق پیش کررہاہے اور حقائق کا عالم
یہ ہے کہ آپ کو متحد ہونے پر مجبور کردیں گے۔آپ دیکھئے دیگر اخبارات میں
تیرہ مسلم نوجوانون کی گرفتاری اور ان کے خونخوار دہشت گرد ہونے کی خبر آپ
سب نے پڑھی ہوگی مگر ان کی رہائی کی خبر ندارد ہے، اب وقتآچکا ہے ہم اپنے
مسائل کا حل خود تلاش کریں، جو اتحاد میں مضمر ہے اور ایک اکائی بنیں۔ اپنی
میڈیا پر بھروسہ کریں سیاست میں نمائندگی کرے اور متحد ہوکر جمہوری نظام
میں اپنےوجود کا احساس کرائیں۔فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیںموج ہے
اندرونِ دریا بیرون دریا کچھ نہیں- |
|