بچوں کے لیے نصیحت

محترم قارئین، جس طرح مرد و زن کا ہم پر حق ہوتا ہے کہ انہیں دنیا کہ ساتھ ساتھ دین بھی سکھائیں. اسی طرح بچوں کا بھی ھم پر حق ہے کہ انہیں اللہ کا دین سکھائیں. یمن کے ایک محدث گزرے ہیں یعنی الشیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ. ان کی صاحبزادی ام عبداللہ عائشہ بنت مقبل بن ھادی ہیں. آپ حفظہا اللہ نے بچوں کی پرورش کے لیے اکیس چھوٹی چھوٹی نصیحتیں لکھیں جس کو ان شاء اللہ بیان کیا جاۓ گا.

یہ نصیحتیں کتاب "النصیحتی لانساء" (میری عورتوں کو نصیحت) نامی کتاب سے لی گئیں ہیں، جس کو ام عبداللہ بنت مقبل بن ھادی نے تصنیف کیا.

1. بچہ کو سیکھانا کہ اللہ کہاں ہے؟ (جیسا کہ اللہ نے قرآن میں سات مرتبہ فرمایا کہ وہ آسمانوں کے اوپر عرش پر اپنی شان کے مطابق مستوی ہے اور ہر جگہ نہیں. اسکا علم، طاقت اور قوۃ ہر جگہ ہے. اور وہ ہر چیز کو جانتا اور دیکھ رہا ہے مگر وہ خود اپنی شان کے مطابق عرش پر ہے).

2. بچہ کو تاکید کرنا کہ سیدھے ہاتھ سے کھاۓ.

3. بچہ کو تاکید کرنا کہ گرم خوراک یا پانی پر پھونک نہ مارنا.

4. جب بچہ ڈیڈھ سال کا ہو جاۓ تو اسے تاکید کرنا کہ کھانے یا پینے سے قبل بسم اللہ پڑھنا.

5. بچے کو اسلام اور ایمان کے ارکان سکھانا

6. بچے کو وضو کے احکام سکھانا

7. اپنے سیدھے ہاتھ سے کھانا اور اپنے نزدیک/سامنے سے کھانا

8. انکو اچھائ سے روشناس کرانا اور جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دینا.

9. جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انکے بستروں کو جدا کرنا

10. انکو روزے کی تربیت کرنا (یعنی انکو روزے پر ابھارنا)

11. بچوں کو صحیح عقیدے کی تربیت دینا

12. اسکو وہ نصیحت کرنا جو لقمان نے اپنے بیٹے کو کی. (دیکھیں سورۃ لقمان سورۃ:31 اور آیت نمبر: تیرہ تا آیت نمبر: انیس)

13. کسی کمرے یا گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کرنا.

14. انکو وہ احکام سیکھانا جو منع ہیں اور یہ کے وہ ان سے دور رہیں.

15. ان آیات و صحیح احادیث کا مطلب انکو سمجھانا جو ان سے متعلق ہیں.

16. انکے دلوں کو اللہ سے جوڑنا

17. قرآن کو یاد کرنے کی طرف (انکا) رجہان رکھنا

18. اپنے بچوں کو بیوقوف بچوں کے قریب نہ ہونے دینا

19. اپنے بچے کو شام کے بعد باہر نہ چھوڑنا

20. بچہ کو اکیلے نہ کھیلنے دینا اور سیکھنے کے عمل کو بیزار/ تنگ/ بور نہ بنانا.

21. اپنے بچہ کو تقوی دار (بچوں یا بڑوں) کے ساتھ بٹھانا

(حوالہ: نصیحتی لانساء)

محترم قارئین، یہ بات تو بالکل صحیح ہے کہ بچے کسی قوم کا سرمایہ
ہوتے ہیں اسی لیے انکی دنیاوی تربیت انہیں مستقبل کا ڈاکٹر، انجنیر، تاجر اور استاد بناتی ہے جو کسی بھی قوم کی بنیاد ہوتے ہیں مگر افسوس اس بات پر ہے کہ آج زیادہ تر والدین نے اپنے بچوں کی دنیاوی تربیت پر زور تو دینا شروع کیا ہے اور ہر دوسرا شخص سکول کی تعلیم پر زور دے رہا ہے مگر دینوی تربیت سے دوری اختیار کر لی گئ ہے.

