زندگی اوراعتماد سے کھلواڑ

انسانوں کی زندگی اوراعتماد سے کھلواڑبربریت ہے ۔اگرایک انسان کو منرل واٹر کی قیمت اداکرکے بھی نوش کرنے کیلئے معیاری اورصحتمند پانی نہیں ملتا تویہ دوہری قانون شکنی ہے ۔ شہری کسی کوجعلی ڈاکٹرکومسیحاسمجھ کراپنا آپ اس کے سپردکردیں اوروہ نام نہادڈاکٹر انہیں تختہ مشق بنا تے ہوئے ان کی زندگیاں چھین لے توایسا شخص کسی نرمی اوررحم کامستحق نہیں ہوسکتا ۔اعتماد بھی امانت کی طرح ہے جس میں خیانت کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ایک باپ جس وقت اپنے معصوم بچے کوہوامیں اچھالتا ہے تواس بچے کی خوشی دیدنی ہوتی ہے وہ ڈرنے کی بجائے خوش ہوتا ہے کیونکہ اسے اپنے والد پراعتماد ہے کہ وہ اسے زمین پرگرنے نہیں دے گا۔وہ دعا جلدی مستجاب ہوتی ہے جواﷲ تعالیٰ کی قدرت پربھرپوراعتماد کے ساتھ کی جائے ۔تجارت کے بھی کچھ اصول ا ورضابطے ہیں ،ان کی پاسداری کے بغیر تجارت کے حقیقی ثمرات نہیں ملتے ۔وعدے وفاکرنااوردوسروں کے اعتماد پرپورااترنا انسانیت کی علامت ہے ۔

اگرکوئی انسان انسانیت اوراحساس کے مقام سے گرجائے توپھروہ حیوان سے بدتر ہوجاتا ہے ۔ایک شیر دوسرے شیرجبکہ ایک کتادوسرے کتے کاگوشت نہیں کھاتامگر عہدحاضر کے انسان ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔عہدجہالت میں لوگ صرف اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور کیاکرتے تھے مگرآج طاقتور مافیاز کمزورانسانوں کوزندہ زمین میں گاڑ رہے ہیں۔ادویات اورصحت کے شعبہ سے وابستہ لوگ زندگی بچانے کی بجائے زندگی چھین رہے ہیں۔چندگندی مچھلیوں کا گند پورے ماحول کوپراگندہ کر رہا ہے۔صاف ستھرے ،اجلے اورسلجھے لوگ بھی شک کے دائرے میں آجاتے ہیں ۔بدقسمتی سے مادہ پرستی اورنفسانفسی نے انسانی قدروں ،رشتوں اورحلال حرام میں تمیز وتفریق ختم کردی۔ہرکوئی کامیابی کیلئے شارٹ کٹ تلاش کررہا ہے۔لوگ اپنے جائزکام کیلئے بھی ناجائز طریقہ اختیار کر تے ہوئے شرمندگی تک محسوس نہیں کرتے۔پرانے عہد کے لوگ چھپ کرگناہ کرتے تھے مگراب گناہوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔آج دنیا سمیت پاکستان میں بھی رشوت اورجھوٹ کابازار گرم ہے،ہرطرف جعلسازسرگرم ہیں ۔کوئی جمہوریت اورحکومت کوجعلی کہتا ہے مگر ہمارے بازاروں میں جعلی کرنسی نوٹوں کے ساتھ ساتھ ہرقسم کی جعلی مصنوعات ،جعلی مشروبات اورمنشیات بھی دستیاب ہیں۔ہرکامیاب پراڈکٹ کی کاپی سرعام فروخت ہورہی ہے کیونکہ جعلسازی کا ارتکاب کرنیوالے قانون کی کمزوریوں کافائدہ اٹھاتے ہوئے باآسانی چھوٹ جاتے ہیں۔جعلی ڈگریوں سے صرف سیاستدان اورارکان اسمبلی مستفیدنہیں ہوتے بلکہ زندگی کے ہرشعبہ میں جعلی عناصر ریاست اور شہریوں کوبیوقوف بنارہے ہیں۔ حکومت کی مجرمانہ غفلت کے نتیجہ میں جعلی ادویات سے وابستہ عناصر خوب پیسہ بنار ہے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں کی ادویات چوری کرکے باہر فروخت کردی جاتی ہیں جبکہ مریض باہر سے جعلی ادویات کے نام پرموت اپنے گھر لے آتے ہیں ۔دکانوں پرجعلی ادویات جبکہ گلی محلوں میں عطائی ڈاکٹرز کی بھرمار حکومت اورمتعلقہ اداروں کی کمٹمنٹ اورکارکردگی پرایک بڑاسوالیہ نشان ہے ۔پاکستان میں جعلی ادویات کی تیاری اورفروخت ایک منفعت بخش تجارت بن گئی ہے ۔شہریوں کومختلف مافیاز کے رحم وکرم پرچھوڑدیا گیا ہے ۔

