کیا آزاد کشمیر کے انتخابات شفاف ہوں گے؟

پاکستان اور آزاد کشمیر میں انتخابات کے بعد حزب اختلاف کا ہمیشہ یہ الزام ہوتا ہے کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے ہیں اور اس بات پر احتجاج ، دھرنے اور منتخب حکومت سے استعفی لینے کی بھی باتیں ہوتی ہیں۔ آج بھی پاکستان کے انتخابات کو تین سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود شور جاری ہے کہ فلاں حلقے میں دھاندلی ہوئی اور کئی اہم انتخابی حلقوں کے مقدمات ابھی بھی زیر سماعت ہیں۔ اب جب کہ آزاد کشمیر کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ان کو خاصی اہمیت بھی دی جا رہی ہے کیونکہ ان کا بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات سے موازنہ کیا جاتا ہے اور آزاد کشمیر میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے انتخابات کو ڈھونگ اور فوج کی موجودگی میں غیر شفاف انتخابات کہا جاتا ہے اس صورت حال میں اگر آزاد کشمیر کے انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات آنا شروع ہوئے تو بیس کیمپ میں جمہوری قدروں اور ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت ہونے کے دعوے پر سوالات اٹھیں گے اور شفافیت مشکوک ہونے پر بین الاقوامی سطح پر آزاد کشمیر اسمبلی کو ریاست کی نمائندہ اسمبلی کہنے والے اس کی توقیر کو کیسے بحال رکھیں گے؟ آزاد کشمیر کا انتخابی نظام ایسا ہے کہ ابھی تک باقاعدہ الیکشن کمیشن نہیں ہے ، انتخابات سے کچھ عرصہ قبل عدالت عالیہ کے کسی موجودہ یا ریٹائرڈ جج کو چیف الیکشن کمشنر بنایا جاتا ہے جو انتخابات کرواتا ہے ۔بیس کیمپ کے انتخابات کا ایک پہلو بھی ہے یہاں نظریات کے بجائے مفادات اور برادریوں کے انتخابات ہوتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ انتخابات میں برادری ازم حاوی رہتا ہے تو غلط نہیں ہو گا ۔آزاد کشمیر کے چند احلقے ایسے ہو گے جہاں برادریوں کا کردار (انتخابات کی حد تک)کم ہو گا۔ان میں زیادہ تر وہ حلقے ہیں جن کو عرف عام میں مہاجرین کہا جاتا ہے ۔ باقی تمام حلقوں میں ووٹ برادری کے اثر رسوخ یا ملازمت اور روزگار کے مہیا کئے جانے کے جھوٹے سچے وعدوں پر ملتے ہیں ۔تاہم یہاں(مہاجرین کے حلقوں)کا مسئلہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کی رٹ قائم نہیں ہوتی بلکہ یہاں الیکشن کمیشن پاکستان یا مقامی انتظامیہ کے تحت انتخابات کروائے جاتے ہیں۔جس وجہ سے وفاقی حکومت آزاد کشمیر میں مرضی کی حکومت بنانے کیلئے ان حلقوں کا استعمال کرتی ہے اور یہ حلقے آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔آزاد کشمیر کے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے آزاد کشمیر کے صحافیوں اور عوام کے تاثرات اور انتخابات کو شفاف بنانے کے حوالے سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی سب سے زیادہ تحفظات مہاجرین کی نشستوں پر پائے گئے ۔ اس حوالے سے تجزیہ نگار ارشاد محمود ، عارف بہار ،فرحان احمد خان ،بیرون ملک مقیم کشمیری منیر صابر،امیدوار برائے ممبر قانون ساز اسمبلی نبیلہ ارشاد، انوار احمد انوار اور رمیض کاشر کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی نشستوں پر شفاف انتخاب ہونا مشکل لگتاہے خاص طور پر پنجاب اور کراچی کے حلقوں میں شفاف الیکشن کا امکان کم ہے۔یہ نشستیں وفاقی حکومت نے اپنے مفاد کیلئے رکھی ہیں تا کہ وہ آزاد کشمیر اسمبلی میں اپنی برتری قائم رکھ سکیں۔ ان کا مقصد ہی انتخابات کو غیر شفاف بنانا ہے ان بارہ نشستوں پر شفاف انتخابات کی امید رکھنا ایسے ہی ہے جسیے نوکیا (3310) پر فیس بک چلانے کی بات کرنا ہے۔وہاں مسلم لیگ ن اور ایم کیوایم من مانی کرتی رہی ہیں اب رینجر کو کراچی میں شفاف الیکشن کی ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔کہتے ہیں ۔