اور یہ ایک بہت خطرناک عمل ہے کیونکہ اس سے معاشرے کو مستقبل میں استاد، ڈاکٹر، انجنیر، ارکیٹیکٹ، بزنس مین تو مل جائیں گے مگر دین سے دور اور تقوی سے دور. آج بچوں کے ہاتھ میں ہر طرح کے گیجیٹس، موبائیلز، مثلا ائ فون، ٹبلیٹس انٹرنٹ وغیرہ آگۓ ہیں مگر افسوس ہے کہ انکو والدین کو اس کی پرواہ نہیں ہے کہ وہ بچہ کیا سیکھ رہا ہے یا اسکو دین کی آگاہی ہے کہ نہیں؟ ارکان اسلام و ایمان کا وہ فہم و ادراک رکھتا ہے کہ نہیں؟

جب کہ اس عمل میں اس بچہ کی عمر دس، بارھ اور پندرہ تک ہو گئ ہے اور وہ نماز وروزہ کا کوئ احتمام نہیں کرتا کیونکہ اسکے ماں باپ کی نظر میں ابھی چھوٹا بچہ ہے جبکہ سات سال کی عمر میں نماز کا حکم اور دس سال میں نہ پڑھنے پر مارنا بھی جائز ہے.

اور آج سے دس یا پندرہ سال بعد جب یہ جنریشن اس حال میں پاکستان کی بھاگ دوڑ سمبھالے گی تو وہ اللہ کے دین سے کوسوں دور ہوگی، اس موقع پر صحیح روایات ذہن میں آرہی ہیں

جب ایک معاشرے میں دین سے دور وہ بچے اس حال میں بڑے ہو جائیں گے تو ان پر دین کے حساب سے جہل غالب ہو جاۓ گا ایسے موقع پر رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ (پختہ کار) علماء کو موت دے دے گا. حتی کے جب کوئ عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے (فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا) وہ خود بھی گمراہ ہوں گے دوسروں کو بھی گمراہ کر دیں گے

(صحیح بخاری،رقم: 100)

اس لیے ہمیں بچوں کو بہترین دنیا کے ساتھ ان کو اللہ کا صحیح دین بھی سیکھانا چائیے

ایک اور روایت کے مطابق جب قبر میں دفنا دیا جاۓ گا تو فرشتا سوال پوھے گا. جان بوجھ کر جاہل رہنے والے، منافق یا بدعتی یا کافر اسکے سوالوں کے صحیح جواب نہ دے گا بلکہ وہ کہے گا میں نہیں جانتا، جس طرح لوگ کہا کرتے تھے میں بھی اسی طرح کہا کرتا تھا. اس پر وہ فرشتہ کہے گا: "لا دریت ولا تلیت"یعنی تو نے نہ سمجھا نہ پڑھا اور پھر اس پر زور کی ضرب لگائیں گے

(سنن نسائ،رقم: 2053 وسندہ صحیح)

اس سلسلہ کی آخری روایت کچھ یوں ہے: رسول اللہ نے فتنوں کے وقت میں سنتوں اور خلفاء کی سنتوں کے بارے میں فرمایا: "عضوا علیھا بالنواجد"یعنی سنتوں کو اپنی داڑھوں سے مضبوطی سے تھام لو

(ابن ماجہ:رقم 42 وسندہ صحیح)

اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم آج کے بچوں اور مستقبل کے نوجوانوں کو بہترین دنیا کے ساتھ ساتھ سنجیدگی اور اخلاص اور دلیل کے ساتھ دین بھی سکھائیں تاکہ وہ جہل سے نکلیں اور ان میں دین کی محبت پیدا ہو.
 
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.