آج کا دور افرا تفری اور خود غر ضی کا ہے آج کل صحت اور علاج کے نام پر غریبوں اور امیروں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی کوئی قدروقیمت نہیں ہم لوگوں کوریلیف دے کران کی دعا لے سکتے ہیں مگر یہاں ارباب اختیار عوام کیلئے مسائل پیدا کرکے اپنی قبورکیلئے انگارے سمیٹ رہے ہیں۔ پاکستانیوں کو صحت اورتعلیم کے شعبوں میں درپیش متعدد مسائل ریاست کی ترجیحات درست نہ ہونے کاشاخسانہ ہیں ۔تعجب ہے حکمرانوں نے ماضی میں صحت اورتعلیم کے فنڈز میٹروبس کی تعمیر پرجھونک دیے اوراب اورنج ٹرین پرصرف کئے جارہے ہیں جبکہ سرکاری ہسپتال بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔آبادی کے تناسب سے جہاں سرکاری ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں ان میں دستیاب سہولیات ناکافی ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ مسائل کب ختم ہوں گے جعلی ادویا ت پورے ملک میں نا سور کی طرح پھیل چکی ہیں دن بہ دن ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے آج کل با زاروں میں جعلی ادویات بیچی جا رہی ہیں جومریضوں کو صحت یاب کرنے کے بجائے ان کو مزید بیمار کر رہی ہیں پہلے ایک انسان موذی مرض سے لڑ رہاہوتا ہے جب وہ ادویات خریدنے ے لئے جاتا ہے اس امید پہ کہ یہ دوا کھا کر میں جلد از جلد شفایاب ہوجاؤں گا اس کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ دوا میر ے لئے کتنی مہلک ثابت ہو گی اس غریب کو کیا پتہ کہ یہ دوا نقلی ہے یہ دوا مجھے ٹھیک کرنے کے بجائے مزید بیمار کر دے گی ہائے افسوس!انسان نما حیوان جو چند پیسوں کے عوض انسانوں کی قیمتی جا نوں سے کھیلتے ہیں ظلم اور بربریت کی انتہا ہے ایسی ادویات جو شفاء صحت کے نام پر بیچی جا تی ہیں کاش کہ وہ اصل میں انسان کو ٹھیک کر دیں۔جعلی ادویات انسان کی صحت کو بہت نقصان پہنچاتی ہیں پاکستاتی عوام اپنے بجٹ کا77فیصد ادویات خریدنے پر صرف کرتی ہےwhoکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 30/40 فیصد میڈیکل سٹورزپر جعلی ادویات فروخت کی جا تی ہیں ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان دوسرے ملکوں کے درمیان 13ویں نمبر پر ہے جو جعلی ادویات تیار کرتے ہیں ان جعلی ادویات کے استعمال سے ہمارے ملک میں مختلف اقسام کی بیماریاں پھیلتی ہیں ان کی بہت بڑ ی مقدار کراچی،لاہور،راولپنڈی،اور ملتان میں تیار کی جا تی ہے۔ تحقیقات سے ثابت ہواہے کہ یہ ادویات صحت کو بہتر نہیں کرتی بلکہ الٹابیمارانسان کومزید نقصان پہنچاتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے ''الدنیا مزرعت الاخرت '' دنیا آخرت کی کھیتی ہے، یعنی آج دنیا میں جو کریں گے قیامت کے روز اس کی جواب طلبی ہوگی محشر کے دن کیارب نہیں پو چھے گا کہ میں نے اپنے بندوں کو تمہارے پاس بھیجا تم نے ان کے ساتھ کیا کیا۔جعلی ادویات دے کر ان کی جانوں سے کھیلنا اسلامیت اورانسانیت نہیں۔ جس میں حلال وحرام کی تمیز ہو ،جونیکی اور بدی میں تفریق کرتاہومیراسچا رب بھی ا س سے محبت کرتا ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور محبت کرتے ہیں
کرو مہرباں تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

جعلی ادویات بنانے اوربیچنے والوں کے خلاف آپریشن ناگزیر ہے۔ حکومت جعلی ادویات کی فروخت کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات اٹھائے اور اس گھناؤنے کاروبار سے وابستہ درندوں کیخلاف سخت ایکشن لے جو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے سے بازنہیں آتے ۔

Mian Awais Ali
About the Author: Mian Awais Ali Read More Articles by Mian Awais Ali: 24 Articles with 19954 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.