مہاجرین نشستوں کیلئے "متناسب نمائندگی" کا طریقہ رائج کیا جائے تو کافی بہتری آ سکتی ہے اور بہت ساری خرابیوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ دوسری چیز جو سامنے آئی وہ آزاد کشمیر میں برادری ازم اور ذاتی مفاد پر ووٹ دینا ہے اس حوالے سے فرحان احمد اور مقصود منتظر کا کہنا ہے کہ ووٹ نظریات یا اجتماعی مفاد کو نہیں دیا بلکہ اپنی برادری کے امیدوار کو دیا جاتا ہے۔ تعلیمی شرح سب سے زیادہ ہونے کے باوجود قیادت کے انتخاب میں ہم خود سے دھاندلی کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں برادری ازم کی وبا کے ہوتے ہوئے شفاف اور آزاد الیکشن کے انعقاد ممکن ہی نہیں۔ ایک ووٹرکو مخالف برادری کے امیدوار کو ووٹ دینے کا سوچنے بھی نہیں دیتی خواہ امیدوار کتنا ہی اہل، باصلاحیت اور ایماندار آدمی ہو۔سیاسی جماعتیں بھی برادری کی بنیاد پر ہی کسی امیدوار کوٹکٹ جاری کرتی ہیں۔جس سیاسی کارکن کی برادری بڑی ہو تواس کی ہمیشہ بلے بلے ہوتی ہے۔ چھوٹی برادری کا کارکن چاند تارے لاکر بھی دکھائے تب بھی پارٹی قیادت اس پر مہربان نہیں ہوسکتی۔تیسری چیز جس پر تشویش پائی جاتی ہے وہ پاکستانی کی سیاسی جماعتوں کی کشمیر میں شاخیں اور وفاق کا حد سے بڑھتا عمل دخل ہے اس حوالے سے مقصود منتظر ، ریسرچ سکالر لبنی خان ،سیاسی کارکن جواد احمد پارس اور مشاہد حسین کہتے ہیں آزادکشمیر میں غیر ریاستی جماعتوں کے عمل دخل کا ناسور بڑھ رہا ہے۔ اس ناسور نے نہ صرف یہاں کی سیاست کو رواداری کے دائرے سے نکال دیا بلکہ گولی اور گالی کی سیاست ان ہی غیر ریاستی جماعتوں کی مرہون منت ہے دھاندلی میں ان کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ وفاق میں جو جماعت اقتدار میں ہو وہی جماعت یا اس کی حمایت یافتہ جماعت کی کامیابی کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جو سیاسی جماعت برسر روزگار ہو گی وہی جماعت آزاد کشمیر اور گلگت میں بھی اقتدار میں آئے گی۔ اس کے لئے آپ 2011 کے انتخابات کا جائزہ لے لیں اورموجودہ انتخابات میں دھاندلی کی ایک بڑی مثال پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا آزاد کشمیر میں حد سے زیادہ مداخلت اور ریاستی جماعتوں کا ان کے ساتھ انتخابی اتحاد ہے۔ آزاد کشمیر کی عوام کے اندر یہ جذبات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ہمارے ووٹ دینے یا نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا وفاق کے اندر جس کی حکومت ہے اسی کی کشمیرمیں بھی حکومت ہو گی۔

چوتھی چیز جو جو سامنے آئی وہ الیکشن کمیشن کا کردار اور اس کے اختیارات کے حوالے سے ہے الیکشن کمشنر کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے بالخصوص انتخابی فہرستوں کی تیاری کو آزاد کشمیر کے ہر حلقے نے سراہا ہے ۔ تاہم پاکستان کے بارہ حلقوں میں آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کے کردار پر سخت تحفظات ہیں۔اس حوالے سے تجزیہ نگار ارشاد محمود اور عارف بہار کا کہنا تھا کہ زیادہ امکانات ہیں کہ الیکشن شفاف ہوں گے کیونکہ انتخابی فہرستیں بڑی حد تک شفاف بنائی گئیں ہیں۔جو جعلی ووٹ اندراج تھے ان کو ختم کر دیا گیا ہے علاوہ ازیں سیاسی جماعتیں کافی مضبوط ہیں۔جبکہ انوار احمد انوار کہتے ہیں الیکشن کمیشن کی بطور ادارہ اہلیت و صلاحیت مایوس کن ہے اس پر مستزاد یہ کہ الیکشن کمیشن اپنے امور کی انجام دہی میں پوری طرح آزاد بھی نہیں ہے ۔

