کوئی بتائے کیا کروں

جب کبھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں مسلمان ہوں‘ میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ محمد ان پر ان حد درود و سلام میرے نبی اور راہ بر ہیں اور علی شیر خدا‘ میرے امام ہیں۔ ابوزر غفاری‘ سلمان فارسی اور بلال جیسے میرے اسلاف ہیں۔ ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق‘ عثمان غنی اور امیر معاویہ مسلمانوں کے چار خلیفہ ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز جیسے عظیم حکم ران تھے۔ حسین ابن علی نے‘ جو اسلام اور بنی نوع انسان کے لیے قربانی دی‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اصحابہ کرام نے دنیا کے چپے چپے پر‘ سفری صعوبتیں اٹھا اسلام کا پیغام پنچایا۔ کچھ کا یزید امام اور جنتی خلیفہ ہے‘ یہاں ان کا ذکر بد مقصود و مطلوب نہیں۔

دوسرے ہی لمحے‘ اپنے کردار پر نظر جاتی ہے‘ تو شرمندگی کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ میں مسلمان ہوں۔۔۔۔۔۔ میں‘ اس سے بڑھ کر مذاق بھلا اور کون سا ہو سکتا ہے۔ کھلے بندوں رشوت لیتا ہوں‘ ملاوٹ کرتا ہوں‘ امانت خوری میرا اصول ہے۔ جھوٹ تو میرے روزمرہ میں داخل ہے۔ ناجائز اور ناجائز طریقے سے‘ اقتدار حاصل کرکے‘ انی مچاتا ہوں۔ اس پر مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔ بکریاں اڑانا پھنسانا اور ان سے موج مستی‘ میرے معمول میں داخل ہے۔ مائی باپ کو ایڑ پر رکھتا ہوں۔ ان کے بڑھاپے کی خوب مٹی پلید کرتا ہوں۔ جانتا ہوں‘ عمرہ یا حج کرکے سب کچھ بخشوا لوں گا۔

قاتلوں لٹیروں کی نفی کرتا ہوں‘ تو کافر۔ مروجہ اسلام میں اکبر بادشاہ کو بھی مسلمان سمجھا جاتا ہے حالاں کہ اس کا اپنا مذہب‘ یعنی دین الہی تھا۔ اورنگ زیب میرا نبی قریب بادشاہ ہے۔ اقبال کے متعلق کچھ کہتا ہوں‘ تو کافر۔ کمال اے یار‘ خطبہ الہ آباد میں کہاں پاکستان کا ذکر ہے۔ ٹی ایس ایلٹ میرا پھوپھڑ ہے‘ اصغر سودائی کے اس نعرے کو بھول چکا ہوں
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ
میں صرف خودی کو جانتا ہوں
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

خدا گویا اکبر بادشاہ ہے۔ وہ خدا جو تخلیق کار ہے‘ سلیز کے یوٹرس میں‘ کوڈ طے کر رہا ہے اسے کچھ پتا نہیں‘ کہ میرے بندے کا کتنا بنتا ہے اور اسے کب دینا ہے۔ اقبال نے تو بین الاقوامی ریاست کا نظریہ دیا تھا‘ اس نے کب اور کہاں حدوں کی ریاست کا نظریہ دیا ہے۔ اس سے متعلق سچ کہتا ہوں‘ تو کافر۔

میں نہیں جانتا کہ میں کس قسم کا مسلمان ہوں۔ فقرا کو‘ توبہ توبہ اللہ نہیں مانتا۔ یہ اچھے لوگ تھے‘ نیکی اور بھلائی کا درس دیتے رہے۔ توکل ان کا شعار تھا۔ بھلائی کی یاد تازہ کرنے کے لیے‘ ان کے ہاں چلا جاتا ہوں‘ تو مشرک کے القاب سے ملقوب ہوتا ہوں۔ کیا اچھائی کو ماننا اور اس کی عزت کرنا غلط ہے۔

حسینی رستے کو اپناتا ہوں تو کافر۔ بزرگوں کو کارساز اور حاجت روا نہیں مانتا تو زندیق۔ درود پڑھتا ہوں تو کافر‘ نہیں پڑھتا تو کافر۔ مسلمانی میرے لیے ایک پچیدہ معمہ بن گئی ہے۔ سوچتا ہوں‘ کیا کروں اور کدھر جاؤں۔ اسلام چھوڑ نہیں سکتا‘ کہ یہ ہی سچا رستہ ہے۔ اسلام ایک سادہ اور دوٹوک دین ہے۔

میں اسلام سے محبت کرتا ہوں‘ میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ خدا کے لیے کوئی بتائے‘ کیا کروں کہ میں مسلمان ہو جاؤں‘ ویسا ہی جیسے ابوزر غفاری‘ سلمان فارسی یا بلال تھے۔ اس کرم کے لیے‘ ہمیشہ بتانے والے کا احسان مند رہوں گا۔
 
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211076 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.