ایک اہم نقطے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے اسلام آباد میں کشمیری ریسرچ سکالر لبنی خان کہتی ہیں کہ جب تک انتخابات میں آنے کیلئے الحاق پاکستان کی شق کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے۔شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے ضروری ہے کہ ہر مکتب فکر کے لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔اس کے علاوہ کچھ اور آراء بھی ہیں جو قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہونگی جن میں اسلام آباد میں مقیم کشمیری صحافی مقصود منتظر نے اس سوال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ "آزاد کشمیر میں شفاف الیکشن چاہتا ہوں۔۔ میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں" سید خالد گردیزی کہتے ہیں کہ شفاف انتخابات اگر یہ ہے کہ لوگ بغیر کسی خوف اور دباؤ کے ووٹ پول کریں اورجو ووٹ پول ہوئے انکی گنتی درست ہو اور پھر اعلان بھی وہی ہو جو نتائج ہیں تو اسکے توقع کم ہی ہے۔ انتخابی عمل پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوکراس عمل کو آلودہ کرنے کی ریت ہمارے ہاں کارپوریٹ جمہوریت کا حسن ہے۔علاوہ ازیں شفاف انتخاب کیلئے شفاف امیدواروں کا ہونا بھی ضروری ھے مگر ہویہ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن چھوٹی اور بڑی برائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا موقع ان لوگوں کو دیتا ہے جو خواندگی کی حد تک تو ووٹر کے معیار پر پورے اترتے ہیں مگر شعور کی بنیاد پر سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔اجتماعی طور پرآلودہ لوگوں نے آلودہ طریقے سے آلودہ لوگوں کو منتخب کرنا ہے۔انتخابی عمل کو شفاف بنانے کیلئے بہت بنیادی ریفارمز کی ضرورت ہے جس میں امیدوار اور ووٹر کی اہلیت کا تعین اور پھر عملاً انتخابی عمل کو شفاف بنانے کیلئے انتظامی اصلاحات کے بغیر انتخابی عمل کا شفاف ہونا بعید از قیاس ہے۔مظفر آباد میں مقیم صحافی کاشف میر کہتے ہیں کہ یہ انتخابی نظام ہی خراب ہے۔ آزاد وشفاف انتخاب تب ممکن ہوں گے جب ووٹ برادری، علاقے اور مفاد کی بنیاد پر نہیں دیے جایں گے۔ اضلاع میں تعینات ضلعی انتظامیہ پسند نہ پسند جاری رکھے ہے، عدلیہ تک غیر جانبدار نہیں ، ایسے میں انتخابات اور نتایج رسمی اعلان کے سوا کچھ نہیں۔سیاسی کارکن الطاف بشارت کہتے ہیں کہ سرمایہ دارنہ جمہوریت میں ہر پانچ سال بعد عوام کو اپنے استحصال کرنے والوں کو چننے کی آزادی دی جاتی ہے۔یعنی گزشتہ پانچ برس اس نے ظلم کیا اب کے پانچ برس اس کو دیتے ہیں۔ جب ایسا نظام ہو تو پھر کونسی شفافیت اور کونسی بدعنوانیاں سب چلتا رہے گا۔ایک طالبعلم مشاہد حسین کہتے ہیں میرے نزدیک تو آزاد کشمیر کے اندر الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہوتی ہے۔جو بھی حکومت آتی ہے وہ عوام کی رائے دہی کی بنیاد پر نہیں بلکہ وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کی منتخب شدہ ہوتی ہے۔

شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے تجاویز دیتے ہوئے لبنی خان اور انوار احمد انوار کا کہنا تھا کہ الحاق پاکستان کی شق کا خاتمہ سب سے پہلے کیا جائے اور آزاد کشمیر کے انتخابی عمل اور دیگر مقامی معاملات میں پاکستان کی مداخلت ختم ہونی چاہئیے اور مروجہ طریقہ انتخاب کے متبادل اگر "متناسب نمائندگی" کا طریقہ رائج کیا جائے تو کافی بہتری آ سکتی ہے اور بہت ساری خرابیوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے.جبکہ نبیلہ ارشاد کا کہنا تھا کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کروائے جائیں۔ضیافت خان کا کہنا ہے کہ اس عمل کو مزید شفاف بنانے کیلئے ووٹ اور اس کی اہمیت کے حوالے سے نصابی کتب میں مضامین بھی شامل کئے جانے چاہیں۔
Danish Irshad
About the Author: Danish Irshad Read More Articles by Danish Irshad: 5 Articles with 3156 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.